الوداع یاور کاظمی/محمد علی عباس

سالِ  نوء کے پہلے دن، یکم جنوری اتوار کے باعث سرکاری تعطیل تھی۔میں گھر پر ہی تھا تو دن خاصا خوش گوار رہا۔ شام کو جب ساۓ لمبے ہو رہے تھے تو میں چکوال جنرل بس سٹینڈ پہ اسلام آباد   واپسی کے لیے  گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔

جب سال کی پہلی شام کے کے ساۓ اپنا وجود کھو چکے اور اندھیرے نے ان سایوں کی جگہ سنبھال لی تو میں بھی اسلام آباد جانے والی گاڑی پہ بیٹھ چکا تھا۔سفر بخیرگزرا اور رات کو میں شہر اقتدار پہنچا، معمول کے مطابق سڑکوں پہ تیز رفتار گاڑیاں اپنے مسافروں کو لیے اپنی اپنی منزل کی جانب دوڑ رہی تھیں۔ میں ہاسٹل پہنچنے کے لیے گاڑی کے انتظار میں تھا کہ وٹس ایپ پہ ایک میسج ملا جو کہ چکوال کی سڑک پہ دوڑتی ایک گاڑی کے بے قابو ہو کر فُٹ پاتھ سے ٹکرا جانے کی خبر پر مشتمل تھا۔ خبر کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ”چکوال کمپلیکس کے قریب ایک تیز رفتار گاڑی بے قابو ہو جانے کی وجہ سے ایک نوجوان جاں بحق ہو گیا“۔ ہمارے ہاں ٹریفک قوانین کی عمل داری بھی ذرا کم ہی دیکھنے کو ملتی  ہے اور پھر گاڑیوں کی بڑھتی تعداد بھی ایسے حادثات کا سبب بن رہی ہے۔ آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہی رہتی ہیں۔ لیکن اب کہ جو اس خبر کی تفصیل ذرا دیر بعد آئی تو اس نے ایک لمحے کے لیے سکتہ طاری کر دیا۔ یہ خبر ہمارے پیارے دوست شبیہہ الحسنین کے چچا سید ظلِ حسنین کاظمی ایڈووکیٹ کے بڑے بیٹے سید یاور عباس کاظمی کی وفات کی تھی۔

دل اس حقیقت کو ماننے کو بالکل تیار نہ تھا۔ ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ شبیہہ الحسن کاظمی یا ان کے چھوٹے بھائی  سید علی الحسنین کاظمی سے تصدیق کروں۔ برادرم قاسم سرفراز ایڈووکیٹ چکوال کو میسج کیا جو انہی کاظمی برادران کے  توسط سے میرے دوست بنے تھے۔ دو سالہ تعلق میں پہلی بار میں نے قاسم سرفراز کے منہ سے ہاۓ سنی جب وہ اس خبر کی تصدیق کر رہے تھے۔

میرے ذہن کے نہاں خانوں میں موجود یادوں پہ اَٹی گرد فوراً سے چَھٹ گئی اور مجھے وہ سارے دن یاد آنے لگے کہ جب کبھی بھی چکوال کے واحد ائیر بیس سے ملحقہ مرید گاؤں جانا ہوا تو میرے دوست شبیہہ الحسنین یا علی الحسنین میں سے جو بھی گھر موجود ہوتا ہماری تواضع میں لگ جاتے۔ چاۓ کے ساتھ لوازمات لانے میں ایک بچہ ہمیشہ سے ہی اپنے تایا زاد بھائیوں کے ساتھ پیش پیش ہوتا تھا اور پھر جب میں 2019 میں چکوال چھوڑ کے راولپنڈی آیا تو علی الحسنین اور یاور علی یہاں اکٹھے رہ رہے تھے۔ میں نے شبیہہ الحسنین شاہ جی کو بتایا کہ بھائی جان راولپنڈی شفٹ ہونا ہےتو شاہ جی نے کہا کہ راولپنڈی ہم نے فلیٹ لے رکھا ہے۔ آپ کی جب تک مناسب نوکری نہیں ہو جاتی آپ نے ہمارے فلیٹ پہ ہی رہنا اور ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی علی الحسنین کو بھی انتظامات کا کہہ دیا کہ “محمد علی عباس آ رہا ہے اسے اپنے ساتھ رکھنا ہے۔” اس طرح میں ان کے فلیٹ میں آ گیا۔

اِن دِنوں علی الحسنین پیر مہر علی شاہؒ ایریڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی سے BBA کر رہے تھے اور یاور علی کو کسی اکیڈمی میں ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ساتھ رکھا ہُوا تھا۔ بے روزگاری کے کچھ دن قیام انہی کے پاس رہا اور میں کسی وجہ سے گھر واپس چلا گیا۔ اپنے ان دیرینہ دوستوں سے ملاقات تو اس دوران کم ہی ہوئی  لیکن فون پہ رابطہ رہا۔ فیس بُک اور وٹس ایپ سٹیٹس پہ یہ دونوں بھائی اکثر اپنے ساتھ یاور علی کی تصویر شیئر کیا کرتے۔ سید ظلِ حسنین کاظمی بھی اکثر اپنے ساتھ اپنے بیٹے کی تصویر شیئر کیا کرتے تو میں دل ہی دل میں کہتا کہ خدانظرِ بد سے بچاۓ لیکن شاید میری یہ دعا شرفِ قبولیت نہ پا سکی اور ایک شام یاور علی ہم سب کو روتا چھوڑ گیا۔

جب یہ خبر ہمیں  پہنچی تو جنازے کے وقت کا پتہ کرنے کے لیے بھی برادرم قاسم سرفراز کو ہی کہا اور ساتھ لے جانے کا بھی کہہ دیا۔ کاظمی برادران میرے مخلص دوست ہیں اور ان کی وساطت سے قاسم سرفراز سے جو تعلق بنا ہے تو میں اکثر برادرم قاسم کا نام اسلام آباد کے جونیئر وکلاء پر دھاک بٹھانے کےلیے بھی لیتا رہتا ہوں کیوں کہ بہر حال اسلام آباد کچہری میں قاسم سرفراز نوجوان وکلاء میں ہر دل عزیز شخصیت اور بہترین وکیل ہیں۔

جنازہ اگلے دن دو پہر تین بجےتھا۔ ہم صبح یہاں سے نکلے تو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ یاور علی کے بارے میں بات کریں۔ ایک نوجوان جو گھر والوں کی آنکھوں کا تارا تھا وہی آج سب کو روتا چھوڑ گیا تھا۔ ادھر اُدھر کی باتوں سے سفر طے تو کر لیا لیکن جب مرید پہنچے تو ایک کہرام برپا تھا۔ جوانوں کی موت ہر آنکھ کو اشک بار کر دیتی ہے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ آنے والوں کی اکثریت افسردہ تھی ورنہ زیادہ لوگ جنازوں پہ رسمِ  دنیا کے لیے ہی آتے ہیں۔ اب کے  ایسا نہ تھا۔ جنازہ اٹھنے سے قبر میں اتارنے تک کربلا والوں کا ذکر ہوتا رہا۔ تو مجھے یہ شعر یاد آیا

ہر غم میں کربلا نے سہارا دیا مجھے
ہر غم، غمِ حسین ع میں تحلیل ہو گیا

جس یاور علی کی آنکھوں میں کبھی زندگی دوڑتی نظر آتی تھی آج اسے ہم منوں مٹی تلے دفن کر کے آ رہے تھے کہ یہی نظامِ قدرت ہے۔ جانے والوں کو کون روک سکا ہے؟ مگر جب کوئی جوان دنیا سے جاتا ہے تو رونے والوں کی تعداد ذرا زیادہ ہوتی ہے میں واپسی پہ یاور علی کے جانے  کے غم کو محسوس کرتا رہا۔ ہم ایک پھول کو زمین میں دفن کر چکے تھے جو گھر والوں کی آنکھوں کا تارہ تھا۔ امام جعفر صادق (ع) سے پوچھا گیا تھا ‘
“آقا آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا   ہے؟ فرمایا : “جوان بیٹا”۔ اسی سائل نے پھر پوچھا کہ “آقا اور دنیا کی سب سے کڑوی چیز کیا ہوتی ہے ؟؟ فرمایا : جوان بیٹے کی موت۔”

‘بقول میر انیس’جب احمد مرسل (ص) نہ رہے کون رہے گا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا یاور علی کو غریق رحمت کرے ان کے لواحقین کو  صبر دے۔ یاور علی اکیلا نہیں جو ایسے جوانی میں ٹریفک حادثے میں والدین کو دکھ دے کر چل بسا ہے۔ ایسے کئی جوان روزانہ ٹریفک حادثات میں یا تو جان سے جاتے ہیں یا پھر کسی ایسی جسمانی چوٹ کے باعث معذور ہو کر ہمیشہ کے لیے چارپائی  پہ پڑ جاتے ہیں۔ یہ ہمارے ٹریفک قوانین میں نرمی ہے جو نہ جانے کئی  ماؤں سے ان کے لختِ  جگر چھین چکی ہے۔ خدا ان ماؤں کو صبر دے اور قانون سازوں  کو سیاست   کے کھیل سے فارغ ہو کر ایسے بنیادی مسائل پہ سوچنے کی توفیق دے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply