میں تو چلی چین/جانا میرا شاہراہ ریشم کی جانب (قسط10) -سلمیٰ اعوان

سفرناموں کی دنیا کے شہنشاہ مستنصر کے لہجے میں کچھ تھا۔ جب انہوں نے شی آنxianکا ذکر کیا ۔دراصل قصہ کچھ یوں تھا۔فخر زمان کے بیٹے کی دعوت ولیمہ تھی ۔ مستنصر وہاں مدعو تھے اور ہم بھی تھے۔جہاں مستنصر ہوں وہاں اُن کے گرد جمگٹھا نہ ہو، کہیں ممکن ہے۔
تب میں نے دھیرے سے کہا۔
‘‘مارچ کے آخری ہفتے میں چین جانے کا پروگرام ہے کچھ راہنمائی کردیجیے۔’’
مسکرائے اور بولے۔‘‘شی آن ضرور جائیں۔’’

عادت کے مطابق تھوڑی سی ادھر اُدھر کچھ جاننے کے لیے ٹکریں مارنا بھی فطرت کا حصّہ ہے۔پہلے کتابیں ہوتی تھیں جو کہتی تھیں آؤ اور ہمیں ڈھونڈو۔
اب خیر سے کافروں نے گھر میں ہی علم کے دریا بہا دئیے ہیں۔جب جی چاہے غوطے مارو،چھینٹیں اُڑاؤ،سوئمنگ کرو۔جتنی دیر چاہو لُطف اٹھاؤ۔سچی کافروں کا کتنا بڑا احسان ہے ہم جیسے نکھٹو مسلمانوں پر۔

عمران نے شی آن کا پروگرام جب ہاتھوں میں پکڑایا۔میری تنقیدی نظروں نے رشتے کے لیے لڑکی کے گھر جانے والی ساس کی طرح اس کا مشاہدہ کیا۔ٹیرا کوٹا Terracotta اس میں درج تھا۔بیٹی اور داماد شی آن کی اہمیت سے آگاہ تھے۔مرکزی چین کا یہ شہر شاہراہ ریشم کے کنارے پر واقع صدیوں سے قائم اپنے بہت سے تاریخی اور تہذیبی حوالوں سے سیاحوں کے لیے ناگزیر بن چکا تھا۔
ٹیراکوٹااسی شہر کا ایک عجوبہ تھا۔صدیوں پُرانی ایک نو دریافت شدہ جگہ کا عظیم تحفہ جس سے میں ابھی چند دن پہلے متعارف ہوئی تھی۔
طلحہ ،فاطمہ اور مجتبیٰ جب سکول سے آئے۔مجتبیٰ نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے اُسے دیکھنے پر زور دیا۔
‘‘ ارے میاں جی تو چاہتا ہے پر گٹے گوڈے تو ادھار کے نہیں۔’’
ـ‘‘نانو اِسے تو ضرور دیکھنا ہے۔شی آن جانا اور اِس میوزیم کو نہ دیکھنا بہت زیادتی والی بات ہوگی۔’’
فاطمہ نے آنکھیں گھمائیں۔
‘‘یہ تو وہی بات ہوگی کہ آپ مصر جائیں اور اہرام مصر دیکھے بغیر واپس آجائیں۔نہیں نانو ایسا مت کرنا۔’’
اب لیپ ٹاپ کھل گیا اور دھڑا دھڑ تصویریں سامنے آنے لگیں۔آنکھیں تو پھٹ پھٹ پڑ رہی تھیں۔
نواسوں نے میرا تصویری تعارف ضرور کروایا تھا۔چھوٹے والے نے تو آٹھواں عجوبہ بھی کہہ دیا تھا۔سوچا دنیا کے بہت سے عجائبات کو اِن آنکھوں سے گزارے ہوئے ہوں۔کتابی کیڑا بھی ہوں۔ یہ ہیرا کہاں چھپا بیٹھا تھا؟شاید اسی لیئے حیرت زدہ ضرور ہوئی تھی ۔

مجتبیٰ اِس بارے کچھ زیادہ ہی جوشیلا تھا۔پیارے سے نواسے کو یہ کیسے سمجھاتی کہ اب یہ میرے اختیار میں تو ہرگز نہیں کہ میں اِسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دوں۔

‘‘ سُنو مُجی میرے خیال میں ابھی تک تو یہ دنیا سات عجوبوں پر ہی باہمی اتفاق و اتحاد سے متفق تھی۔اب اس میں یہ آٹھواں بھی شامل ہوگیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ محض چینیوں کا خود ستائشی پہلو ہے کہ اپنی چیزوں کے گڈے باندھنے میں بڑے ہوشیار ہیں یا واقعتاً ایسا ہی ہے میں نہیں جانتی۔
تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ایسی بھی بات نہیں ۔بیچارے حق بجانب ہیں کہ ستمبر1987میں فرانسیسی صدر Jacques Chirac نے اِسے آٹھواں عجوبہ قرار دیا تھا۔اب اگر ہم ہی بے خبر ے ہیں تو قصور وار کون؟ بھئی سو فیصد ہم۔’’

چلیے اب ذرا جانے کی روئیداد سن لیں۔

عمران نے دونوں جگہوں کے درمیان فاصلے کی طوالت اور ذرائع سفر سامنے رکھتے ہوئے میری پسند اور ناپسند کو مقدم جانا اور فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا۔1089میل کی دوری گویا کہ کم و بیش لاہور اور کراچی جتنا فاصلہ۔بلٹ ٹرین کا سفر پانچ گھنٹے کا اور ہوائی جہاز سے سوا گھنٹہ۔چین میں ہوائی جہاز سستے ہیں۔

‘‘پڑے سستے ہوں میں کیا کروں؟دل نے کہا ۔ٹرین کے سفر کی فینٹسی ۔ ہائے ہَے اس کا کوئی مُول ۔ہرگز نہیں۔ زمین اور اس کا رنگا رنگ اور بے رنگا ماحول، لوگ باگ،ان کے درمیان رشتوں کی قیاس آرائیاں، مضحکہ خیز حرکات، سنجیدہ اور کھلکھلاتے چہرے ان کا مطالعہ،کتنا دلچسپ شغل ۔پانچ گھنٹے کیا دس بھی ہوں تو ٹک ا سی پر ہی لگاؤں گی۔اور ٹرین پر ٹک لگا دیا۔
ٹکٹ لینے کے لیے ساس،داماد اور بیٹی کی تکون گئی۔وہیں تھین آن من سکوائر کے قریب ہی ریلوے اسٹیشن تھا۔

ریلوے اسٹیشن اُف خدایا اتنا بڑا کہ آنکھیں جیسے کانوں تک پھٹیں۔کیبنوں میں بیٹھی ٹکٹ کاٹتی لڑکیاں گو ڈھیلی ڈھالی ہر گز نہ تھیں مگر کچھ اتنی چُست بھی نہ تھیں۔انگریزی سے تو ذرا سا بھی یارانہ نہ تھا۔

‘‘اے ہے نری بونگیاں۔ غلطیوں پر غلطیاں کیے چلے جا رہی تھیں۔کیو(قطار) میں چند پاکستانی بھی تھے۔دو جاپانی اور ایک انڈونیشی ۔سب کے ٹکٹ غلط کٹے بمعہ ہمارے۔ شکر مولا کا کہ عمران کو خیال آیا۔اُس نے چینی میں تکرار کی اور ٹکٹ بدلوائے۔میں اکیلی ہوتی تو نقشے ہاتھ میں پکڑ کر ماسکو والے حربے استعمال کرتی۔مگر ذلیل کتنا ہونا پڑتا؟
پھر جھری سی لی تھی کہ بہت کچھ یاد آرہا تھا۔

رات سونے سے قبل نیٹ پر اِس شہر کے ماضی بارے تھوڑا سا جانا۔یہ شان شی Shaanixiصوبے کا ایک بڑا شہر ہی نہیں اپنے اندر پڑی بھاری بھر کم تاریخ بھی سنبھالے ہوئے ہے۔پہلے پہل کی بادشاہتوں کا مرکز یہی تو تھا ۔ شاہراہ ریشم کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں عین اپنے عروج پر تھیں۔پیسے دھیلے کی فروانی نے خوشحالی بھی بہت پیدا کررکھی تھی۔۔چین تو تب ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا۔
شہروں اور صوبوں کے ناموں کے ساتھ حکمرانوں کی من مانیاں اور کھلواڑ بھی تاریخ کا اہم حصّہ رہے ہیں۔شی آن نام اسے منگ سلطنت نے دیا تھا ۔تیرھویں صدی میں جب مارکو پولو یہاں آیا تھا۔اپنے شہر وینس سے چلا تو اسی سلک روٹ پر ہی چلتا چلتا یہاں آن پہنچا۔یہ یوآن Yuan بادشاہت کا زمانہ تھا اور خیر سے عظیم طاقتور حکمران قبلائی خان تخت پر بیٹھا تھا۔پورے سترہ سال اس نے یہاں گزارے۔بڑی اہم اور ذمہ دار عہدوں پر فائز رہا۔The Travels of Marco Polo جیسی شہرہ آفاق کتاب کا خالق بنا جو آج بھی چین کی مستند تاریخ کا اہم حوالہ ہے۔
کوئی سترھویں صدی کے وسط میں نام کی تبدیلی کا پھر دورہ پڑا۔ یہ شی پنگ xiJingبن گیا۔1913میں خیر سے پرانے نام کی جون میں آگیا۔

31 مارچ کی یہ صُبح ہمارے ہاں کی جنوری کی یخ بستہ صبح جیسی ہی تھی۔ کوٹ اور مفلر پہنے ہاتھوں کو جیبوں میں ٹھونسے سوں سوں کرتے نکلے۔ ہمارے ‘‘اوبراورکریم’’ کی طرح وہاں‘‘ دیدی’’ بڑی پردان تھی۔ ایک جہاں اُمنڈ پڑا تھا۔ بڑوں کا خصوصی پر کہیں اِس بھرے میلے میں چھوٹے بچے بھی پراموں میں سوتے جاگتے منظروں کا حصّہ تھے۔ریلوے اسٹیشن بیجنگ کے جنوب میں تھا اور کیا شاندار تھا۔اتنی وسعت والا ،اتنی جدّت والا کہ بے اختیار ہی آنکھیں گیلی ہوگئیں۔

‘‘پروردگار میں کیا کروں۔میرا تو حسد ہی ختم نہیں ہوتا ہر وقت مقابلوں اورموازنوں پر اُتری رہتی ہوں ۔لوگوں کی چیزیں دیکھ دیکھ کر جلتی بھنتی ہوں۔ اپنی تفریح کا بھی بیڑہ غرق کرلیتی ہوں۔’’

پلیٹ فارم شاندار،گاڑیاں شاندار۔گاڑی میں بیٹھی تو مزہ آگیا۔ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے ۔
تو قومیں ایسے ہی آگے نہیں بڑھتی ہیں۔حرکت میں سبک پن کا سلیقہ نمایاں تھا۔

نظروں نے شیشوں سے پار کیا دیکھا کہ سوچوں کے پروں کو ہوائیں لے اڑیں۔

ہائے شاہراہ ِ ریشم پر سفر کر رہی ہوں۔
‘‘مولا وہ بھی کیا زمانہ ہوگا۔قافلوں کی لمبی قطاریں،اونٹوں کی گردنوں میں بندھی گھنٹیوں کی مسحور کن آوازیں،کجاوں میں بیٹھے مردو زن،سرائیں، آگ کے آلاؤ میں رقص کرتی حسینائیں۔سالوں کے لیے گھرسے دوری، نہ خط نہ پتر ، نہ کوئی سندیسہ سب کچھ اللہ حوالے۔

تو اسلام ان علاقوں میں کب آیا؟تاجروں کے ذریعے۔ تو حضرت سعد بن ابی وقاص بھی تو اولین دور میں ہی کہیں آئے تھے۔

شفاف شیشوں سے باہر کی دنیا دیکھنے میں گم تھی ۔قدیم رومان بھری دُنیا کی فضاؤ ں میں گم تھی ۔جب بیٹی نے ٹرے کھول کر اس پر چائے کا مگ، سموسہ نما پیٹی کیچپ میں لتھڑی پلیٹ میں دھری اورٹرے پر سجادی۔کھولتا گرم پانی گاڑی میں مہیا تھا۔

بیٹی ماں کے چسکوں اور چٹورپن سے اچھی طرح آشنا تھی۔اس نے سب اخنے مکھنوں کا بندوبست اہتمام سے کیا تھا۔ دل سے دُعا نکلی۔اوپر وا لے کے لیئے شکر گزار ہوئی۔چائے،حسین موسم اورمن موہنے سے ساتھی۔
‘‘مالک میرے شکریے کے الفاظ جذبات کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔ اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ میرا لُوں لُوں یہ پکار رہا ہے۔ کہہ رہا ہے ۔یہ بندی کہاں اس قابل؟بس نذر کرم ہے تیری۔’’

گاڑی صرف مرکزی شہروں میں ہی رکتی تھی۔شہر کیا تھے؟بیس پچیس منزلہ عمارتوں کے بار سے لدے پھندے مکمل اور کہیں کہیں تکمیل کے مرحلوں سے گزرتے، جھلکیاں مارتے اور دہائیاں دیتے کہ دیکھ لو ہمارا ماضی تو سارا ملیامیٹ ہوگیا ہے۔کیسے ہماری کایا کلپ ہوگئی ہے؟

سرنگیں آتیں جن کے اندھیروں سے گزر کر روشنیوں میں آتے ہی انسانی عزم کی کاری گری کے ستونوں پر اٹھی فلک بوس لمبی لمبی عمارتیں اور ایک دوسرے کو کاٹتی سڑکوں والے شہر نمودار ہوتے۔(Shijia Zhuang)ایسا ہی شہر جس کا سارا اسٹیشن راڈوں پر کھڑا تھا۔

ہاں درختوں کی خوبصورتی کہیں نہیں تھی۔چھوٹے چھوٹے ٹنڈ منڈ سے درخت، سرو جیسے بوٹے اور بالشت بھر اُونچے پیلی سرسوں جیسے پودے ،سبزیوں کے کھیت سفید پلاسٹک کی شیٹوں سے ڈھنپے۔
فطرت کا حسن صفر نہیں تو دو%سے زیادہ بھی نہ تھا۔ اگر کچھ آنکھوں کو بھلا لگتا تو وہ چھوٹا سا ٹوٹا جو کہیں کہیں بس تحفے کے طور پر ہی نمودار ہوتا۔ہاں کہیں کہیں ماڈرن پسِ منظر میں قدامتوں کے رنگ بھی دکھائی دے جاتے۔پرانی عمارتوں کے ڈھانچوں کے ٹوٹے پھوٹے سلسلے بتاتے تھے کہ بس اُن کے تیا پانچہ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نہیں ہے۔
چین سے واپس آنے کے فوراً بعد مجھے اپنے بھتیجے کی شادی میں ملتان جانا پڑا۔اپریل کے درمیانی دن وسطی پنجاب کا لینڈ سکیپ۔میرے اللہ موہ لینے اور آنکھوں کو جکڑنے والے منظر تھے۔یوں جان پڑتاتھا کہ تاحد نظر پھیلے سبزے اور سنہرے رنگوں کے جیسے قالین بچھے ہوں۔میری آنکھیں گیلی ہوگئی تھیں۔
‘‘میرے خدا اِس ملک کو تو نے کیا کچھ نہیں دیا۔بس اگر ڈنڈی ماری ہے تو اچھے لیڈر دینے میں۔

ہائی سپیڈ ٹرین 350میل فی گھنٹہ۔پانچ گھنٹے تو پھر بھی لگے۔شیان کا اسٹیشن خوبصورت ۔باہر جانے کے دو رویہ کشادہ راستے جن کے آخری سرے پر دھرے جہازی سائز سرخ گلدان میں مسکراتے پھولوں نے مجھے شی آن آنے پر خو ش آمدید کہا۔

‘‘ہائے اس پُرتپاک سے خیر مقدم پر جی خوشی سے کپا ہوگیا۔ واہ کیا ہی بات میری بھی خود ستائیوں کی۔ د ا ہنی طرف دیوار کے ساتھ باتھ روم ہی باتھ روم والا منظر تھا۔سب میں جھانکا۔ایک بھی کموڈ والا نہ تھا۔
‘‘آفرین ہے بھئی تم چینیوں پر۔تمھارے بڈھوں کے گٹے گوڈوں پر تو سدا عالم شباب ہی رہتا ہے۔’’

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply