تسبیح ‘”مسبحات” کی تاریخ(1)-منصور ندیم

میں تو اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح ڈھونڈھنے نکلا تھا مجھے کافی انفارمیشن مل گئی تو سوچا شئیر کرلوں، اردو میں تسبیح، عربی میں “مسبحة” اور سبحة کہتے ہیں۔ ہمارے برصغیر کے لوگ ہی صرف اونٹ کی ہڈی کی تسبیحات سعودی عرب میں ڈھونڈتے ہیں، اس کے بارے میں یہ تاثر ہے یا مشہور ہے کہ جس گھر میں یا کوئی فرد جو اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح استعمال کرتا ہے، اس گھر یا فرد پر جادو ٹونہ نہیں ہوتا ( واللہ اعلم باالصواب، کم ازکم میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا)، مسلم تاریخ میں تسبیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہیں ملتی ، مگر مالا یعنی پتھروں، دانوں یا موتیوں کی ایک تعداد کو کسی دھاگے میں پروے جانے کو دنیا “مالا” کہتی ہے، اس نسبت سے عربی میں “مسبحة” کا میم “مالا” سے ہے، اور “سبحة” کی نسبت سبحان اللہ کی نسبت سے تسبیحات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب وظائف سے ہے۔
بین الاقوامی عرب انسائیکلو پیڈیا کے مطابق
“تاریخ میں تسبیح یا مالا کا ذکر مختلف مذاہب میں ملتا ہے جو قبل از تاریخ کے زمانے سے مشہور ہیں، سنہء 800 سے اس کے آثار ملتے ہیں کہ،تسبیح کو عبادت کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، چین تہذیب میں بدھ مت میں اور پھر برہمنوں کے درمیان۔ ہندوستان اور دوسری جگہوں پر، اور ان سے شائد عیسائیوں نے اسے لیا کیونکہ پادریوں، راہبوں اور راہباؤں میں تسبیح بطور عبادت کا ذریعہ ہندوستان سے مغربی ایشیا کی طرف گیا ہے” (بین الاقوامی عرب انسائیکلوپیڈیا) ۔
ویسے تاریخ میں یہودیت میں تسبیح یا مالا کے سو دانے کا رواج ملتا ہے۔ جو “ماہ بركوت” یعنی خدا کی سو نعمتیں کہلاتی تھیں۔
مختلف مذاہب و فرقوں میں تسبیح کے مخصوص ہندسے ان کی مزہبی تعبیرات کی بنیاد پر رہے ہیں۔
عیسائی کیتھولک کی عبادت میں استعمال ہونے والی تسبیح پچاس چھوٹے موتیوں پر مشتمل ہوتی تھی، جسے چار بڑے موتیوں میں برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا، اور ایک ہار جس میں دو بڑے موتی، تین چھوٹے موتی، اور تسبیح کے وسط میں ایک صلیب لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ جزیرہ حجاز بلکہ پورے عرب میں قبل بھی از اسلام عرب مالا ہار یا تسبیح کی کسی قسم کو عبادت کے لئے کسی صورت نہیں جانتے تھے، اس کا اظہار قبل از اسلام نہ زمانہ تذکرہنہ ہی ان کی عقیدتوں میں ملتا ہے، نہ ان کی کھیل کود اور مشغولیت کی عادتوں سے، اور نہ ہی کسی تقریر، نثر، اور شاعری میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
جرمن محقق اور مستشرق گولڈ زیہر کی کتاب میں اس کا ریفرنس عبدالرحمٰن بدوی کی کتاب ” اسلامی تہذیب میں یونانی ورثہ ” میں یہ ملتا ہے کہ
تسبیح کا رحجان جزیرہ عرب میں تیسری صدی ہجری کے علاوہ مصر کے راستے نہیں پھیلا تھا، لیکن اسلامی انسائیکلو پیڈیا کے مطابق تسبیح کا اولین استعمال تصوف میں یا معاشرے کے نچلے طبقوں میں ہوا اور پندرہویں صدی عیسوی میں اس کے انکار میں آوازیں بلند ہوئیں لیکن بعض علماء نے فتویٰ دیا کہ اس کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جب تک یہ ذکر کی تعداد کو یاد دلانے کا ذریعہ رہا جس کو اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا ضروری ہے، پھر یہ فقہ کا موضوع بن گیا، اور یہ حلال اور حرام کے درمیان گھومتا رہا۔ فقہاء نے اسے “بدعت” قرار دیا ہے۔ کچھ نے اسے موضوع احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تسبیحات کو پسند کرنے کی بابت لکھا ہے، لیکن بعض کے نزدیک یہ من گھڑت احادیث ہیں۔
نوٹ : یہ تصویر میں موجود تسبیح ساٹھ ہزار روپے پاکستانی مالیت کی ہے، اس میں موتیوں پر چاندی جڑی ہوئی ہے۔
5 جنوری سنہء 2023 کی تحریر ۔
جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply