زرد صحافت

زرد صحافت دراصل امریکی اخبارات میں شائع ہونے والے ایک سنسنی خیز سیریل کی اصطلاح ہے جس کا نام تھا &”yellow kid”;۔ہمارے ہاں زرد صحافت سے مراد کسی خبر کو چند مخصوص مقاصد کے لیے اس طرح پیش کرنا کہ وہ اپنی ہیت کھو بیٹھے یا پھر کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر اتنا زور دینا کہ اصل خبر کی شکل ہی مسخ ہو جائے اور خبر کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہو جائے۔اکثر اخبارات میں اصل خبر پر مبالغہ کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔زرد صحافت پروپیگنڈہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں کسی بات کے مثبت پہلو کو بھی من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے منفی طور پر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والے کو مثبت چیز یا بات میں بھی منفی پہلو نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور میں زرد صحافت، ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔چینل ریٹنگ کے چکر میں صحافتی خود غرضی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔،پرنٹ میڈیا ،سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، ہر جگہ آپ کو زرد صحافت کا سہارا لے کر انفرادی اور اجتماعی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے لوگ نظر آئیں گے۔آج آپ چند منٹ ٹیلی ویژن پر بیٹھ جائیں اور نیوز چینل آن کر لیں ایک عام سی خبر کو اس طرح بار بار بیان کیا جا رہا ہوتا ہے کہ سننے والا تھوڑی دیر سننے کے بعد ڈپریشن کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔بالخصوص زرد صحافت کی جدید شکل بریکنگ نیوزہے جو کہ ہر چینل ایک ہی خبر کو دن میں بے شمار بار بریک کرتا ہے اور اس انداز سے کے سننے والا اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہے۔
ایک مخصوص قسم کا میوزک بیک گراؤنڈ میں لگایا جاتا ہے اور انتہائی متعجبانہ لہجہ اپنایا جاتا ہے۔پاکستان میں 2000 کے بعد چینلوں کی بھر مار ہوئی اس وقت 25 نیوز چینل کام کر رہے ہیں مگر بجائے اس کے کہ صحافت کو معاشرے میں امن و امان اور عام عوام کی خدمت اور فلاح کا ذریعہ بنایا جاتا اس کے برعکس صحافت ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے ،جہاں الا ماشاءاللہ سوائے چند ایک کے ہر ایک آدمی جو اس شعبہ سے وابستہ ہے اسے اپنے کیریئر اور مستقبل کی فکر ہے۔ ایک نامور لکھاری یاسر صاحب زرد صحافت کے موضوع پر فرانس کے ناول نگار بالزاک کا ذکر کرتے ہیں بالزاک دنیا کے تین بڑے ناول نگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ اُس نے 90 سے زائد ایسے ناول لکھے جن کی گہرائی قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ بالزاک نے اپنی زندگی میں 12 پیشے اختیار کیے۔ اُسے کامیابی ناول نگاری کے علاوہ کہیں اور نہ مل سکی۔ وہ زندگی کے چند سال صحافی بھی رہا تھا۔ اُس نے صحافت پر ایک ناول ’’Two Poets‘‘ (دو شاعر) لکھا تھا۔ یہ ناول 1840ء کی دہائی میں لکھا گیا۔ اس کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بالزاک اور ہمارے عہد میں صحافت ایک جیسی ہی ہے۔ صحافیانہ بے حسی، اخلاقی دیوالیہ پن اور معاشرے کی تباہی میں نام نہاد پڑھے لکھے طبقے کے کردار پر بالزاک ایک اتھارٹی رکھتا ہے۔ ناول کا ایک صحافی کردار کہتا ہے۔ ’’میرے لیے میرے بچوں کے روشن مستقبل سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں۔ میں اس لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ باقی ناول اُس کی پھیلائی ہوئی تباہیوں پر مشتمل ہے۔ ایسے صحافیوں کی لائی ہوئی بربادیاں جب جمع ہوتی ہیں تو فرانس کے سارے بچوں کے روشن مستقبل کو ہڑپ کرنے کے درپے ہوجاتی ہیں۔ ہمیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ذاتی مفاد کے لیے جمع کی جانے والی چھوٹی چھوٹی بدّیاں جب بہت بڑی بَدی بن جائیں تو ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کا سویرا گم ہوجائے گا۔زرد صحافت ایک ایسا ہنر ہے جو زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین ثابت کرنے میں ثانی نہیں رکھتا۔اخلاقی دیوالیہ پن کی حالیہ مثال مشہور برطانوی نژاد پاکستانی باکسر عامر خانکے گھریلو جھگڑے کو جس انداز سے پیش کیا گیا اور کیا جا رہا ہے دل کھولتا ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی کی ذاتیات کو اچھال کر چاہے وہ کتنی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو معاشرے کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے؟ یہ صرف ریٹنگ کا چکر ہے جس کی دھن میں میڈیا چینل مالکان سے لے کر رپورٹر تک سب گرفتار ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں پر زرد صحافت کے اثرات: آج بین الاقوامی میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک اور اس کا تعلق کسی اسلامی ملک ہی سے کیوں نہ ہو ایک عالمی نظام کے ماتحت ہے جسے نیو ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کیوں کہ ایک شٹیزن میڈیا کی شکل اختیار کر چکا ہے اس لیے میں اس کو کسی حد تک آزاد سمجھتا ہوں مگر کیوں کہ سوشل میڈیا بھی ان قوتوں کی ایجاد ہے اس لیے اسے بھی ایک حد تک ماتحت ضرور ہے۔یہ نیو ورلڈ آرڈر ایک ایسا نظام ہے جس کی باگ ڈور مکمل طور پر یہودیوں کے ہاتھ میں ہے(جس کی تفصیل دجالیات کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں وضاحت سے کی گئی ہے)اس نظام کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اسلام اور مسلمان ہیں اس لیے یہود و نصارٰی جو ازل سے ہی اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف سازشیں کرتے آئے ہیں انہوں نے اس دور میں زرد صحافت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔عراق پر حملہ سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے خوب پروپیگنڈہ کیا گیا کہ عراق ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے جو اقوام عالم بالخصوص امریکہ کے لیے خطرہ کا باعث ہے اور پھر حملہ کر دیا گیا ۔لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا۔بعد میں اسی میڈیا نے ان رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیا۔اسی طرح افغانستانکے بارے میں بھی پروپیگنڈا کیا گیا اوررائے عامہ ہموار کرنے کے بعد حملہ کیا گیا۔اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑایا گیا۔ہمارے آقا و مولی ٰحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان اقدس میں بار بار گستاخی کی گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنتوں کو دہشت گردی سے منسوب کیا گیا ۔بالخصوص داڑھی مبارک کو اتنا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں داڑھی والے افراد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
لال مسجد آپریشن کے پیچھے بھی صحافت کا یہی انداز تھا جس نے عوام کے سامنے لال مسجد ایشو کو اس طرح پیش کیا آپریشن سے پہلے کہ اللہ کی پناہ۔مدارس کے بارے میں کیا کچھ نہ کیا گیا اور نہ کہا گیا۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی دوران سیکولر ازم کے فروغ کے لیے اسی نظام صحافت کو استعمال کیا گیا اور تاحال یہ مقابلہ جاری ہے پاکستان جو ایک خالص نظریاتی ملک ہے اس کا رشتہ زبردستی سیکولر ازم سے جوڑا جا رہا ہے اور اس کے لیے میڈیا پر فحاشی کا ایک سمندر آمڈ آیا ہے۔
اس صورتحالکے پیش نظر صحافت سے وابستہ ہونے والے نئے افراد کے لیے ایک میدان جنگ تیار ہے۔ ایسا میدان جنگ جس میں خواہش انسانی غالب آنے کی صورت میں اس مقدس پیشہ پر چوٹ پڑنے کے ساتھ ایمان جانے کا بھی امکان ہے۔ ہمیں اس میدان کے لیے جسمانی و روحانی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ ہم دجالی نظام کے سامنے سینہ سپر ہو سکیں اور ہمارے قلم صرف حق بیان کر سکیں۔

Facebook Comments

عبدالرحمن نیازی
میں گمشدہ ۔۔۔۔ اپنی تلاش میں ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply