حقیقت کی تلاش کے راستے(2،آخری حصّہ)-شاکر ظہیر

فلوطین نے تین بنیادی اُصول بیان کیے ،حقیقت واحدہ ، عقل اور روح ۔

مادہ پرست یہ کہتے تھے کہ حقیقت مادی ہے یعنی جو کچھ حواس ِ خمسہ کے احاطہ میں ہے وہی حقیقی ہے لیکن فلوطین نے اعلان کیا کہ حقیقت روحانی ہے ۔

پیروانِ  مذہب جدید کا نظریہ یہ تھا کہ صداقت یا حقیقت کا علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔ فلوطین نے دعویٰ کیا کہ حاصل ہو سکتا ہے۔

پیروانِ مسلکِ معرفت یہ کہتے تھے کہ خباثت مادے کی ذات میں داخل ہے اس لیے کائنات بھی ناپاک  ہی  ہے اور قبیح بھی جبکہ فلوطین نے یہ ثابت کیا کہ کائنات ایک منظّم اور مرتّب وحدت ہے اور اس میں بھلائی بھی پائی جاتی ہے اور پاکیزگی بھی ۔

فلوطین کے مدون کردہ نظامِ فکر پر ، جسے نوفلاطونیت یا فلسفہ ء اشراف بھی کہتے ہیں ، کسی حد تک فیثا غورث ، افلاطون اور ارسطو کے افکار کا اثر مرتّب ہُوا ہے ۔ فیثا غورث کے فلسفے میں اعداد کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، اور بعض اعداد میں مخفی خواص بھی تسلیم کیے گئے ہیں ۔ اس فلسفے کی رو سے تین کا عدد کامل ہم آہنگی اور نو کا عدد کامل جمع ہے ۔ اس لیے فرفریوس نے فلوطین کی پوری کتاب کو نونو فصول کے چھ ابواب میں مدون کیا ہے ۔ نو کا عدد تمام اعداد میں کامل ترین اور بڑے خواص کا حامل تسلیم کیا گیا ہے ۔

انجیل میں لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی ہی سے زندہ نہیں رہتا لیکن فلوطین نے اس سے بلند تر مقام پر پہنچ کر یہ کہا کہ انسان صرف علم ( فلسفہ ) ہی سے زندہ نہیں رہتا ۔ وہ نعمت جس کی بدولت اطمینانِ  قلب حاصل ہو سکتا ہے ، صرف اس عالم میں پائی جاتی ہے جو عقل سے بالاتر ہے ۔

فلوطین ہمیں عقلی استدلال کی مصیبت , پریشانی سے نکال کر روحانی دنیا کی وسعت سے روشناس کرتا ہے ۔ وہ دنیا جو روحانی سرور اور اطمینانِ  قلب کی دنیا ہے ، اس میں داخل ہونے کےلیے فلوطین کہتا ہے کہ ظاہری آنکھوں کو بند کرو تاکہ باطنی آنکھیں کھل سکیں ۔

فلوطین کہتا ہے کہ اگر ہم خدا کے نیک بندوں کو اپنے لیے نمونہ بنانے پر اکتفا کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ظل کے ظل یا عکس کے عکس پر قناعت کر لی ( ایک نیک انسان خدا کا ظل یا عکس ہے ) ۔ لیکن یہ تو پستی کی دلیل ہے ۔ ہمارا نصب العین محض معصوم عن الخطاء بننا نہیں ہے بلکہ خدا کو اپنی آغوش میں لے لینا یا بالفاظ واضح تر خود خدا بن جانا ہے ۔

فلوطین اس ایک یعنی حقیقت واحدہ کی تعریف اس طرح کرتا ہے ۔ ایک اعلیٰ، مکمل طور پر ماورا ” ایک ” ہے، جس میں کوئی تقسیم ، ضرب یا امتیاز نہیں ہے ۔ وجود اور غیر ہونے کے تمام زمروں سے ماورا ۔ اس ” ایک ” جیسی کوئی بھی موجود چیز نہیں ہو سکتی”، اور نہ ہی یہ ” ایک ” تمام چیزوں کا مجموعہ ہے بلکہ “تمام موجودات سے پہلے ہے” ۔ فلوطین نے اپنے “ایک” کی شناخت ‘ اچھے ” کے تصور اور ‘خوبصورتی’ کے اصول سے کی ۔

یعنی الواحد تمام اشیاء کی حقیقت ہے لیکن وہ خود من الجملہ ( مجموعی طور پر ) اشیاء نہیں ہے ۔ اور یہی حقیقت واحدہ منشاء ( purpose ) وجود ہے ۔ تمام موجودات تجلی و فیضان کے طریقے پر اس سے صادر ہوئے ہیں اور انجام کار اسی origin کی جانب لوٹ کر چلے جائیں گے ۔

جو شے خدا ( الواحد ) سے سب سے پہلے صادر ہوئی وہ عقلِ کُلی ہے اور یہ عقلِ  کُلی خدا کے بعد تمام اشیاء میں کامل ترین ہے ۔ مجازاً کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقلِ  کُلی خدا کا بیٹا ہے اس نے اپنے باپ ( خدا ) سے تمام کمالات اخذ کیے ہیں ۔

عقلِ  کُلی میں بھی Power of Productivity ہے اگرچہ باپ ( خدا ) سے کمتر ہے اور اس سے جو شئے صادر ہوتی ہے وہ نفسِ  کُلی ہے ۔ الواحد ( خدا ) ، عقلِ کُلی اور نفسِ  کُلی کو الوہیت کے اقائیم ثلاثہ سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ یہ اقائیم ثلاثہ ( ، تین بنیادی جوہر ،خدا ، عقلِ  کُلی ، نفسِ کُلی ) خدائے واحد کی تین شاخیں ہیں ۔ جس طرح عقلِ  کُلی خدا سے فیض حاصل کرتی ہے ، اسی طرح نفسِ  کُلی ، عقلِ  کُلی سے استفادہ کرتی ہے ۔ اسی معنی میں کہ خدا مانند سورج ہے ، عقل مانند زمین ہے اور نفس مانند چاند ہے ۔

پادری ” sabellius ” تثلیث سے تین خدا مراد نہیں لیتا تھا بلکہ خدا واحد کی تین شاخیں ، اس لیے کلیساء روم نے اسے کافر قرار دے کر کلیسا سے خارج کر دیا ۔
جس طرح عقل خدا اور نفس کے درمیان واسطہ ہے ، اسی طرح نفس ، عالم ِروحانی اور عالمِ جسمانی کے مابین واسطہ ہے ۔

نفسِ کُل نے ہر جسم میں حلول کیا ہے اور ہر جسم نے اپنی استعداد (Ability ) کے مطابق نفس سے حصہ پایا ہے ۔

اجسام اور ابدان ، خدا کا ہست ترین اور ضعیف ترین پرتو یا عکس ہیں ۔ اجسام کی حقیقت صورت ہے اور مادہ اس صورت کو قبول کرنے والا ہے ۔

یہ عالمِ  وجود و عدم وجود کے درمیان ہے ، یعنی ایک اعتبار سے یہ عالم موجود ہے دوسرے اعتبار سے معدوم ہے ۔ یوں سمجھیں کہ یہ عالم اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو معدوم ہے لیکن اس اعتبار سے کہ یہ خدا کا عکس ہے اسے موجود کہہ سکتے ہیں ۔ یہ کائنات فریبِ نظر ( illusion ) نہیں ہے ، بلکہ خدا کی صفات کی جھلک ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ خدا کی مانند حقیقی بھی نہیں ۔ اصل میں فلوطین کے فلسفے میں حقیقت اور صداقت دونوں کے مدارج ہیں ۔ یہ کائنات بھی حقیقی ہے مگر ادنیٰ  درجے میں ۔ یعنی عدم ( نہ ہونے ) کی سرحد کو چُھو رہی ہے ، بس اس کے بعد عدم محض ( non existence) ہے ۔ وہ لکھتا ہے یہ کائنات آئینے  کی طرح ہے بلکہ ہر موجود آئینہ ہے اور خدا اس میں جلوہ گر ہے اور اس سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ یہ آئینے خدا کے وجود کو دکھاتے ہیں ۔ خدا وجود ہے یعنی حقیقی معنی میں وہی موجود ہے ۔ ہستی یا وجود دراصل صرف اسی کےلیے ثابت ہے ۔

خدا اور جسم ( مادہ ) درجات ِ کمال کے دو کنارے ہیں ۔ اعلیٰ  ترین درجہ خدا ہے اور ادنیٰ ترین درجہ جسم ہے ۔ خدا وحدت ہے ، کائنات یا جسم کثرت ہے ۔

خدا سے واصل ہونے کا طریقہ عشق ہے کیونکہ خدا محبوب ِ حقیقی ہے ۔ وہ حسن و جمال میں کامل ہے ، وہی اس لائق ہے کہ اس سے محبت کی جائے اور چونکہ وہ خود سراسر عشق ہے اس لیے اس تک پہنچنے کی صورت صرف عشق ہے ۔ اس لیے فلوطین کہتا ہے کہ ہر شئے جو اس خدا سے صادر ہوئی ہے اس میں اصل کی طرف واپسی کا میلان پایا جاتا ہے ۔ خدا کی طرف رجوع کی یہ آرزو معرفت کی بدولت پیدا ہوتی ہے یعنی جب انسان کو اپنی اصل کی معرفت ( حقیقت کو جان لینا ) حاصل ہو جاتی ہے تو اس میں اپنی اصل کی طرف باز گشت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ جذب کی شدت معرفت کی شدت پر موقوف ہے ۔

جو شخص اپنی ساری توجہ مادی وجود ہی پر رکھتا ہے اور اصل کی طرف واپسی کو فراموش کر دیتا ہے ، وہ تباہ ہو جاتا ہے ۔ اور جو شخص مادیات سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اپنی توجہ عالم بالا پر مرکوز ( focus ) کر دیتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے ۔

ان دو حرکتوں (حرکت اِن٘بِعاثی ) پہلی اس دنیا میں رکنا اور دوسری کہ ( حرکت عودی ) اس دنیا سے واپس عالم ِ بالا کی طرف جانا ، ان دونوں کا یہ نتیجہ ہے کہ ارواح ِ انسانی خدا کی طرف سے دنیا میں آتی رہتی ہیں اور پھر واپس جاتی رہتی ہیں ۔

اس واپسی ( سیر و سلوک ) کے تین مرحلے ہیں ۔
1- مقامات سیر و سلوک ۔ یعنی حقیقت کی طلب اور اس تک پہنچنے کےلیے مجاہدہ کرنا ۔
2- محبت ۔ یہ ایک حال ہے جو مشاہدہ حقیقت سے سالک پر طاری ہو جاتا ہے ۔
3- معرفت ( Gnosis )حقیقت کاملہ تک پہنچ جانے کا نام ہے ۔ یہاں پہنچ کر عارف انسان کامل بن جاتا ہے اور کمال ہی غایت وجود ہے ۔

ہر وجود اس کمال کے حصول کی طرف طبعی میلان رکھتا ہے یعنی اس طلسم رنگ و بو سے رہائی حاصل کرنا اور اپنے وطن اصلی کی طرف بازگشت یعنی اپنے origin سے جڑ جانا چاہتا ہے ۔

خدا کو حواس اور عقل کے ذریعے سے نہیں پا سکتے یہ سیر قدموں کے ذریعے نہیں ہوتی یعنی ہم صرف وجدان ہی کے ذریعے سے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ظاہری آنکھوں کو بند کرو اور دل کی آنکھوں کو کھولو ۔ ” خودی ‘ یعنی نفس سے قطع تعلق کرو اور بے خودی کے ذریعے اسے اپنے اندر دریافت کر لو ۔

فلوطین نے اس بات کے جواب میں کہ وحدت سے کثرت کیسے ظاہر ہو گئی ؟ عقل انسانی کی عاجزی کا اعتراف کیا ہے ۔ اس سوال کا جواب نہ فلسفہ دے سکتا ہے نہ سائنس ۔

وہ کہتا ہے کہ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ خدا نے یہ دنیا کیسے پیدا کی ؟

فلوطین کی رائے میں انسان کا مقصد فنائے ذات نہیں بلکہ خدا کا قرب حاصل کرنا ہے ۔ وہ زہد کی تعلیم دیتا ہے مگر نفس کشی کو پسند نہیں کرتا ۔ وہ تزکیہ نفس کو وصل کےلیے شرط ِ اوّلین قرار دیتا ہے ۔
خدا نے یہ عالم خیر کےلیے خلق کیا ہے کیونکہ وہ خود سراپا ء خیر ہے ۔ اس میں جو شر نظر آتا ہے وہ وجودی نہیں ہے بلکہ عدمی ہے یعنی اس لیے ہے کہ روح ، مادیات میں گرفتار ہو کر اپنی حقیقت سے غافل ہو گئی اور یہ غفلت باعثِ  شر بن گئی ۔ بالفاظ دیگر ، نزول روح گویا پستی کی طرف چلی گئی اور اس پستی سے شر کا ظہور ہُوا اور اس میں مصلحت یہ ہے کہ خیر شر سے مقابل ہو کر نمایاں ہو جائے ۔ جس طرح ظلمت نہ ہو تو نور کی خوبی واضح نہیں ہو سکتی ۔

فلوطین تناسخ ارواح کا قائل تھا ۔ وہ کہتا ہے کہ ارواح ( نفوس ناطقہ ) چونکہ ازلی اور ابدی ہیں اس لیے وہ اجسام کی قید میں آنے سے پہلے موجود تھیں اور جو لوگ نفس ِامارہ کی غلامی کرتے ہیں ان کے مرنے کے بعد ان کی ارواح حیوانات کے قالب میں چلی جاتی ہیں ۔ جو لوگ نیک ہیں ان کی وفات کے بعد ان کی ارواح دوبارہ انسانوں کا قالب اختیار کرتی ہیں ۔

یہ وہ فلسفہ ہے جس نے ہر زمانے  میں صوفیاء پر بہت اثرات چھوڑے ہیں اور صوفیاء متکلمین انہی سے استفادہ کرتے رہے ہیں ۔ ایک تو وہ صوفیاء ہیں جو اپنی اپنی خانقاہوں میں بیٹھے ہیں اور دوسرے تصوف کے متکلمین وہ ہیں جو تصوف کے علم کا فلسفہ ترتیب دے رہے تھے ۔ ان میں مشرق مغرب مسلمان ، ہندو ، یہودی یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوں ،سب ہی شامل ہیں ۔ اگر ان سب ماورائی حقائق کا منبع پوچھا جائے کہ سارے حقائق بتانے کےلیے تو وہ ہونا چاہیے جسے حقیقت واحدہ یا خدا نے خود بتایا ہو یا ان کا مشاہدہ کروایا ہو یعنی وہ خدا کا نامزد کیا گیا ہو ۔ لیکن صوفیاء اس کا جواب دیں گے کہ یہ ان کا اپنا ذاتی مکاشفہ ، سیر باطن کشف ہے ۔ وہ وحی سے ہٹ کر خود اپنا طریقہ اپنا کر یہ سب کچھ اخذ کر کے آئے ہیں ۔ اس لیے ان سب ماورائی حقائق کی وہ خود تشریح کرتے ہیں ۔

نوافلاطونیت اور فلوطین کے نظریات نے قرون ِ وسطیٰ کے اسلام کو بھی متاثر کیا ، چونکہ معتزلی عباسیوں نے یونانی فلسفے کے تصورات کو ریاستی متن میں شامل کر دیا تھا ، ان نظریات نے اسماعیلی شیعہ اور فارسی فلسفیوں جیسے محمد النصفی اور ابو یعقوب سجستانی کے درمیان بھی زبردست اثر و رسوخ حاصل کیا ۔ 11 ویں صدی کی مصر کی فاطمی ریاست نے نوفلاطونی نظریات کو اپنایا ، اور ان کے داعی اسی فلسفے کو لے کر نکلے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تصوف ایک الگ دین یا نظام فکر ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply