بھابھ اسیر کھتری کہ بکری : معمہ عظیم/خنجر عظیم آبادی

اے دودِ چراغ محفل اے مادر پدر آزاد کھتری ۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ یہ جو ہے شاعر بےکار ،کالا بخار ،طاعون کی وبا، کالی بلا کرونا اٹھلاتا ہے مٹکتا ہے کہلاتا ہے ندیم بھابھ   ۔ اس شاعر بےبنیاد کو کاہے بنایا استاد ۔ اے بٹیا جیوتی خنجر نے جو دیکھی وہی کہی سچ بولنا قانونِ خانقاہ جنگ و جدل ہے ۔ خنجر نے دیکھا چپ رہا گر پردہ ڈالا تو روز اول اپنے عالی مرتبت برزگوں کے سامنے ہوگاشرمندہ
اے بٹیا جسے تم بوجھتی ہو بانکا کرارہ ہے صفِ اوّل کا آوارہ ،ناکارہ ، اچکا ، لفنگا ، شاعر بےکار ہے ، ناہنجار ہے اسے کیا پتہ شعر و ادب کے رموز اکرام عارفی کو پلاتا کر جام لیتا ہے کلام پھر بڑھاکر تمہیں وہی غزل، وصولتا ہے مختلف حربے سے پورے دام ۔ توبہ کرو متاشاعرہ ہونے سے بچو ۔ یہ توفیق نہ ہوئی  کہ نیک نامی پاؤ عمر دوامی پاؤ۔ خود سے کوشش کرو ٹوٹا پھوٹا، نکٹا ٹیڑھا، کچا پکا جو بھی کہو اپنا کہو ۔ گر استاد کی ضرورت محسوس ہو تو اس غریب چچا کے برقی مراسلاتی ڈبے میں رابطہ کرو ۔

اے میرے گلچینو کتاب چہرہ کے متوالو خنجر کے چاہنے والو خراب زمانہ ہے ہر سُو ماحول عامیانہ ہے اس برقی کتاب چہرے نے فاصلے نگلے ،غیرت کے جنازے اٹھے ،میلوں کے فاصلے انگشت شہادت پہ سمٹے ۔ اس آسانی کا ہے فائدہ کم نقصان زیادہ ۔ چہار جانب متاشاعرات اور متاشاعروں کی بہتات ہے ۔ جدھر دیکھو ادھر ہاؤ ہو کا عالم ہے ڈوم چمار لچے لفنگے ہاتھ میں کلام تھامے داد وصول کرتے جھک جھک کر فرشی سلام کئے جاتے ہیں ۔

خنجر کی عادت مبالغہ آرائی  کی نہیں ۔ حق بات کبھی چھپائی نہیں ۔ آج پردہء پُر فریب چاک کئے دیتا ہے ایک متاشاعر کا قصہ سنائے دیتا ہے ۔ سرحد پار کے بدنام زمانہ ندیم بھابھ  کا رخِ سیاہ دکھائے دیتا ہے ۔اس نے ڈال کر چولا فقیر کا ،لبادہ اوڑھ رکھا ہے پیر کا۔ ایک زمانہ تھا جب عاشق ہوا شوخ و شنگ، چلبلی، دلربا اللہ رکھی کا جس کا جوبن اور شباب پھوٹا پڑتا تھا جھڑوں کی جھنکار اور کڑوں کی کھنکھار سے آراستہ میلسی کے بازاروں میں بال کھولے چھم چھم ناز سے اٹھلاتی گل مہر کی ڈالی سی لچکتی جب بازار حسن سے گزرتی تو لاکھوں دلوں پہ برق گرتی ۔ ندیم بھابھ اس شوخ ادا کے حسن کا متوالا ہوا ۔ بیچ چوراہے پہ اس پری پیکر پہ دل ہار بیٹھا۔ تھام دست حنائی  ایک بوسے کی گہار لگائی  ۔ اللہ جانتا ہے کہ اللہ رکھی نے وہ وہ صلواتیں سنائیں  کہ توبہ ہی بھلی ۔ ایسی کھری کھری کہی کہ بھابھے نے بس گردن نیچی کی۔ خلقت خدا آج تک یاد کرتی ہے اور لطف کشید کرتی ہے ۔

الغرض بھابھ  بہت ہی متوحش ہوا ۔ اور کہنے لگا اب تو بس جان دینے کی کسر رہ گئی  ہے ۔ سر پہ خاک ڈال کر ویرانے کا قصد کیا ۔ بھری دوپہر تھی سورج آگ برساتا تھا ہر سو ہو کا عالم تھا نہ کوئی  چرند نہ پرند نہ کوئی  آدم زاد نہ پری زاد ۔ بھابھ  ہائے ہائے کرتا روتا چیختا چلاتا چلا جاتا ۔اچانک ٹھٹھکا رُکا دیکھا کہ کھیتوں کے درمیان بندھی تھی ایک بکری سر جھکائے چرے جاتی گھانس پھونس سوکھی ۔ بھابھے کو دیکھ کر ہلکے سے ممیائی  ۔ اس کی ممیاہٹ سے بھابھے کے کانوں میں موسیقی گونجی دیوانگی میں اضافہ ہوا بکری دکھنے لگی اللہ رکھی ۔ زقند لگائی  اور دھر دبوچا کہا اب تو نہ بخشوں گا تجھے کیوں کی بھرے بازار میں ہتک کیوں لگایا تماشا ۔ بھابھے کی مردانگی نے جوش مارا اور بکری کے دانہء گندم میں مارِ بےبضاعت بھری تھی جس میں غلاضت جا گھسایا ۔

اے میرے عندلیبو !قصہ یہ ہوا کہ بھابھے کو لگا بکری کا چسکا ۔ روز قصد کرنے لگا کھیت کا ۔ بکری ممیاتی چھٹپٹاتی زور مارتی مگر بےزبان بےبس رہتی ۔ رفتہ رفتہ بیمار پڑی اور ایک دن اچانک مر گئی۔ بھابھے منہ سر لپیٹے پہنچا کھیت میں تو دیکھا بکری ہے مری پڑی اب یہ فکر دامن گیر ہوئی  کسے سمجھے اللہ رکھی کیسے کرے اب ہوس پوری ۔ چاروں طرف نظر دوڑائی تو دیکھی ایک خارش زدہ کتیا پیڑ کے نیچے سستاتی ہوئی  ایک خیال ناپاک چمکا اور بھابھ  ننگے پاؤں بازار بھاگا ۔ پاؤ بھر قصائی  سے ادھار چھیچھڑے لایا، کتیا کو پچکارا کھلایا اور نجاست سے بھرا آلہ گھسایا ۔ حاصل کرنے لگا تسلی مگر سگِ نامہربان کی بُدور تمر باطنی سطح پر کج ادائی کاشکار تھی ۔عجب پیچدار تھی جیسے ہی کیا دخول الجھ گئی شاخ بے ثمر ، بھابھے کی حیوانگی بری طرح جا پھنسی ۔ اب تو ہوئی سٹی گم ، ہوا حواس باختہ کیا کرے کیسے بچے کیسے نکالے ۔ جاگا ایک انجانا ڈر، کہ شاخ ہی نہ جائے مر۔

خنجر دروغ گوئی  کرے تو حشر میں سزا کا مستحق ٹھہرے ۔ اس واقعہ حیرت کی جونہی خبر ہوئی  میلسی کے بازاروں میں تہلکہ مچا، بھابھے کتیا میں ہے جا پھنسا ۔ محلے والوں نے درد کے مارے بے انتہا تڑپتے بھابھے کو کتیا سمیت چارپائی  پہ ٹانگا ۔ مطب خانے لے جایا گیا ۔ جراح تھا ایک مولوی پرہیزگار اس نے بھیجی بھابھے پہ لعنت ہزار ۔ کسی طرح منت سماجت سے مانا جراحی کی اور کتیا کو بھابھے پہ فوقیت دی۔ آلہء خاص جڑ سے کاٹا کتیا کو جان کنی سے آزاد کیا ۔ کہا یہی ہے اس دوزخی کی سزا اب رہے گا تا عمر ترستا ۔

میلسی کے ذرے ذرے نے بھابھے پہ لعنت بھیجی قصبے سے منہ کالا کرکے نکالا گیا ۔ پھرتا پھراتا لاہور جا پہنچا وہاں بھیک مانگتا اور ریل کی پٹری کے کنارے سوتا ۔ قسمت پہ آٹھ آٹھ آنسوں بہاتا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا ایک دن اکرام عارفی سے یاس و حسرت کا اشتہار بنا شراب خانے میں جا ٹکرایا ۔ عارفی شرابی ہے مگر نیک دل ہے درد مند ہے اور شاعر ہنر مند ہے ۔ اس نے بھابھے سے جب فسانہ درد و الم سنا، ترس کھایا ساتھ لیا اور تہذیب حافی کے دئے کمرے میں پہنچا حافی بھی ہے متاشاعر دیتا ہے اکرام عارفی لکھ کر خیر وہ قصہ ہے دوسرا زندگی رہی تو خنجر اسے بھی دےگا سنا ۔ بھابھے کو نہلایا دھلایا کھچڑی پکا کر کھلائی  سستی شراب پلائی  اپنا پائجامہ پہنایا سر پہ ٹوپی لگائی  اور ہاتھ میں تین غزلیں تھمائی  ۔

بھابھے جا پہنچا عارفی کے ساتھ مشاعرے میں ۔ عارفی نے کی دروغ بیانی کہا یہ ہے شاعر بڑا ، مشکل سے ہے تلاش کیا ۔ بھابھے نے صدائے فقیرانہ میں جھوم کر کلام پڑھا محفل پہ خوب رنگ چڑھا اور شاعر مشہور ہوا۔ یہ ناہنجار ہے بہت عیار چالاک مکار بن بیٹھا پیر پکانے لگا ادبی کھیر ۔نشئی چرسی گنجیڑی چیلے چپاٹوں کا لگایا جمگٹھا ۔ عارفی کو پلا کر جام لکھوا کر کلام کچا پکا ۔ برقی کتاب چہرے پہ استاد بن بیٹھا اور کھتری جیسی دسیوں کو غریب عارفی کا کلام دریا دلی سے بانٹا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے میرے شیریں گفتار لطافت شعار ، بھیجو اس ندیم بھابھے پہ لعنت ہزار ۔ مکار عیار ہے ملحد ہے بہت بڑا اس نے ہے پیری فقیری کا پرفریب چولا پہنا ۔ نماز،روزہ عبادتِ خدا سے غافل ہے بظاہر بنتا پیر کامل ہے ۔ معبود حقیقی کی شان میں اکثر کلمات بے ادبانہ اپنی زبان ناپاک پر لاتا ہے ۔ غور سے دیکھو اسکی بدی اسکے مکروہ چہرے پہ نظر آوے گی ۔ اس نابکار گناہ گار کو تختے پر کھڑا کرکے بیچ چوراہے پر پھانسی پر چڑھایا جائے۔ برا حشر ہو نعش گٹر میں بہایا جائے ۔ زمانہ عبرت پکڑے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply