افطار حسرت کی یاد میں/قمر رحیم خان

دنیا کی بے وفائی کو دیکھا حسرت صاحب؟ آپ کو یہاں سے گئے ابھی کچھ ہی سال گزرے ہیں۔ لیکن میں آپ کے جانے کی تاریخ تو کیا، سال بھی بھول گیا ہوں۔ ابھی جاوید کشمیری کو میسج کیا ہے۔تین سال ہو گئے ہیں آپ کو گئے؟ 8جنوری 2023ء کومیں اور افراز خان میدان والے زاہد حنیف کو ٹوپہ تک چھوڑنے گئے۔ واپسی پر گلی الطاف خان والے ‘‘ٹہاکے’’ پر پہنچ کر میرے پاؤں رُک گئے۔ افراز خان نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔میں گاڑی سے اُتر کر ‘‘ٹہاکے’’ کی طرف چل دیا۔ وہی جگہ جہاں سے راولاکوٹ شہر بائیں طرف نیچے بالکل صاف نظر آتا ہے۔میں نے وہ جگہ ڈھونڈ لی جہاں ہم کبھی کبھار بیٹھا کرتے تھے۔تقریباً بیس سال بعد میں آپ کے آفس میں آپ کو ملاتھا۔ آپ کے گھر جانے کا وقت ہو گیا مگر ہماری باتیں ختم نہیں ہوئیں۔طے ہوا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ دوں تاکہ کچھ دیر مزید گپ شپ ہو جائے۔ہم وہاں سے چلے ۔ میں نے کہا ہم نیلی ریڑ کے پاس جا کر بیٹھیں گے۔ آپ کھلکھلا کر ہنس دیے اور کہا یار وہ تو کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔ میں نے کہا آپ چل کر دیکھیں تو سہی۔ اس سے زیادہ خوبصورت نظارہ کسی دوسری جگہ سے نہیں ہے۔ہم نے کچھ آڑو لیے اور وہاں آکر رک گئے۔وہاں پہنچ کر آپ پھر گاڑی کی طرف یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ میں آپ کا ہاتھ دیکھوں گا۔آپ عدسہ لے کر واپس آئے اورہم دیر تک شہر کا نظارا کرتے رہے۔ پھر ایک جگہ ہری بھری گھاس پر بیٹھ کر آڑو کھائے۔ہم نے گھاس کے ساتھ ہاتھ صاف کیے اور آپ میرا ہاتھ دیکھنے لگے۔آپ کی پیشن گوئیوں میں سے زیادہ پوری ہو گئیں، کچھ ہی باقی ہیں۔

آج 8جنوری کو جب میں نے وہ جگہ ڈھونڈ نکالی تومیری آنکھیں نم ہو گئیں۔ گھاس کو کسی نے آگ لگا دی تھی اور وہ جگہ جل کر سیاہ ہوگئی تھی۔میں اپنی جبکہ افراز خان آپ کی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اکثردرختوں کے پتے جھڑ چکے ہیں۔سارا ملک ننگا ہو چکا ہے اور درختوں میں چھپے گھر وں کے صحن بھی نظر آرہے ہیں۔سامنے تولی پیر پر تھوڑی برف پڑ چکی ہے ۔ جبکہ اس کے دائیں طرف پیر پنجال کے اونچے پہاڑبرف سے لدے ہوئے ہیں۔ راولاکوٹ کی وادی کے گرد تھوڑے اونچے پہاڑ ، پھر اس سے اونچے پہاڑ جنہیں پائن کے درختوں نے ڈھانک رکھاہے۔ہزاروں درختوں کے کٹ جانے کے بعد بھی وہ کافی حد تک سر سبز ہیں اورتین پرتوں میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے کھڑے ہیں۔ ان کے پیچھے، آخری رو میں دور مشرق میں پیر پنجال کے اونچے پہاڑایک تاج کی مانند چمک رہے ہیں۔ چاندی کے اس تاج پہ آسمان ابر آلود ہے۔بادلوں کی گھٹا چمکتی ہوئی شفاف برف سے الگ تھلگ نظر آرہی ہے۔کہیں گہری سرمئی ہے تو کہیں سفیداور کہیں کالی ، برسنے کو تیار۔ ٹوپہ کے روٹ پر پرانی ویگنیں ابھی تک چل رہی ہیں۔ سڑک پہلے سے قدرے بہتر ہے۔

ٹھنڈی سَرد ہوا چل رہی ہے، ہاتھ یخ ہو گئے ہیں اور ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ مگر مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا ۔میں یہاں سے اٹھا تو بنک روڈ راولپنڈی میں سردار اسحاق صاحب کے آفس میں پہنچ گیا۔جہاں گرمی میں جسم جل رہے ہیں۔ سردار صاحب سیاسی امور پر دل کھول کر گفتگو کررہے ہیں۔ اور ہم باوجود اختلاف کے ان سے اختلاف نہیں کررہے ۔ پھر ہم وہاں سے اٹھ کر برلاس ہوٹل پر آگئے۔ ہر طرف گہما گہمی ہے، چہل پہل ہے۔ لوگ خریدو فروخت میں ،بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ جبکہ ہم اپنی قوم کی غلامی اور محرومیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ آج ہم ممتاز ہو ٹل پر ملے ہیں۔ یہ 1995ء کا سال ہے ۔ جب این ایس ایف نے نیشنل عوامی پارٹی بنائی ہے۔ اس موضوع پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ اس پارٹی پر کیا بیتی آپ نے دیکھ ہی لیا تھا۔

میں پچھلے آٹھ ماہ سے اِدھر ہی ہوں۔ کئی بارآپ کے دفتر کے سامنے سے گزر ہوامگر ایک ہی بار مڑ کر دیکھنے کی حوصلہ ہو سکا ہے۔ آپ کی بیٹھک شاید ختم ہو گئی ہے۔ وہاں پر کیا بنا ہے، کچھ پتا نہیں۔لوہے کی وہ تنگ سیڑھی جو اس بیٹھک کو جاتی تھی، ابھی تک وہیں پر ہے یا نہیں، مجھے نہیں معلوم ۔آپ کے دوستوں میں سے خال خال ہی کوئی ملتا ہے۔ ساقی صاحب سے غالباً دو سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ پھر وہ نظر نہیں آئے۔سرداراسحاق صاحب سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ان دنوں اپنی تاریخ پر لکھی کتاب کو چھپوانے کے لیے لاہور گئے ہوئے ہیں۔ جاوید کشمیری سے بھی شاید ایک ہی بار ملاقات ہوئی ہے۔ اس نے ٹوپہ کے سکول میں ایک لائبریری بنوائی ہے۔ وہ لائبریری بھی ہے ، کانفرنس روم بھی۔ خرچہ کس نے کیا ہے ، نہیں معلوم۔حال ہی میں بلدیہ کے الیکشن ہوئے ہیں۔آپ کے علاقے سے کون جیتا کون ہارامجھے اس کی خبر نہیں۔ البتہ آپ کے دوست سجاک صاحب ڈسٹرکٹ کونسلر کے لیے لڑے تھے۔جاوید ناز صاحب سے ایک آدھ بار‘ ہتھ پنجا’ ہوا ہے۔ کالا ‘تُہوں’ ہو چکے ہیں۔ جاوید نثار صاحب بھی گن گن کر دن گزار رہے ہیں۔ کچہری کے علاقے میں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔یہ علاقہ ہمارے لیے اجنبی ہو گیا ہے۔ تقریباً ستر فیصد لوگ نئے ہیں۔ نئے لوگ پرانوں کی جگہ لیتے جا رہے ہیں۔ہر لمحہ دنیا بدلتی جا رہی ہے۔ کہیں کسی چیز میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہے۔ لوگ گاڑیوں کے ماڈلوں کی طرح بدل رہے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے اس سب کچھ میں ہمارا گزارا روزبروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ویسے بھی ہمارا کافی سفرطے ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سارا سفر رائیگاں ہی گیا۔ ہم نے جو سوچا تھا ، ہم سے ہو نہ سکا۔کسی کو کچھ دے پائے ،نہ اپنے ہاتھ ہی کچھ آسکا۔یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ماحول آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ سیدھی سادی بات کے معنی تلاش کرتے ہیں۔ اور ایسے معنی ڈھونڈ لاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اچھا ہوا حسرت صاحب آپ چلے گئے۔ یہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اور اب تو بالکل ہی رہنے کے قابل نہیں رہی۔ کبھی کبھی میں اپنے اوپر آنے والے وقت کے بارے میں سوچ کر پریشان اور خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔ آپ ہوتے تو ہم پھر اسی جگہ جا کر بیٹھتے ۔ سردیوں کی شاموں میں ، کبھی ٹھنڈی دھوپ میں، کبھی سرسبز، کبھی جلی ہوئی گھاس کی راکھ پر۔ دنیا کیا ہے؟الطاف گلی والے ‘ٹہاکے’ کا منظر۔ اور زندگی کیا ہے؟ ہری بھری گھاس سے راکھ تک کا سفر۔ حسرت صاحب دعا ہے آپ سے جلد ملاقات ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply