رونالڈو کی لونڈی(1)-ڈاکٹر مشتاق

 سعودی اولوا الامر اور ہمارے “اولوا التمر”
سعودی اولوا الامر کی ٹامک ٹوئیاں ہمارے ہاں کے “اولوا التمر” کو بھی الٹی قلابازیاں لگانے پر مجبور کردیتی ہیں۔ یقین نہ ہو تو رونالڈو کی “ملک یمین” کی (غیر مصدقہ) خبر کے بعد کی صورت حال دیکھ لیجیے۔
دوسری جانب پھر دیسی لبرلز نے سوشل میڈیا پر لونڈیوں اور غلاموں کے متعلق اسلامی احکام کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
پہلے تو اس پوسٹ میں کارفرما چند “ٹویسٹس” ملاحظہ کیجیے:
1۔ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی غلامی کی بات کی گئی ہے جب مسلمان ، کسی بھی وجہ سے، غلام بناتے تھے ، یا آئندہ کی بات کی گئی ہے جب مفروضہ طور پر مسلمان کسی وقت اس پوزیشن پر آجائیں گے کہ وہ پھر سے غلام بناسکیں گے۔ لمحۂ موجود میں غلامی کی بات کی بھی گئی ہے تو صرف اس مثال کی جو مسلمانوں کے ایک بہت ہی محدود گروہ نے بہت ہی محدود پیمانے پر اختیار کی۔ سوال یہ ہے کہ ماضی میں جو کچھ مسلمانوں نے کیا، کیا اسے ہم undo کرسکتے ہیں؟ یا مستقبل میں اگر کبھی مسلمان سیاسی طور پر دنیا میں غالب آئے، حالانکہ آپ کے استاد گرامی کے بقول نہ امام مہدی نے آنا ہے، نہ ہی مسیح نے، تو مسلمانوں کے عالمی سیاسی غلبے کا مفروضہ ہی غلط ہوا، لیکن بہرحال اگر کبھی ایسا ہوا تو اس وقت کے مسلمان جو کچھ کریں گے، اس کا جواب ابھی سے ہم کیوں دیں؟ ماضی کے لوگوں کو ماضی کا جواب دینے دیں، مستقبل کے لوگ اپنا جواب دے لیں گے، ہم لمحۂ موجود کی بات کیوں نہ کریں اور یہ کیوں نہ دیکھیں کہ اس وقت غلامی کی رائج شکلوں کے رواج میں ہمارا کتنہ حصہ ہے اور وہ حصہ کس حد تک ہمارے آزاد اختیار پر مبنی ہے؟

2۔ دوسرا دلچسپ ٹویسٹ یہ ہے کہ دا-عش ، یا کسی بھی گروہ، کی جانب سے کی گئی کسی بھی کارروائی کو “مسلمانوں کے موقف” کے طور پر کیوں دیکھا جائے جبکہ مسلمان ایک سیاسی وحدت کے طور پر باقی ہی نہیں رہے؟ کیا اسی قیاس پر گوانتانامو کی غلامی کےلیے پوری مغربی مسیحی/یہودی دنیا کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اگر مسلمان ایک سیاسی وحدت ہوتے، دا-عش کی خلافت موجود ہوتی، اور ایسے میں داعشی خلیفہ کی جانب سے ایسا کوئی اقدام ہوتا اور اسے مسلمانوں کے موقف کے طور پر دیکھا جاتا ، تو کوئی بات بھی تھی۔ سردست تو آپ زیادہ سے زیادہ یہ سوال اٹھاسکتے ہیں کہ دا-عش کا جن علاقوں پر اور جن لوگوں پر مؤثر کنٹرول رہا، کیا وہ علاقے اور وہ لوگ موجودہ عالمی بندوبست سے نکل سکتے ہیں؟ لیکن سوال یوں ہوتا تو جواب بھی پھر بہت سیدھا سادہ ہوتا نا کہ اگر وہ اس عالمی بندوبست سے نکل سکتے ہیں تو انھیں اس عالمی بندوبست میں کون جکڑےرکھ سکتا ہے؟ بہرحال ٹویسٹ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک اکائی فرض کرکے، ان کے حاشیے پر موجود ایک معمولی گروہ کے طرز عمل کو یہ معلوم کرنے کےلیے استعمال کیا جارہا ہے کہ مستقبل بعید میں، جب امام مہدی اور سیدنا مسیح کے نہ آنے کے باوجود مسلمان کسی وجہ سے عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے، تو یہ والا طرزعمل اختیار کرنے میں ان کےلیے شرعی مانع کیا ہوگا؟

Advertisements
julia rana solicitors

3۔ تیسرا ٹویسٹ یہ ہے کہ لمحۂ موجود کے نام نہاد اخلاقی اقدار کو مستقل اور غیرمتبدل فرض کرکے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ماضی میں خواہ غلامی کو برا نہ سمجھا جاتا رہا ہو لیکن اب جبکہ انسانیت اس کی برائی پر متفق ہوچکی ہے تو پھر مستقبل میں اگر کبھی مسلمانوں کو عالمی سیاسی غلبہ حاصل ہو، تو وہ یہ کام کیسے جائز تصور کرسکیں گے جسے آج انسانیت برا سمجھنے پر متفق ہوچکی ہے؟ سوال میں پنہاں سادگی اور قطعیت پر نظر کیجیےاور دیکھیے کہ کیسے لمحۂ موجود کے متعلق مفروضات پر قائم احساس کو موہوم مستقبل پر لاگو کرکے آج کے مسلمان کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے سوال کیا جارہا ہے؟
4۔ چوتھا ٹویسٹ، جو اس موضوع پر پچھلی ڈیڑھ صدی میں لکھے گئے لٹریچر کی عمومی خصوصیت ہے، یہ ہے کہ “غلامی” کو ایک جامد اور عالمی طور پر متفق علیہ یکساں تصور کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ مختلف ادوار میں، مختلف معاشروں میں، مختلف نظامہاے قوانین میں، غلامی کا عنوان مختلف نوعیت کی جکڑبندیوں کو دیا گیا ہے۔ اس انتہائی وسیع spectrum میں موجود مختلف shades کو “غلامی” کا ایک نام دے کر نہ صرف تنوع کی نفی کی جاتی ہے بلکہ بہت ہی زیادہ سادہ فکری، اور معاف کیجیے گا، سطحیت کی بنیاد پر انتہائی قطعی لہجے میں دو ٹوک موقف اپنایا جاتا ہے جو خطبوں، یا عذرخواہی، میں تو مفید ثابت ہوسکتا ہے، علمی اور عملی طور پر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر کیا جسے رومی قانون میں غلام کہا جاتا تھا، اسلامی قانون میں غلام کا وہی تصور تھا؟ کلاسیکی (اور چونکہ “کلاسیکی” کا لفظ آپ کو بہت مرغوب ہے، اس لیے یہاں استعمال کرنے کی جسارت کررہا ہوں) رومی قانون میں غلام کو “شخص” (person)کے بجاے “مال” (property)قرار دیا جاتا تھا۔ “شخصیت” (personality) کی نفی کے نتائج نفسیات میں نہیں، بلکہ قانون میں دیکھیں تو اس کا قانونی اثر یہ تھا کہ گائے، بھینس، زمین، لکڑی یا کسی بھی دوسری چیز کی طرح، جسے مال مانا جاتا تھا، غلام کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے تھے (خواہ عملاً ان کےلیے کچھ نہ مانا جاتا رہا ہو، لیکن قانون میں ان کے کوئی حقوق نہیں تھے)۔ قانونی حقوق کےلیے پہلے قانونی شخصیت کا ماننا لازم تھا اور وہ غلام کو میسر نہیں تھی۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بہت سے “قاری “فوراً کہہ اٹھیں گے کہ فقہاے کرام نے بھی تو غلام کو مال مانا ہوا ہے؛ جی ہاں، یقیناً مانا ہوا ہے لیکن صرف مال نہیں، شخص بھی؛ بلکہ پہلے شخص، پھر مال؛ اور اس وجہ سے اسلامی قانون میں غلامی کا تصور کلاسیکی رومی قانون کے غلامی کے تصور سے اپنی اساس اور جوہر میں ہی مختلف ہوجاتا ہے۔ شخص ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غلام کے کچھ حقوق ایسے تسلیم کیے گئے جن پر آقا کا اختیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں اور شریعت کے دیے گئے حقوق کو چھیننے کا اختیار آقا کے پاس، بلکہ ریاست کے پاس بھی، نہیں تھا۔ اسلامی قانون کے بعد کی دنیا میں غلامی کی مختلف نوعیتیں دنیا میں رائج رہی ہیں، اور اب بھی رائج ہیں، اور وہ بنیادی طور پر انھی دو قسموں میں تقسیم ہیں: “غلام بطور مال” یا “غلام بطور قانونی شخص اور مال”؟ اگر دوسری قسم ہے تو اس کے مختلف مدارج ہیں کہ کسی میں قانونی حقوق زیادہ ہیں اور کسی میں کم لیکن بہرحال کسی نہ کسی درجے میں “کسی کی ملکیت”میں بھی ہیں۔ اب ذرا گرد و پیش پر نظر ڈال کر دیکھیے کہ یہ دو قسمیں آج بھی رائج ہیں یا نہیں؟ بالکل ہی آخری سطح پر آکر دیکھیے کہ کیا بعض انسانوں کےلیے قانونی شخصیت کا انکار آج بھی ہورہا ہے یا نہیں؟ اگر ہورہا ہے تو پھر آج کے مسلمانوں کو ماضی کے مسلمانوں کے کیے گئے کاموں کی بنیاد پر کیوں ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے؟ آج کے انسانوں سے آج کے کرتوتوں کا کیوں نہ پوچھا جائے؟ لیکن نہیں، یہ سوال “مدرسہ ڈسکورسز” کے اہداف و مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس لیے اس کا نہ اٹھایا جانا ہی اوفق للمصلحہ ہے۔ و اللہ اعلم۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply