نیو اورلینز- لوزیانہ – امریکہ/ناصر خان ناصر

اپنے تعارف لکھنے کی فرمائش پر گنگ ہیں۔۔ کیا لکھیں؟
اوشدھاہ پر، جہاں سدھ مکر دھوج خریدنے کے لیے بھیڑ لگی تھی، ہم بھی حرفوں کی حرفت کا بیوپار کرنے نکل پڑے ہیں،مگر کیسہ بھی کھوپڑی کی طرح خالی۔۔ پلپلا بھیجا بجھبجھا۔۔ اوب سا جاتا ہے۔ بھبھاس ہی بھبھاس،پیاس ہی پیاس۔

زندگی کے چاندنی چوک پہ لوگوں کے ٹھٹھ۔۔ بھانت بھانت کی بولیاں، طرح بہ طرح کے لوگ، ہمیں تو خیر خود اپنی شناخت نہ تھی،کرخت، سخت، بےبخت اور لخت لخت حرفوں کے بنے جبے پہنے حرافہ صورت، ہنگام صفت ہجوم میں خریدار کہاں؟
مندروں، مسجدوں، شوالوں، کلیساؤں، سینی گاگوں، تیرتھوں،درگاہوں، آستانوں اور استھانوں میں یہی حروف تقدس کے بہروپ بدلے ہاٹ کیک کی طرح بکتے تھے۔ سارا مجمع وہیں ٹوٹا۔

حد بے حد، شہر خموشاں، شمشان بھومی، قبرستان، مرگھٹ،باغ ارم، جمگھٹے یہاں بھی تھے۔ قطار در قطار۔ صف در صف، کتبے ہی کتبے۔ خاموش لائبریریوں میں دھول سے اٹی الماریوں میں بند پڑی خاموش کتابوں کی مانند ۔ مردہ پرست قوم ہر نئے فرد کے یہاں آتے ہی دھمالیں ڈال دیتی ہے ۔ زندگی بھر ایسی بے حسی کہ کوئی احوال تک نہیں پوچھتا، دم نکلتے ہی انھیں پیغمبر سخن، پیامبر امن، علم کی دیوی، سرسوتی کا اوتار، ادب کے شہنشاہ  اور کیا نہ کچھ بنا دیا جاتا ہے۔ ایسی تلکی ملکی مچ جاتی ہے کہ سچ مچ من چاہنے لگے کہ کل کے مرتے ہم بھی آج کیوں نہ مر گئے،اتنی عزت۔۔ اتنی شہرت۔

اس مارگ پر  اس پتھ پر، اس انجان راستے کی دھول پر صدیوں میں کہیں جا کر قدموں کے نشان پڑتے ہیں۔ یہ دھول پٹی پگڈنڈیاں نرگس کے بیمار پھولوں کی طرح نظریں جھکائے راہ تکتی رہتی ہیں۔
شردھآنجلی،سچی کلا، جو اوشک ہے ۔ بدھ شرنم کچھانی، حرف جو خدا ہے، جو مقدس بائبل کا پہلا کلمہ ہے،جو اسم اعظم ہے، حج اکبر کی تلبیہ، قشقہ کھینچے تلک دھارن،تلسی پھول،خاک شفا۔۔۔آب حیات،دیوتاوں اور اسوروں کے مشترکہ کسر ساگر متھن سے لایا گیا امرت،چودہ رتن، من نشچت کر دینے والا چنتی منی ہیرا، درخت حکمت پارجت یا کلپ برکش کے پتے۔
تانا بانا سوت پرانا۔۔
ان حرفوں کے خریدار کہاں سے لائیں؟
اپنی آپ بیتی کیا کہیں؟۔

شانتا رام اور ستہ جیت رائے کی فلموں میں بھی شاید اتنے ڈرامائی موڑ نہ ہوں جتنے ہماری زندگی کی کہانی میں آئے۔ غربت، افلاس، امیری، تونگری، توکل، صبر اور صبر کا پھل، کیا کچھ ہم نے نہیں چکھا۔ اس کی رحمت کے سائے کتنے دراز ہیں جو کسی کی جھولی خالی نہیں رکھتا۔ہم نے اس خدا سے باتیں کی ہیں اور اس کا جواب سنا اور قبول کیا ہے۔

اپنے تعارف میں بچپن کی باتیں کی جاتی ہیں، اجداد کی عظمتیں، جوانی کے قصے جو نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کی روایت ہے۔ پٹاری میں رکھنے کے قابل اور ناخنوں میں لکھ رکھنے والی تضیع اوقات باتیں گھاتیں۔ تلچھوں ملچھوں کیا کرنا؟۔ ان ٹنٹوں کا کسے دماغ ہے؟۔ تلسی کا پتہ، کون چھوٹا کون بڑا۔
حالات زندگی؟ تتڑی نے دیا، جنم جلی نے کھایا، نہ جیب جلی، نہ سواد آیا۔ حرفوں کے بنے تلا دان میں تلاٹے اپرائے کرتے لفظوں سے کھیلتے ٹلے نویسی پر کیسا اترانا؟تین پیڑ بکائن کے، میاں باغ میں  تیل نہ مٹھائی، چولہے دھری کڑھائی۔

اگرچہ جو لکھا دل جوڑ کر، من توڑ کر لکھا مگر ادب کی منڈی میں گھمسان کا رن پڑا ہے مگر وہی نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟۔
” تل تل بھر دھن جوڑے ساسو، بہو کے ٹھاوٹ جھڑے نہ آنسو”۔

زندگی کا فسانہ بیان کرتے اودھ پنچ والے مرزا مچھو بیگ ستم ظریف یا میر باقر علی داستان گو دلی والے کی طرح قصہ کوتاہ یوں کرتے ہیں کہ عمر بھر طرح بہ طرح کے پاپڑ ہی بیلے، راہ میں پڑتی ہر چوٹی کو سرنگوں کیا۔اگرچہ چوٹی سے مراد کوئی “حسینہ پر مسکان،خوش گمان، شعلہ زبان، آشفتہ کمان اور آزار جان مہربان” نہیں ہے کہ ان کے حربہ حرفت و حرمت ،حسن حسرت، گرمیءقربت سے شکست فاش پا کر گھائل و قائل ہونا ہی شیوہ دانشمندان وطن رہا اور اساتذہ وقت کا اوائل عمر سے پڑھایا سبق کون کافر بھول سکتا ہے؟ ۔ اگرچہ بیٹھی ہوئی ایڑی والے گھسے پٹے پرانے جوتے ہی سب سے زیادہ آرام دہ لگتے ہیں۔ خصوصا”ًزندگی کی شام ڈھلے، جھٹ پٹے کے وقت(بیگم کی قابل دید مونا لیزا مسکراہٹ کا تصور)

آج تک ہم سے ریاضی کا یہ سوال حل نہ ہوا کہ پندرہ برس سکولوں اور یونیورسٹیوں کے لائق فائق بچوں کو ہم نے حساب دانی زیادہ سکھائی  یا ان سے جینے کا قرینہ خود زیادہ سیکھا؟۔
بقول پنڈت برج نرائن چکبست مرحوم
چمن زار محبت میں اسی نے باغ بانی کی
کہ جس نے اپنی محنت ہی کو محنت کا ثمر جانا
مدھ پتھ کی راہ متوسط ہم نے بھگت کبیر سے سیکھی ۔
پایا کہیں تے باورے ، کھویا کہیں تے کور
پایا کھویا کچھ نہیں جیوں کا تیوں بھرپور۔
ہمارا جو تعارف بزم یاران اردو ادب کے حالیہ ایونٹ میں کروایا گیا۔ وہی پیش خدمت ہے۔
مہمانِ خصوصی : ناصر خان ناصر
انتظامیہ “بزم یاران اردو ادب” “عالمی بزم افسانہ” میں بطور مہمان خصوصی”ناصر خان ناصر صاحب ” کا خیر مقدم کرتی ہے۔
تعارف:
نام: ناصر خان ناصر
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بیالوجی میں ماسٹرز کیا۔مسی سپی سٹیٹ یونثورسٹی سے پیڑولیم انجینئرنگ کی ڈگری لی۔مشہور عالم ٹیولین یونیورسٹی نیو اورلینز سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔
انہوں نے پانچ برس تک امریکہ کے تین مختلف شہروں کے بڑے اردو اخباروں میں کالم لکھے ہیں۔ کالموں کی تین مندرجہ ذیل کتابیں چھپ چکی ہیں۔
1۔ آئینہ ذرا دیکھ
2۔آئینہ خانہ دہر
3۔ دیوار کے اس پار
افسانوں کی دو اور شاعری کی ایک کتاب زیر طبع ہے۔

شہر نیو اورلنیز کی حکومت نے دو مختلف مرتبہ سال کے”بہترین شہری” کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ پچھلے 25 برس سے پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن نیو اورلنیز کے جنرل سیکرٹری ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کے لئے لاتعداد فنگشن کروا چکے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے بہت سے نامور شعرا، ادیبوں،اداکاروں، قوالوں،گلوکاروں اور آرٹسٹوں کو یہاں مدعو کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ایشین کلچرل سوسائٹی سمیت لاتعداد چیرٹی تنظیموں کے فعال ممبر ہیں۔ بطور پیشہ پیڑولیم انجینئر ہیں اور اسکے علاوہ مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
امریکہ میں مقیم، پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعر، افسانہ نگار، نثر نگار، صحافی، معلم، ایک اچھے انسان اور بہت اچھے دوست جناب ناصر خان ناصر کو ہم بزم یاران اردو ادب کے زیر اہتمام ہونے والے اس افسانہ ایونٹ میں بطور مہمان خصوصی خوش آمدید کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناصر صاحب کے متعلق ایک دوست خرم بقاء کا کہنا ہے کہ” محاورات، تشبیہات، متروکات ادب کا جیسا نادر اور خوبصورت استعمال ناصر صاحب کی تحریروں میں نظر آتا ہے وہ کم ازکم مجھے اپنے قلیل مطالعے میں نظر نہیں آیا۔ پڑھتے جائیے، سر دھنتے جائیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply