کیا سچ ہے کیا جھوٹ/ڈاکٹر مجاہد مرزا

جوہر کے ایک مہین تر ذرّے الیکٹرون کی دو یا دو سے زائد مقامات پر بیک وقت موجودگی یا ہمہ جا موجودگی یا کہیں بھی موجود نہ ہونا تو بہت پہلے سے تجربات کے ذریعے ثابت کیا جا چکا ہے اور یہ بھی کہ الیکٹرون ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے فاصلہ طے نہیں کرتا بلکہ ایک جگہ غائب ہوتے ہی دوسری جگہ نمودار ہو جاتا ہے۔
مگر جو نئی بات ماضی قریب میں سامنے آئی وہ یہ کہ دو سائنسدانوں نے “بند وقت کے موڑوں” یعنی CTC closed timelike curves میں سے ایک فوٹون کو گزار دیا۔ مطلب یہ کہ روشنی کے گٹھے Quantum کا یہ مہین ترین ذرّہ حال سے ماضی میں چلا گیا۔
کوانٹم فزکس کی باتیں کچھ عجیب لگتی ہیں مگر جب آپ کو طبعیات کی اس صنف سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے تو آپ کے اچنبھے غائب ہو جاتے ہیں پھر کچھ بھی عجیب نہیں لگتا۔

بڑے بڑے اجرام و اجسام جو دکھائی دیتے ہیں وہ ان طبعیاتی اصولوں کے تابع ہیں جن سے انسان آج تک شناسا ہو سکا ہے اور جن کو اس نے طبعی قوانین کی حیثیت دے دی ہے۔ اس کے برعکس انتہائی مہین مقام پر موجود اس مقام سے بھی کہیں زیادہ مہین ذرات میں جو اعمال وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ ان طبعی قوانین کے پابند نہیں ہیں۔

ایسی ہی محیر العقول باتیں ہم افراد و اعمال سے متعلق سنتے رہے ہیں مثلاً شاہ حسین ایک ہی وقت پر لاہور میں بھی موجود تھے اور ہردوار میں بھی جہاں ان کے محبوب مادھو لال کے والدین اسے زبردستی لے گئے تھے۔ یا پھر معجزات و کرامات۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوانٹم فزکس کو وضع ہوئے ایک سو سال سے بھی کم گزرے ہیں۔ صدیوں پہلے “ہمہ اوست” کا تصور کیسے پیدا ہوا؟ یا ایسے مظاہر جیسے کہ کسی کا دریا کے پانی پر جاء نماز رکھ کر نماز پڑھنا، یہ کہنا کہ اچھا تُو بھی میری طرح مرے گا تو جیسے میں مرتا ہوں مر کر دکھا، زمین پر لیٹا چادر تانی اور مر کر دکھا دیا، یہ دیکھا تو عطار عطر وطر چھوڑ صوفی ہو گیا یا کسی شخص کا ایک سے زیادہ مقام پر دیکھا جانا، یہ سب کیا ہے؟

فی الحال میں خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک شخص اپنے اربوں کھربوں مجتمع جواہر و سالموں کے ساتھ اس طرح کیسے عمل کر سکتا ہے جیسے مہین تر مقام پر مہین ترین ذرات کرتے ہیں مگر ایسا ہو تو سکتا ہے جیسے ہمیں ابھی معلوم ہو رہا ہے کہ روشنی کا ذرہ Wormhole کو عبور کرکے ماضی میں جا سکتا ہے تو ایک ایسا شخص بھی زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہو سکتا ہے جس کو اس راز سے آگاہی ودیعت ہو چکی ہو۔

مگر ہم تو آج سائنس کو ماننے پر ہی زور دیتے ہیں کہ جب تک تجربے سے ثابت نہیں ہوتا کچھ بھی مستند نہیں ہے۔ بالکل ویسے جیسے آج سے کوئی ایک سو سال پہلے تک کوئی شخص اگر چند گھنٹوں میں لاہور سے نیویارک پہنچنے کی بات کرتا تو دیوانہ کہلاتا لیکن آج پانچ برس کا بچہ بھی اس سچ کو جانتا ہے۔

زمان و مکان ایک ایسا بکھیڑا ہے جو نا صرف یہ کہ ہمیشہ سے ہی قابل غور رہا ہے بلکہ اب تک اس کا عقدہ کُھل نہیں پا رہا کہ کیا زمان  و مکان سے منسلک ہے یا مکان زمان سے یا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
کہتے ہیں کہ اگر انسان کچھ مسئلے حل کر لے تو اس کی باقی تمام سوچوں سے جان چھوٹ سکتی ہے جن میں سے ایک موت پر فتح پانا ہے، دوسرے زمان کو قابو میں کر لینا یعنی جب چاہے ماضی میں جا سکے اور جب چاہے مستقبل میں۔

زمان و مکان کے بارے میں ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے ہی بوجھ سے تہہ در تہہ مڑتے جاتے ہیں ۔ جو تہہ ابھی لطیف ہے وہ مستقبل اور جو کثیف تہہ بن چکی وہ ماضی۔

وقت کو پھلانگنے والی مشین بنا لینا انسان کا دیرینہ خواب ہے۔ تازہ تجربہ اس خواب کی تعبیر پا لینے سے متعلق پہلی کرن ہے۔
سائنس اور مابعد الطبعیات کہیں کہیں ایک ہوتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ جو عمل ماضی میں مابعدالطبعیاتی عمل خیال کیا جاتا تھا وہ سائنس کے ذریعے ثابت ہونے کے بعد سائنسی عمل کیسے تسلیم کر لیا گیا جیسے ٹنوں لوہے کا ہوا میں اُڑنا۔

چنانچہ جب تک جیسا کہ روسی سائنسدانوں نے تحقیق کی ہے، ہماری کہکشاں ملکی وے اپنی قریب ترین کہکشاں اینڈرومیڈا سے چار ارب سال بعد ٹکرا نہیں جاتی تب تک قیامت بپا ہونے میں بہت وقت باقی ہے اور سائنس کی ترقی سے مابعدالطبعیات کے سائنس میں ڈھلنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس انسان کو رجائیت پسند ہونا چاہے۔ یاسیت پسند تو روزانہ کسی شہابیے کو زمین سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں یا عذاب الیم کی پیشگوئی کر رہے ہوتے ہیں اور ایسا نہ ہونے پر کھسیانے بھی نہیں ہوتے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply