تباہی کا ایجنڈہ /اظہر سید

سامری جادو گر بھی معیشت ٹھیک نہیں کر سکتا ۔جنہوں نے امریکی ایما پر سی پیک کا راستہ روکنا تھا کامیابی سے روک لیا ۔ٹیک آف کرتی معیشت کو زمین پر اتار لیا ۔چھ سال کے دوران ہدف حاصل کر لیا تو سوغات کو نوسر باز قرار دے کر غیر جانبدار بن گئے ۔تحریک عدم اعتماد میں عدم مداخلت کر کے اپنے تئیں تمام گناہ بخشوا لئے ,”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ” صرف درجن بھر لوگ تھے جنہوں نے بھر پور ریاستی وسائل استمال کئے اور صرف پاک چین تعلقات ہی برباد نہیں کئے بائیس کروڑ لوگوں کی ایٹمی ریاست کو بھی بھکاری بنا دیا۔

اب شادیوں میں شرکت کرتے ہیں ۔گفتگو کرتے ہیں اور گھروں میں جا کر “سیاستدان چور ہیں”کی گردان کرتے ہیں۔
اب آڈیو ویڈیو کا کھیل کھیل کر نوسر باز کو بدنام کرتے ہیں لیکن اس قدر غلیظ کردار لوگ ہیں آڈیو ویڈیو سالوں سے موجود تھیں ۔سب پتہ تھا نوسر باز کے پلے کچھ نہیں صرف عورتوں کا رسیا ہے پھر بھی چیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنا کر اسے کامیاب کراتے رہے۔

معیشت برباد ہو رہی تھی لیکن بجٹ منظور کراتے رہے ۔جب ادائیگیوں کی سکت ختم ہو گئی نیک بن کر ،نوسر باز پر الزامات لگا کر نیویں نیویں ہو کر نکل لئے ۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا۔اب کوئی بڑی سرمایہ کاری ممکن نہیں رہی ۔کشمیر اور فوج کے محافظ کا روپ دھارے کردار فوج کو بھی چوک میں کھڑا کر گئے ہیں، کشمیر کا مکو بھی ٹھپ گئے ہیں اور بونس میں ملک بھی دیوالیہ کروا گئے ہیں۔

ایم آئی سکس کے ایجنٹ لندن کے سرمایہ کار اور سی آئی اے ایجنٹ سنتھا رچی کو اعلیٰ  سکیورٹی اہلکاروں تک رسائی دینے والے عظیم محب وطن ہیں۔
ادائیگیوں کی سکت ختم ہونے پر پہلے دفاعی بجٹ اور پھر ایٹمی پروگرام پر عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط آئیں گی تب بھی ان سے سوال ممکن نہیں ہونگے ۔
عدلیہ کو شاہی بازار کی بیسوا بنانے والے ثاقب نثار ایسوں کو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا جب سول وار کے آثار پیدا ہونے لگیں گے ۔
پیداواری لاگت اس قدر زیادہ ہے برآمدات میں اضافہ ممکن ہی نہیں۔ بدعنوانی،کرپشن اور بے یقینی کا یہ عالم ہے صنعتی عمل کے ذریعے معاشی استحکام ممکن ہی نہیں۔
سعودی عرب اور قطر نے چار پانچ ارب ڈالر دے بھی دئے تو ادائیگیاں مسلسل ہیں تین چھ ماہ بعد پھر اسی جگہ پر کھڑے ہونگے ۔

اب کالم نگاروں کو آف دی ریکارڈ بریفننگ دیتے ہیں شاہد خاقان عباسی نے قطر سے بہترین ڈیل کی تھی جیسے نوسر باز نے برباد کر دیا ۔جب شاہد خاقان عباسی کو ایک این جی کیس میں گرفتار کیا گیا اور تفتیش کے نام پر توہین کی جاتی تھی اس وقت منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔

جب حصص بازار میں 14  فیصد پر بانڈ جاری کئے گئے تھے اور یار لوگ دو فیصد پر پیسے لے کر یہاں12،14 فیصد پر کم مدتی سرمایہ کاری کر رہے تھے کسی کی حب الوطنی نہیں جاگی۔جب ڈیزل سے مہنگی بجلی بنائی جا رہی تھی اور گردشی قرضے کا پہاڑ کھڑا کیا جا رہا تھا ۔جب روپیہ کی قدر برآمدات میں اضافہ کے نام پر مسلسل گرائی جا رہی تھی اسوقت نواز شریف اور زرداری کو فکس کیا جا رہا تھا ۔اب جب ملک ڈوب گیا ہے نیک بن کر ریٹائرمنٹ انجوائے کر رہے ہیں۔ افراتفری ہوئی بیرون ملک بھاگ جائیں گے ۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت پورا مغربی پاکستان موجود تھا اب جو خوف دروازوں پر دستک دے رہا ہے یہ ایک بڑا اور تباہ کن سونامی بننے کے تمام تر امکانات رکھتا ہے ۔
حافظ صاحب کو جو فوج ،عدلیہ اور ملک ملا ہے پتہ نہیں انہیں نیند بھی آتی ہو گی کہ نہیں ۔ریکو ڈیک،سی پیک، کارکے اور دیگر سرمایہ کاروں کے ساتھ پالتو ججوں کو ہلا شیری دے کر جو کچھ کیا ہے اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا ۔

صرف مستحکم طاقتور حکومت کو کم از کم پانچ سے دس سال ملیں تو ممکن ہے بچ نکلنے کے امکانات پیدا ہو جائیں۔ جس ملک میں عدالتیں متبادل حکومت بن جائیں ،جس ملک میں سوشل میڈیا کی ففتھ جنریشن وار کی فوجیں جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ جاری رکھیں وہاں معیشت بحال ہو سکتی ہے نہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ڈی ڈے کا انتظار کریں اور بس ۔اسحاق ڈار ایک ہے اس کے ساتھ گیارہ اور اسحاق ڈار کھڑے کر دیں پھر بھی برآمدات میں اضافہ،ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی بحالی،گردشی قرضے کی واپسی ،صنعتی عمل کی بحالی کچھ بھی ممکن نہیں ۔اس ملک کو بچانا ہے ، عوام کو محفوظ زندگی دینا ہے تو مہذب دنیا کے راستے پر چلنا ہو گا ۔
ججوں کو صرف اور صرف آئین اور قانون پر چلنا ہو گا۔
مالکوں کو بیرکس میں واپس جانا ہو گا بالکل اسی طرح جس طرح امریکی اور برطانوی افواج اپنی ریاستوں کے آئین اور قانون کی پابند ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply