علم اور عقیدے کا ٹکراؤ/سعید ابراہیم

مسئلہ یہ نہیں کہ آپ کسی بات کو درست سمجھتے ہیں یا غلط، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا مؤقف علمی دلائل کی کسوٹی پر سچ ثابت ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر آپ اپنے مؤقف کو عقل، تجربے اور علم کی کسوٹی پر سچ ثابت کرکے نہیں دکھا سکتے تو آپ کو یہ حق تودیا جاسکتا ہے کہ آپ اس کے مطابق زندگی گزاریں مگر آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ آپ اسے دوسروں پر لاگو کرنے پر مُصر رہیں۔
بلاشبہ مذہبی ذہن مغربی دنیا میں بپا ہونے والی نشاَۃِ ثانیہ کے نتیجے میں فروغ پانے والے علم کے مقابلے میں مسلسل شکست خوردہ چلا آتا ہے۔ یہ معاملہ صرف زبانی یا لفظی دلائل کا نہیں بلکہ مغرب نے اپنے ان دلائل کو عمل میں بھی ٹرانسلیٹ کرکے ان کی حقانیت کو ثابت کردیا ہے۔ اب اپنے مؤقف کو درست اور مغربِ جدید کے مؤقف کو غلط ثابت نہ کرسکنے میں مسلسل ناکامی نے ہمارے مذہبی سکالرز کو محض لفاظی کا ماہر بناکر رکھ دیا ہے جبکہ وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کے مؤقف میں اتنی جان نہیں رہی کہ وہ انفرادی یا اجتماعی زندگی میں نتیجہ خیز ثابت ہوسکے۔ اس بات کو چھپانے کیلئے وہ جو طریقے اپناتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں:

اگرچہ ہمارے پاس اعلیٰ ترین الہامی علم موجود ہے مگر مذہب کو ماننے والے اس علم سے دور ہوچکے ہیں۔

اگر ہم لوگ دوبارہ اس علم سے وابستہ ہوجائیں تو ہم جدید ذہن کو شکست دے کر جملہ انسانوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔اور مغرب اب تک سائنسی ترقی کو جس عروج تک لے آیا ہے، اسے بھی مسلمان کرسکتے ہیں۔

اگرچہ ہم مسلمان (یہودی اور عیسائی نہیں) اعلیٰ ترین الہامی دانش کے وارث ہیں مگر دنیا کی کشش، جسے مغرب کی سائنسی ترقی نے بے حد بڑھا دیا ہے، ہمیں اس دانش کی جانب متوجہ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ سو اس کا یہی اوپائے ہے کہ ہم مغرب کو مکمل طور پر رد کرکے قرونِ اولیٰ والی زندگی اختیار کرلیں۔

یہ دنیا عارضی ہے، سو اس میں اگر ہم مغربی طاغوت کی منہ زوریلغار کی وجہ سے اجتماعی سطح پر مذہب کا نفاذ نہ بھی کرپائیں تو کم از کم ہمیں ذاتی سطح پر اپنے عقائد سے جڑے رہنا چاہئیے تاکہ ہم مرنے کے بعد جنت حاصل کرسکیں۔

مغرب اپنی تمام تر ظاہری کامیابیوں کے باوجود گمراہی کے گڑھے کی جانب بڑھ رہا ہے اور روزِ قیامت جہنم ہی اس کے لوگوں کا مقدر بنے گی، جبکہ اپنی جملہ ناکامیوں کے باوجود محض عقیدے سے جڑے رہنے کی بنا پر ہم خدا کی خوشنودی کے حق دار ٹھہریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ مذہبی سکالر ایسے بھی ہیں جو مغربی علوم کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، جیسے کہ پرویز اور غامدی، بلکہ وہاں فروغ پانے والی بہت سی اقدار کو اسلام کے عین مطابق ثابت کرتے رہتے ہیں جبکہ اپنے مذہب میں موجود انتہائی آرتھوڈاکس تصورات کو بھی جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اب اسلام کا حقیقی فروغ مغرب میں ہی انجام پائے گا اور ہم اللہ کے قانون کے عین مطابق اس منصب سے معزول ہوچکے ہیں۔
کچھ ایسے بھی ہیں جن کا مشغلہ مناظرہ بازی ہے جیسے کہ ڈاکر نائیک جو کہ چرب زبانی اور چنیدہ آیات کے من چاہے مفہوم اور تشریح سے اسلام کے مقابلے میں دوسرے ادیان کو غلط ثابت کرتے رہتے ہیں۔ ایک جانب تو ان کے نزدیک مغربی علوم جو سائنسی سوچ سے مشروط ہیں، سراسر گمراہی کا باعث ہیں جبکہ وہ ان کے سائنسی انکشافات کو عین قرآن کے مطابق ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ لیکچر بازی ایسے عوامی مجمعوں میں کی جاتی ہے جنھیں سائنس اور جدید علوم کی الف بے کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات محض عوام کی نفسیاتی تسلی کا سامان کرکے ان سے داد اور فنڈز وصول کررہے ہوتے ہیں۔
ہم نے درج بالانکات میںجتنے بھی مؤقف پیش کیے ، یہ محض لفاظی اور زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اپنے پیروکاروں کو حقائق سے آشنا کرنے کی بجائے انہیں جھوٹی تسلی دیے رکھیں اور اس کے بدلے میں وہ انھیں زندگی کی جملہ آسائشیں مفت فراہم کرتے رہیں۔
بات کو آگے بڑھانےسے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم کی قدرے حقیقی تعریف کا تعین کرلیں۔ علم بنیادی طور پر کسی مظہر سے وابستہ حیرت کو ڈی کوڈ کرکے اُسے انسانی تصرف میں لانے کا نام ہے اور ایسا صرف سائنسی اپروچ سے ہی ممکن ہے کہ یہ تجزیےاور تجربے کے اصول پر کام کرتی ہے اور یوں غلط اور درست فہم کو واضح انداز میں الگ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر فہم میں کوئی کجی یا کمی رہ جائے تو اپنے مزید تجربے اور تجزیے کی مدد سے اس کجی اور کمی کو دور کرتی چلی جاتی ہے۔ سائنسی اپروچ کبھی یہ ضد نہیں کرتی کہ اس کا منکشف یا دریافت کردہ علم حتمی ہے بلکہ وہ مسلسل یہ دعوت دیتی رہتی ہے کہ اگر کوئی اس علم میں خامی کی نشاندہی کرسکے تو ضرور کرے تاکہ اس خامی کو دور کر کرکے علم کو مزید بہتر اور یقینی بنایا جاسکے۔
سائنسی اپروچ ہمیشہ تشکیک کے اصول پر کام کرتی ہے، جس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی شے یا مظہر کو پرکھے ، جانے اور سمجھے بغیر اس کے متعلق کیے گئے کسی دعوے کو درست نہ مانا جائے۔ کیونکہ کسی شے یا مظہر کو سمجھنے کے پراسیس سے گزرے بغیر جاننے کا دعویٰ کرنا ہی غیر علمی بات ہوگی۔
غور کریں تو مذہبی ذہن سائنسی اپروچ سے الرجک ہے کہ وہ اس کسوٹی پر غیب کے دائرے میں بند اپنے مابعدالطبیاتی تصورات کو کسی بھی صورت حقیقت ثابت نہیں کرسکتا۔سو اس کی یہی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کو کسی بھی طرح محض سدھائے ہوئے جانداروں میں بدل دیا جائے۔ اس مقصد کیلئے عقیدت کا ہتھیار خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مذہبی ڈومین ہے جس میں آزاد فکری کے برعکس کسی مافوق الفطرت ہستی کی بندگی اور غلامی کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ اب یہ ممکن ہی نہیں کہ بندگی یا غلامی کا خوگر ذہن کا فکر کے کسی ایسے دائرے میں داخل ہوسکے جو اس کی خدا ئی احکامات سے طے ہوچکی سوچ سے مختلف ہو، بلکہ وہ ایسی صورت میں فوراً اسے کوئی شیطانی خیال سمجھ کر لاحول پڑھتے ہوئے اپنے محدود روائتی دائرے میں سمٹ جائے گا۔
مذہبی ذہن عقل سے بھی الرجک ہے جبکہ وہ اسے محض اس لیے استعمال کرنے پر مجبور ہے کہ اس کے عقائد کے مخالف اس ہتھیار کی مدد سے نہ صرف ایک بہتر زندگی کے حصول میں کامیاب ہیں بلکہ وہ اسی ہتھیار کے ذریعے مذہبی عقائد کا تجزیہ کرکے ان کی بنیاد کا کھوکھلہ پن واضح کررہے ہوتے ہیں۔ سائنسی اپروچ کے حامل فرد کے نزدیک علمی دلائل اور تجربے کے پراسیس سے گزارے بنا کسی بھی دعوے کو حقیقت مان لینا ایک غیرعلمی حرکت سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس مذہبی ذہن جن باتوں کو بنا غور و فکر کے حقیقت کا درجہ دے چکا ہوتا ہے، وہ عقلی دلائل کا استعمال صرف اس مجبوری اورنیت سے کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس غیرثابت شدہ دعوے کو حقیقت ثابت کردے۔ یہ اپنی ذات میں عقل کا عقل کے خلاف بلکہ عقل کا گمراہ کن استعمال کہلائے گا۔ گویا یہ اپروچ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں مذہبی ذہن گول گول گھومتا ضرور ہے مگر اس کا سفر صفر ہی رہتا ہے۔
احمد جاوید جیسے مذہبی سکالر عقل، فلسفے اور سائنسی علم کی ناگزیر حیثیت اور اہمیت سے خوب واقف ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ جو فرد بھی اس ڈومین میں داخل ہوگا، وہ لامحالہ اپنی پہلے سے بنی مذہبی سوچ کو تشکیک کی نظر سے دیکھنا شروع کردے گا اور بالآخر اسے ترک کرنے پر مائل ہوتا چلا جائے گا۔ سو یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ بچے کے ذہن میںسوچنے سمجھنے کی عمر سے پہلے ہی مذہبی عقائد کو راسخ کردیا جائے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علمی انکشافات کے اس دور میں یہ سدھایا ہوا ذہن ہی مذہب کو بچانے کا واحد ذریعہ رہ گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے وہ یہ منصوبہ پیش کرتے ہیں کہ تعلیم کو دسویں جماعت تک دینی ہونا چاہئیے۔ یعنی ہمیں میٹرک تک بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کردینی چاہئیے کہ مذہب واحد سچائی ہے اور وہی بات درست ہے جسے مذہب درست کہتا ہو۔ گویا ان کے نزدیک مذہب کو بچانے کا وحد راستہ یہ ہے کہ نئی نسل میں تنقیدی شعور کو ممکنہ حد تک پنپنے سے روک دیاجائے۔
اپنے بہت سے لیکچرز میں وہ کئی مقامات پر علم کو بڑے احسن انداز میں ڈیفائن کرتے ہیں مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ جو غیب ان کے عقیدے کا بنیادی پتھر ہے وہ اس تعریف کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو وہ بظاہر چالاکی مگر بڑے ہی خام دلائل کے ساتھ اس تعریف کا راستہ موڑ دیا کرتے ہیں۔ جیسے کہ ان کا یہ مؤقف کہ کسی بھی شے کی پہچان یا ماہیت کا غلط ادراک ہرگز کوئی غیرعلمی بات نہیں بلکہ عین علم ہے ،بس شرط اتنی ہے کہ اس شے کو خدا کی تخلیق یا نشانی مان لیا جائے۔ اس کی مثال وہ یوں دیتے ہیں کہ اگر آپ نے لیپ ٹاپ کو موبائل سمجھ لیا ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں بلکہ اصل خوبی یہ ہے کہ آپ نے اسے اللہ کی نشانی سمجھا۔گویا خدا ایسی ہستی ہے جسے عقل کو معطل کرکے ماننے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
ان کا مؤقف یہ ہے کہ اکتسابی علم کے ذریعے منکشف ہونے اور حتیٰ کہ ثابت ہوجانے والی حقیقت بھی اگر ایمانی ہدائت یا عقیدے سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اسے بلا تردد رَدّ کردینا چاہئیے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر دنیا کے بارے میں ہمارا علم بالکل غلط بھی ہو مگر ہمارا ایمان سے مشروط شعور اسے درست کہتا ہو توہمیں اس غلط کو ہی ٹھیک ماننا ہوگا۔ اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ اگر سائنس ماں کی کوکھ میں بچے کی جنس جان بھی لے تو ایمانی شعور کے مطابق ہم خدا کے اس بیان پر ہی مُصر رہیں گے کہ خدا کے سوا کبھی کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی۔
اس بات کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں نکلتا کہ بھلے آپ زندگی کے لیے قدم قدم پر درکار علم سے بالکل نابلد ہوں ، آپ کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ جہاں کوئی فطری مظہر دیکھیں یا پھرانسانوں کی تخلیق کردہ کوئی شے یا سہولت تصرف میں آئے، اللہ اکبر یا سبحان اللہ کا نعرہ بلند کرکے مطمئن ہوجائیں ۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ اس نظریہء علم کو انسان کے لیے عظیم نعمت بھی گردانتے ہیں۔
ہم نے جو باتیں احمدجاوید کے مؤقف کے باب میں عرض کیں، وہ ایک عقیدہ پرست ذہن کے اس مخمصے کو ظاہر کرتی ہیں کہ عقل کو عقل سے کیسے رَدّ کیا جائے تاکہ وہ اس کے غیر عقلی تصورات کو چیلنج کرنے سے باز آجائے۔ مگر اے بسا آرزو کی خاک شوَد۔
سعید ابراہیم

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”علم اور عقیدے کا ٹکراؤ/سعید ابراہیم

  1. دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

Leave a Reply