سماج (29) ۔ مستقبل/وہارا امباکر

ایک دلچسپ سوال ہے کہ مستقبل کے معاشروں کی شکل کیسی ہو گی؟ آج ایسے معاشروں کی تعداد بڑھ رہی ہیں جہاں پر نسلی یا نظریاتی تنوع کو بڑی حد تک برداشت کیا جاتا ہے۔ ایک قومیت کے لوگ دوسروں کے ساتھ کام کر لیتے ہیں۔ اور کسی سوسائٹی کیلئے ایسی صلاحیت اس کی مضبوطی اور خوشحالی میں کردار ادا کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک سٹیڈیم میں ایک میچ کے دوران اپنی ٹیم کیلئے یا ایک جھنڈے تلے اپنے ملک کے لئے مل کر جذباتی نعرے لگاتے ہر نسل اور زبان رکھنے والے ہجوم کی طاقت بڑی ہے۔
اور ایسے تعلقات قوم کو مشکلات سے بچاتے ہیں۔ قوم پر جس طریقے سے حکومت کی جائے، اس کا معیار بھی اس میں مدد کرتا ہے۔ جب تک یہ آپسی تعلقات مثبت رہیں، نسلی یا لسانی تعصب کم رہتا ہے، خواہ الگ گروہ ایک دوسرے سے زیادہ گرمجوشی والے انفرادی تعلق نہ رکھیں۔
اپنی مشترک شناخت کے ساتھ اپنی core identity کے بل پر اپنے تمام تر اختلافات کو ساتھ ساتھ، اکٹھے مل جانا آسان نہیں ہے لیکن ایسا کیا جا سکتا ہے۔
وہ قوم جو کہ اپنے لوگوں کے درمیان تعلق بنانے کی مہارت پا لے، اس زمین پر اپنی عمر بڑھا سکتی ہے۔
اور کسی قوم کیلئے طویل مدت کیلئے ایسا کر لینا انسانیت کی تاریخ میں بڑی کامیابی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا سمجھنا بے وقوفی ہو گی کہ ایسا محض خوشگوار نیک نیتی سے یا پھر احتیاط سے کی گئی سوشل انجنیرنگ سے کیا جا سکتا ہے۔ آپ انسان کی عقلی ہنرمندی کے بارے میں جتنے بھی پرامید ہوں، ہمارے ذہن ایک خاص حد تک ہی یہ لچک رکھتے ہیں۔ اپنے سماجی رتبے کو بالادست برقرار رکھنے کی خواہیش ہماری فطرت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے، اور ہمیشہ رہی ہے، کہ ہمارے گروہ ہمارے عدم اطمینان کو ختم نہیں کرتے۔ بلکہ یہ اس کی سمت باہر والوں کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ سیاسی، نظریاتی، سماجی، نسلی، قومی یا کسی بھی لحاظ سے “وہ جو ہم میں سے نہیں” ہمارے عدم اطمینان کا سبب بن جاتے ہیں۔ غیروں کو ولن بنا کر اس کی سمت باہر کی طرف موڑ دی جاتی ہے۔
دوسروں کے بارے میں جان لینا بھی ہمیشہ ان کے ساتھ سلوک میں بہتری نہیں لاتا۔ اگر ہماری نوع کو گروہی تنازعات کی قدیم تاریخ سے ناطہ توڑنے کی کوشش کرنا ہے تو جس چیز کو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے، وہ دوسرے نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ اپنی اس خاصیت کی وجہ سمجھ لینے کی کوشش ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم کسی کو کمتر انسان سمجھنے لگیں حتیٰ کہ کیڑے مکوڑے کی طرح دیکھنے لگتے ہیں۔
اور ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ لوگ خود اپنی شناخت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس میں اگر کسی بھی طرح کا ردوبدل کئے جانا ہے (اور یہ عمل ہر وقت جاری رہتا ہے) تو کم سے کم نقصان سے ساتھ اس کو کیسے کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئے زمین پر صرف ایک ہی مخلوق ہے جو ایسا کر سکتی ہے۔ غیروں کے ساتھ ہمارے رویے یکساں نہیں۔ ہم میں سے کچھ اس بارے میں زیادہ محتاط ہوتے ہیں، کچھ جلد بھروسہ کرنے والے۔ لیکن یہ صلاحیت ہم سب میں ہے کہ ناقابلِ عبور فرق رکھنے والوں کے ساتھ بھی معاملہ کر سکتے ہیں۔
یہ ہماری نوع کا تحفہ ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ انسان اپنی تنازعے کی فطرت پر بندش لگا سکتا ہے۔ اسے کسی حد تک قابو میں رکھ سکتا ہے۔ اور صرف ہم وہ نوع ہیں جو اپنی عقل کی مدد سے اپنی جبلت کو کسی حد تک رام کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل کے کسی بھی utopia کا خواب کسی متحد دنیا کا نہیں، گروہی تنازعوں کی شدت کی کمی کا ہو سکتا ہے۔
اس بات کو سمجھ کر اور تسلیم کر کے ہو سکتا ہے کہ
ہم سیاسی، نظریاتی، سماجی، نسلی، قومی یا دوسرے گروہ بناتے ہیں اور ہمیشہ بناتے رہیں گے۔
ہم منقسم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
اور اسی تقسیم کو ساتھ لے کر ہی ہمیں کسی طرح اکٹھے کھڑا ہونا ہے۔
(ختم شد)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply