تیری یاد کا بادل میرے سر پر آیا/ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بڑی بی، کیوں آنکھیں چرائے پھر رہی ہو ؟ ہماری اور دیکھتیں بھی نہیں ؟ گھر لا کر کونے میں ڈال رکھا ہے،کیا ڈر ہے تمہیں ؟ پنڈورا باکس کھل جائے گا اور وہ یادیں بھی نکل آئیں گی جو مدتوں سے دفن ہیں ۔

اس دن جب تم ہماری طرف لپکیں اور ارد گرد سب کچھ بھلا کر محبت بھری نظروں سے ہمیں دیکھ کر ہنسیں۔۔سٹال والا بوڑھا تمہیں ہمارے بارے میں بتانے کی کوشش کرتا رہا اور تم سر جھٹکتے ہوئے کہتی رہیں ،مجھے علم ہے ، سب پتہ ہے۔ پھر ہم سب کو تم نے وہاں سے اٹھا لیا ، ہماری بوسیدگی اور خستہ حالی کی پرواہ کیے بغیر، اسی محبت سے تم ہمیں اپنے گھر لے گئیں ۔ تب سے ہم انتظار میں ہیں کہ تم کب دیکھو گی ہماری طرف؟

ہم دیکھ چکے ہیں کہ تم ہماری طرف آتے آتے ٹھہر جاتی ہو, رخ بدل لیتی ہو۔ تم چاہتی ہو کہ تم ہمیں دیکھو ، ہمیں محسوس کرو ، کچھ کہو، کچھ سنو مگر پھر اپنے آپ کو تم روک لیتی ہو۔

اصل میں ہم ہم نہیں، ہم وہ نہیں جو دکھتی ہیں، خستہ ، شکن زدہ، بوسیدہ، کٹی پھٹی۔ ہم تو تمہاری زندگی کے وہ دن ہیں جو تمہارے ہاتھ سے پھسل کر گزر چکے۔ تم دیکھتی ہو ہم میں بہت سی یادیں ، کسی اور کا لمس ، بے لوث محبت و شفقت کے سائے، ایک اور دنیا کی مہک۔

یاد ہے تمہیں وہ دوپہریں جب سکول سے نکلتے ہوئے کچھ دیر ہو جاتی اور پھر بس سٹاپ پہ بس آنے کا نام ہی نہ لیتی۔ تم جھنجھلاتیں، بڑبڑاتیں۔۔ابّا اگر میرے گھر پہنچنے سے پہلے دفتر سے آ گئے تو ؟ ہائے اللہ کیا مصیبت ہے ، منحوس ماری بس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایک آئی تھی وہ بھی اس قدر بھری ہوئی کہ رُکی ہی نہیں۔ چھٹی کی گھنٹی بج گئی مگر ٹیچر نے رٹا ہوا سبق ہمیں سنا کر ہی چھوڑا۔ اُف اللہ ، دس منٹ اور گزر گئے، ابّا پہنچ گئے ہوں گے۔

تمہاری بڑبڑاہٹ سن کر کوئی نہ کوئی پوچھ ہی لیتا ۔ کیا تمہارے ابّا بہت سخت ہیں؟ لگتا ہے گھر دیر سے پہنچنے پہ بہت ڈانٹ پڑتی ہو گی۔

سخت۔۔ ڈانٹ ۔۔ ابا ۔۔ وہ کیوں بھئی ؟ تم زور زور سے ہنستیں۔ میرے ابا اور ڈانٹ ۔۔آج تک تو ایسا ہوا نہیں ۔ وہ کیوں ڈانٹیں بھلا؟ بس دیر سے آئے گی تو میرا کیا قصور ؟ اور اگر کوئی قصور ہو تب بھی وہ ڈانٹتے نہیں۔

پھر تمہیں پریشانی کاہے کی ہے؟ دوسری لڑکی پوچھتی ۔

ارے ہے نا ایک بات ۔۔ بس ابا کے گھر آنے سے پہلے مجھے گھر پہنچنا ہے، تم کہتیں ۔

کیوں ؟ ایسی کیا بات ہے ؟ ایک اور لڑکی کہتی۔

لو دیکھو بس آ گئی ۔ اُف خدایا اتنا رش، جگہ ملنا تو دور کی بات ، چڑھنا بھی ناممکن لگ رہا ہے وہ بھی اتنا بھاری بستہ لے کر۔ خود تو گھس ہی جاؤں گی کسی نہ کسی طرح ، بستہ اگر اٹک گیا کسی کی ٹانگوں میں، تو مصیبت ہو جائے گی۔ چلو بھئی لگاؤ دوڑ ، کم ازکم چڑھنے والوں میں تو پہلا نمبر ہو۔ اُف اللہ اُترنے والے کس قدر دیر لگا رہے ہیں ۔ ڈرائیور کا کوئی اعتبار نہیں ، فوراً ہی بس چلا دی تو ؟ اور دیر ہو جائے گی ۔ نہیں بھئی چڑھنا تو اسی میں ہے۔

کسی نہ کسی طرح تم بس میں چڑھ جاتیں، بس کا ڈنڈا تمہارے قد سے بہت اوپر ہوتا۔ ایک ہاتھ سے بستہ سنبھالتیں اور دوسرے سے کوئی سہارا ڈھونڈتیں۔ نہ گرمی تمہیں تنگ کرتی نہ دھکم پیل، نہ لوگوں کا رش اور نہ ہی بستے کا بوجھ ۔ بار بار گھڑی دیکھتے ہوئے پھر وہی سوچ ، اللہ کرے ابھی ابا گھر نہ پہنچے ہوں۔

بس جگہ جگہ رکتی ، اترنے چڑھنے والے دیر لگاتے، کبھی اکتایا ہوا ڈرائیور جوں کی رفتار سے بس چلانا شروع کر دیتا ۔۔ ہر چیز سے تم مزید جھنجھلاتیں ، زیر لب بڑبڑاتیں اور ماتھے پہ دو چھوٹی چھوٹی شکنیں نظر آنے لگتیں ۔

جونہی تمہارا سٹاپ نزدیک آنے لگتا تم کھسک کر دروازے کے پاس پہنچ جاتیں کہ اترنے میں وقت ضائع نہ ہو۔ چھلانگ لگا کر اترتیں اور گھر کو جانے والی سڑک پہ مڑ جاتیں ۔ دل ہی دل میں سوچتی جاتیں، کس گلی سے گھر کی طرف مڑوں کہ کم سے کم وقت لگے۔ سڑک سے گھر کو مختلف اطراف سے جاتی چار گلیاں تمہاری بے چینی دیکھ کر مسکراتیں ۔ تم تیزی سے گھر کی طرف یوں چلتیں جیسے بھاگنے کا ارادہ ہو، بیچ بیچ میں کچھ رستہ بھاگ بھی لیتیں۔ چھوٹی سی ایک لڑکی، آنکھوں پہ عینک ، دو چوٹیاں بنائے، سکول یونیفارم میں بستہ اٹھائے بھاگتی ہوئی___ کیا منظر ہوتا ہو گا؟ جونہی گھر کا دروازہ نظر آنے لگتا ، تمہیں پر لگ جاتے، آنکھیں چمکنے لگتیں ، دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ۔

وقت تو ہو گیا ہے ابا کے آنے کا، اللہ کرے ابھی تک پہنچے نہ ہوں ۔ اپنے آپ سے باتیں کرتے تم گھر کے دروازے میں داخل ہو جاتیں۔۔امی سلام علیکم ، ابا جی آ گئے کیا دفتر سے ؟ ڈیوڑھی سے ہی تم سلام کرتے ہی پکار کر پوچھتیں ۔ وعلیکم السلام ، دم تو لو، کپڑے تبدیل کرو، منہ ہاتھ دھوؤ اور کھانا کھاؤ، آتے ساتھ ہی اور کوئی بات ہی نہیں، ابا کی تفتیش شروع۔ آج آ لیں تمہارے ابا، کہتی ہوں انہیں، یہ سلسلہ روکنا پڑے گا۔ انتہائی غلط عادت ڈال دی ہے تمہیں، گھر میں داخل ہوئی نہیں اور پہلا سوال یہی ۔ میں جانتی ہوں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟

امی کا کہنا کہ آج آ لیں تمہارے ابا، سن کر تمہارے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل جاتی، ساری بے چینی ہوا ہو جاتی، بس کا انتظار ، دھکم پیل اور کھڑے ہو کر سفر کرنے کا غم بھول جاتا ۔ بس آج شام تو خوب مزا آنے والا ہے ۔ سب سے پہلے میں ہی لوں گی انہیں , اب کوئی اور نہیں لے سکتا۔ذہن میں منصوبے تیار ہونے لگتے، خوشی چھپائے نہ چھپتی ۔

باقی امیدوار کن اکھیوں سے تمہیں تکتے، جانتے تھے کہ تمہارے ہوتے ہوئے دال گلنے والی نہیں۔ جلدی جلدی کھانا کھاتیں ، کسی بھی آہٹ پہ چونک جاتیں، کہ کہیں ابا تو نہیں آ گئے ۔

کھانا کھا کر دالان میں ٹہلنا شروع ہو جاتا اور آخر کار دروازے کے باہر کھٹکے کے ساتھ مانوس چاپ سنائی دیتی ۔ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں تم ڈیوڑھی میں کھڑی ہوتیں ۔ ابا اندر داخل ہوتے، تمہیں دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ تھکے ہوئے چہرے پہ آ جاتی۔ تم لپک کر پاس جاتیں اور یہ کہتے ہوئے ابا کے ہاتھ میں تھامی کتاب لے لیتیں، میں کب سے انتظار کر رہی تھی ابّا۔ ان کی مسکراہٹ گہری ہو جاتی ۔

تمہارا اور ہمارا رشتہ ان دنوں کی یاد ہے۔ ہم ابن صفی کی تخلیق جنہیں تمہارے ابّا نے آرمی لائبریری سے لانا شروع کیا اور نا صرف خود فین ہوئے بلکہ ساتھ میں سب بچے مل گئے اور سب سے بڑھ کر تم ۔

ہم جب تمہارے گھر آتے تو سب کی باری لگتی کہ کس کے بعد کون؟ زیادہ تر پہلے نمبر پہ تم ہی ہوتیں اور ہمیں بھی سب سے زیادہ تمہارے ہاتھ میں ہی مزا آتا ۔

ڈھلتا سورج، نرم دھوپ، ہلکی ہوا، صحن کے کونے میں سینکڑوں چڑیوں کی باجرا چگتے ہوئے راگنیاں، بیچوں بیچ بچھی چارپائی، اس پہ دراز تم اور تمہارے ہاتھ میں ہم!

بے قراری سے گھومتی آنکھیں، ہاتھ تیزی سے ورق پلٹاتے، ہونٹوں پہ مسکراہٹ۔ عمران کی بے وقوفی اور ایکس ٹو کی ذہانت کا امتزاج تمہارے رگ وپے میں سنسنی پھیل جاتی ۔ گو کہ تم بچی تھیں مگر عمران کو دیکھ کر جولیانا کی بے چینی تمہارے لیے راز نہیں تھی۔

ہمیں پڑھتے ہوئے تمہیں بھول جاتا کہ سکول سے کچھ ہوم ورک بھی ملا ہے اور اماں دو چار بار تمہیں آواز دی چکی ہیں ۔ کوئی کیا کہتا؟ سب جانتے تھے کہ جب تک ناول ختم نہیں ہو گا، تمہیں متوجہ کرنا بیکار۔

رات ہوتے ہوتے ناول ختم ہو جاتا ۔ تم ایک لمبا سانس بھرتیں، اور اس دنیا میں واپس آ جاتیں جس سے دوپہر کے بعد سے ناطہ توڑے بیٹھی تھیں۔ چہکتے ہوئے آواز لگاتیں ، پڑھ لیا ، اب کس نے لینا ہے؟

تمہاری آواز سن کر اماں بڑبڑاتیں ۔۔توبہ توبہ ، نہ یونیفارم تبدیل ہوا، نہ سکول کا کوئی سبق یاد کیا، نہ ماں کی خبر لی کہ کیا کر رہی ہے باورچی خانے میں ۔ بس ابا نے ناول تھما دیا ہاتھ میں اور بیٹی بھی ناول میں گم ، ہوش ہی نہیں کسی بات کا۔ بگاڑا انہوں نے ہی ہے اسے ، کچھ کہتے ہی نہیں، اوپر سے جاسوسی ناول لا دیتے ہیں۔ دوسری دو بھی تو ہیں ، ٹھیک ہے پڑھیں گی تو وہ بھی لیکن اب ایسا بھی کیا جنون ۔۔

آہ ہا ، کتنا مزے کا تھا زیرو لینڈ ، اور وہ سنگ ہی ، توبہ کیسے گولیوں سے بچ رہا تھا ۔خیر عمران نے بھی یہ فن سیکھ ہی لیا، کیسے ناکوں چنے چبواتا ہے اسے ۔۔ اور وہ تھریسیا ، اُف کتنی ذہین ، عمران کی ٹکر ہے بالکل ۔ سلیمان دیکھو نا کیسا سر پہ چڑھا کر رکھا ہوا ہے عمران نے، انسپکٹر فیاض ، کام چور کہیں کا۔ اور وہ عمران کے ابا ، جنہیں پتہ ہی نہیں کہ اپنا بیٹا ہی ایکس ٹو ہے۔۔اماں کی بڑبڑاہٹ سنی ان سنی کرتے ہوئے تم اپنے آپ سے باتیں کرتیں۔

اچھا یہ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کیا کراچی میں ہو گا اصل میں ؟ پنڈی میں تو کبھی کوئی کلب نظر نہیں آیا۔ اچھا اب تمہیں نائٹ کلب بھی دیکھنے کا شوق ہونے لگا، دماغ گھر کتا ۔ افوہ اندر تھوڑی جاؤں گی ، بس باہر باہر سے ۔ توبہ توبہ ابا پڑھوا دیتے ہیں نا سب کچھ ، اگر خبر ہو گئی نا کہ بیٹی صاحبہ نائٹ کلب کے بارے میں سوچ رہی ہیں تو سب ناول وغیرہ دھرے رہ جائیں گے ۔ لو تو ابا خود بھی تو پڑھتے ہیں، جب وہ پڑھ سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں ؟

اچھا اب ابا کو کہتی ہوں کہ اس سے اگلا حصہ جلد لا کر دیں ۔ لیکن جب تک یہ والا سب پڑھ نہیں لیں گے، ابا کیسے دوسرا لائیں گے؟ توبہ ایک تو سب پڑھتے اتنا آہستہ ہیں نا جیسے ہجے کر رہے ہوں۔۔

بی بی جس رفتار سے تم صفحے پلٹتی ہو نا ، صاف بات پوچھو تو ہمیں لگتا ہے کہ بس پلٹتی ہی ہو۔ کوئی اتنی جلد کیسے پڑھ سکتاہے کہ ہم پڑھیں آدھا صفحہ اور تم پڑھو دو۔ ایسا لگتا ہے تین تین لائینیں چھوڑ کر پڑھتی ہو۔۔کیا کروں اگر آنکھ تیزی سے چلے تو؟ اری او نادان، آنکھ کی تیزی اچھی نہیں ہوتی، قابو میں رکھو اسے ۔

فریدی مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔بہت ہی سڑیل ہے، ہر وقت غصہ ناک پہ۔ ساتھ میں حمید، ایسے ہی ڈاکٹر واٹسن بنا پھرتا ہے۔ کہوں گی ابا سے فریدی سیریز مت لایا کریں ۔ اچھا جب عمران سیریز ختم ہو جائے گی، تب کیا کرو گی؟ دماغ چھیڑتا۔ تب کی تب سوچی جائے گی__ ہو سکتا ہے فریدی ہی پڑھ لوں لیکن عمران کی موجودگی میں نہیں ، ہر گز نہیں، سب مزا کرکرا ہو جائے گا ۔

دن گزرتے گئے۔ نہ صرف عمران اور فریدی سیریز ختم ہوئی بلکہ ہمارا خالق بھی تمہارا بچپن گزرنے سے پہلے ہی گزر گیا۔ ہمارا اور تمہارا رشتہ دھندلا گیا۔ ان سب پچھلے برسوں میں ہمیں لگتا تھا کہ تم سب کچھ بھول چکیں۔ کتابیں تو بہت تھیں تمہاری زندگی میں، پھر بھلا ہم کیا یاد ہوں گی تمہیں؟

لیکن اردو کانفرنس میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے سٹال پہ تم جیسے ہم سے ملیں ، وہ رشتہ زندہ ہو گیا جس میں وہ گھر تھا، تم تھیں ، ہم تھے اور تمہاری زندگی کا وہ سنہری دور جو اماں ابا اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزرا تھا۔ جب زندگی کی بھول بھلیاں تم پہ کھلی نہیں تھیں، زندگی حسین تھی، مختصر اور سادہ۔ ہم ، ابا، شام ، چڑیاں اور تم !

ہمیں علم ہے کہ ماضی کے اس سفر پہ جانا تمہارے لیے آسان نہیں، ہمارے لیے بھی نہیں ۔ اتنے بہت سے برسوں نے ہمیں بھی بوسیدگی اور خستہ حالی کا پیراہن پہنا دیا ہے ۔ ہم ہیں بھی تو وہی، جو اس وقت نئی چمچماتی حالت میں لائیبریری کی الماری میں ہوتی تھیں اور پھر وقت نے فٹ پاتھ پہ لا ڈالا۔ لیکن رہ گیا تمہارا لمس ہم میں اور ہماری یادیں تم میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو پھر وہیں سے سب زندہ کریں !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply