رونالڈو کی “لونڈی”(3،آخری قسط)-محمد مشتاق

 سعودی اولوا الامر اور ہمارے “اولوا التمر”    

3۔ یہ بھی ادھورا سچ ہے کہ معاہدے کی پابندی تو اسی فریق پر لازم ہوتی ہے جو معاہدے کا حصہ ہو، اس کے ساتھ دو باتوں کا اضافہ کیجیے تو پورا سچ سامنے آجائے گا۔ ایک یہ کہ معاہدے کی پابندی کا مطالبہ وہی فریق کرسکتا ہے جو خود معاہدے کی پابندی کرتا ہو،خود معاہدے کی دھجیاں اڑانے والا فریق دوسرے فریق سے معاہدے کی پابندی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ دوسری یہ کہ جب تک کوئی گروہ خود کو معاہدے میں پہلے سے شامل فریقوں سے الگ تسلیم کروا نہیں لیتا، تب تک وہ یہ دعویٰ  نہیں کرسکتا کہ وہ معاہدے کی پابندی پر مجبور نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے بہت سے معاہدات پر دستخط کیے ہیں۔اب اگر پاکستان میں کوئی گروہ اٹھ کر یہ اعلان کرتا ہے کہ ان معاہدات کی پابندی اس پر لازم نہیں ہے ، تو اس کی یہ بات تب تک تسلیم نہیں کی جائے گی جب تک وہ پاکستان سے الگ اپنی مستقل حیثیت منوا نہ لے  اور یہ منوانا قانون سے زیادہ سیاسی طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی کیا بات کریں؟ ملکی قانون میں ہی دیکھ لیجیے ۔

کچھ عرصہ قبل میں نے سوال اٹھایا تو بہت سے لوگوں کو عجیب لگا کہ اگر ہمارا دستور ایک معاہدہ ہے تو میں اس کی پابندی پر مجبور کیوں ہوں جبکہ میں اس معاہدے میں اپنی مرضی سے شامل نہیں ہوا؟ نہ میں پاکستان میں اپنی مرضی سے پیدا ہوا ہوں، نہ ہی دستور پاکستان کے تحت اپنی اور ریاست و حکومت کی حیثیت متعین کرنے میں میرا کوئی کردار شامل ہے۔ پھر آخر کس بنیاد پر مجھ سے اس دستور کی پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور کیوں مجھ پر اس ریاست سے غیرمشروط وفاداری کا فریضہ عائد کیا جاتا ہے؟ ہاں، اگر کوئی گروہ اس حد تک طاقت حاصل کرلے کہ وہ اس بند و بست سے باہر نکل سکے تو اسے بنگلہ دیش کی طرح مستقل حیثیت مل جاتی ہے اور وہ دستورِ پاکستان کی پابندی اور پاکستان سے وفاداری کی ذمہ داری سے فارغ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اگر دا-عش ، یا کوئی گروہ، بین الاقوامی قانونی نظام کی جکڑ بندیوں سے الگ ہوسکتا ہے، تو جب وہ الگ ہوجائے تو اس کے بعد بے شک وہ یہ دعویٰ  کرے کہ وہ اس نظام کی پابند نہیں ہے۔ تب تک تو اس نظام کی جکڑبندیوں کے اندر رہ کر ہی جدوجہد اس پر لازم ہے، جیسے ہم میں سے بہت سے لوگ اسی نظام کے اندر عدالت اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ہاں، اگر کوئی گروہ اس پورے نظام سے تو الگ نہ ہوسکے لیکن اس نظام کی کسی اکائی کے اندر، یا اس سے باہر، اپنی مستقل حیثیت منوالے تو موجودہ بین الاقوامی نظام بھی اس کی یہ حیثیت تسلیم کرتا ہے کہ وہ صرف ان معاہدات کا پابند ہوگا جو اس نے اپنے طور پر مانے ہوں۔ (Geneva Call نامی تنظیم ایسی مسلح تنظیموں سے باقاعدہ ان معاہدات پر دستخط کرواتی ہے جنھیں یہ تنظیمیں اپنے لیے قابل قبول مانیں اور یہ دستخط اسی Alabama Room میں ہوتے ہیں جہاں یورپی طاقتوں نے 1864ء میں پہلے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تھے! 2017ء میں جنیوا میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ایک ورکشاپ میں جنیوا کال کی ایک خاتون نے اپنی پریزینٹیشن دی تو ہم میں سے ایک نے ان سے پوچھا کہ آپ دا-عش سے کیسے معاہدات منوا سکتے ہیں؟

انھوں نے کہا کہ منواسکتے ہیں کیا، ہم منواچکے ہیں! ) تو خلاصہ یہ ہوا کہ جب تک کوئی گروہ، دا-عش، طا-لبان، یا کوئی بھی نام دیں، اس پوزیشن میں نہیں آتا کہ وہ پہلے سے موجود اکائیوں (ریاستوں) سے الگ حیثیت منوالے، تب تک وہ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ مجھ پر ان معاہدات کی پابندی لازم نہیں ہے۔ ہاں، وہ اس پوزیشن میں آجائے تو بے شک وہ بعض معاہدات مانے اور بعض نہ مانے (اور پھر نہ ماننے کے نتائج بھگتے)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

4۔ مقدمات کی ترتیب درست کرنے اور بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کی اپنی سی کوشش کے بعد سوال کا شرعی جواب بہت ہی آسان اور نہایت ہی مختصر ہے۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے سوا آزاد انسان کو غلام بنانے کی سب شکلیں حرام ہیں ۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے، اگر ایسا کرنا مسلمانوں کے مصلحت میں ہو اور اس سے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ معاہدے کی پابندی مسلمانوں کے اسی گروہ پر لازم ہوگی جو معاہدے میں شامل ہو، یہ پابندی دوطرفہ ہوگی۔ چنانچہ اگر دوسرا فریق اس معاہدے کی پابندی نہ کرتا ہوتو مسلمانوں پر بھی اس معاہدے کی پابندی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح معاہدے کی خلاف ورزی مسلمانوں کے کسی گروہ کی جانب سے ہو تو ذمہ داری اسی گروہ پر ہوگی اور دوسرے مسلمانوں سے اس سلسلے میں نہیں پوچھا جاسکتا۔ البتہ اگر عالمی طور پر مسلمان ایک سیاسی وحدت بن جائیں اور پھر اس سیاسی وحدت کی جانب سے معاہدہ ہو تو اس کی پابندی سب مسلمانوں پر لازم ہوگی، سواے ان کے جو اس سیاسی وحدت سے الگ مستقل حیثیت رکھتے ہوں۔ غلام بناچکنے کے بعد ان غلاموں کو وہ سارے حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت نے ان کو دیے ہیں۔
اب جس کے جی میں آئے ، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا!
(ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply