پاکستان میں اردو نثری نظم (۱۹۴۷ تا حال) پر ایک نوٹ/حمزہ یعقوب

ادب کی کسی صنف کے نمایاں تخلیق کاروں کی تخلیقات سے انتخاب جمع کر کے شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں، بالخصوص اس وقت جب آپ اپنے انتخاب کے ٹائٹل پر یہ دعویٰ کر رہے ہوں کہ یہ محض انتخاب نہیں بلکہ تحقیق و ترتیب و تجزیے پر مشتمل ایک اہم دستاویز ہے۔ کچھ روز قبل اکادمی ادبیات پاکستانی کی طرف سے شائع ہونے والے انتخاب’’پاکستان میں اردو نثری نظم (۱۹۴۷ تا حال)‘‘ کی اطلاع ملی تو عزیز دوست قاسم یعقوب کو زحمت دی کہ ایک کاپی میرے پتے پر روانہ کر دیں ، توقع تھی کہ اکادمی ادبیات کی جانب سے بسلسلہ ڈائمنڈ جوبلی پاکستان یہ انتخاب سامنے آیا ہے تو ضرور کوئی معیاری کام ہو گا۔ کتاب موصول ہوئی تو ساری مصروفیات بالائے طاق رکھ دیں اور دلجمعی سے کتاب کا مطالعہ شروع کیا۔ میری عادت ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے نوٹس بناتا جاتا ہوں تاکہ بعد میں کتاب پر رائے دیتے ہوئے سہولت ہو۔ اس کتاب کے حوالے سے میں چند سوالات اٹھانا چاہتا ہوں اور کچھ باتیں دیگر قارئین، مدون اور پبلشر کے گوش گزار بھی کرنا چاہتا ہوں:

۱۔ دنیا کی کسی بھی زبان میں شائع ہونے والے معیاری انتخاب کو اٹھا لیجیے، اس کے دیباچے میں مدون نے وضاحت کی ہوتی ہے کہ اس انتخاب میں شامل کیے جانے والے تخلیق کاروں کو کس معیار کے تحت شامل کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص جب کوئی ایسی کتاب ترتیب دی جائے جس کا دعویٰ ہو کہ فلاں سن (مثلاً۱۹۴۷ء) سے تا حال تک اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والے تخلیق کاروں کو شامل کیا گیا ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس انتخاب کے مدون نے جو معیار قائم کیا ہے ، اس کی کوئی مفصل واضح وضاحت نہیں کی، صرف دو سطروں میں ایک مبہم سا بیان دیا گیا ہے۔ مدون کے الفاظ دیکھیے:
’’یہ انتخاب مرتب کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس مجموعے میں انھی شاعروں کو جگہ دی جائے جن کی شناخت نثری نظم ہے یا جنھوں نے غزل گو ہونے یا پابند/آزاد نظم کہنے کے باوجود، پوری سنجیدگی کے ساتھ نثری نظم کو اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۲۷)

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان شعراء کو جگہ دی جائے جن کی شناخت نثری نظم ہے لیکن دوسرا معیار جو انہوں نے قائم کیا ہے کہ ’’پوری سنجیدگی کے ساتھ نثری نظم کا اظہار کا وسیلہ بنایا ہے‘‘ تو اس ’’پوری سنجیدگی‘‘ کو جانچنے کا کیا پیمانہ ہوگا، یوں تو بیشمار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نثری نظم میں بھی طبع آزمائی کی لیکن وہ اس کتاب کا حصہ نہیں ہیں تو آخری ’’پوری سنجیدگی ‘ ‘ کی وہ کیا تعریف ہے جس کی بناء پر بہت سے شعراء کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے اور بہت سے شعراء کو حذف کیا گیا ہے۔
اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ’’پوری سنجیدگی‘‘ سے مراد ہے کم سے کم نثری نظم کی ایک کتاب تخلیق کار نے اردو ادب کو دی ہو تو بھی انعام ندیم کا ترتیب دیا ہوا یہ انتخاب اس تعریف پر پورا نہیں اترتا کیونکہ بہت سے شاعر ایسے ہیں جن کی یا تو نثری نظموں کی کوئی کتاب نہیں بلکہ مختلف انتخاب اور رسالوں میں کچھ نثری نظمیں شائع ہوتی رہیں یا بہت سے ایسے شاعر بھی ہیں جن کے شعری مجموعوں میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نثری نظمیں شامل کی گئی ہیں ۔ مثال کے طور پر صلاح الدین محمود کی جو نظمیں اس انتخاب میں شامل کی گئی ہیں ان کے بارے میں مدون کی رائے ملاحظہ کیجیے:
’’یہ نظمیں انیس ناگی کی مرتب کردہ ’نثری نظمیں‘ اور سویرا کے شمارہ ۴۱ سے لی گئی ہیں‘‘ (صفحہ ۷۱)
اسی طرح قمر جمیل کا شعری مجموعہ ’’ چہار خواب‘ ‘ جس سے ان کی نثری نظموں کا انتخاب کیا گیا ہے، اس میں آدھی غزلیں بھی شامل ہیں۔ اس صورت میں مدون کو چاہئیے تھا کہ ’’پوری سنجیدگی‘‘ کی وضاحت ضرور کرتے تاکہ قاری کسی ابہام میں نہ رہتا کہ فلاں فلاں شاعر کوشامل کرنے اور فلاں فلاں شاعر کو شامل نہ کرنے کی یہ وجہ ہے۔

۲۔ اس انتخاب میں کسی شاعر کی سات نظمیں شامل کی گئی ہیں( مثلاً مبارک احمد ص ۳۱ تا ۳۸)، کسی شاعر کی پانچ نظمیں شامل کی گئی ہیں ( مثلاً رئیس فروغ ص ۴۱ تا ۴۵) اور کسی شاعر کی چار نظمیں شامل کی گئی ہیں (مثلاًجمیل الرحمٰن ص ۳۰۶ تا ۳۱۲)۔کسی شاعر کی کم نظمیں کیوں شامل کی گئی ہیں اور کسی شاعر کی زیادہ نظمیں کیوں شامل کی گئی ہیں، اس ترتیب کی بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ کیا جن شعراء نے نثری نظم کی ترویج میں زیادہ خدمات ادا کیں، ان کی زیادہ نظمیں شائع کی گئیں اور جن کی خدمات مدون کو کم محسوس ہوئیں ، ان کی کم نظمیں شامل کی گئیں، اس بارے میں کتاب کا متن تو کم سے کم کوئی معقول جواب دینے سے قاصر ہے۔

۳۔ یہ کتاب پہلے ہی انتخاب پر مشتمل ہے ، کسی بھی شاعر کی بمشکل ۴ سے ۷ نظمیں اس کتاب میں شامل ہیں تو کم سے کم جو نظم شامل کی جا رہی ہے وہ پوری تو ہو، اگر کتاب کی طوالت بڑھنے کا خدشہ درپیش تھا تو کوئی مختصر نظم شامل کی جا سکتی تھی۔ آدھی نظم/نظم سے کچھ اقتباس کا انتخاب کر کے اسے کسی انتخاب کا حصہ بنانا بہت عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔مثال کے طور پر صلاح الدین محمود کی نظم ’’قصہ شجرِ اسیر‘‘ مدون کے بقول بہت طویل تھی چنانچہ انہوں نے اس نظم کے کچھ اقتباس بطور انتخاب اس کتاب میں شامل کر لیے ہیں (ص۷۷ تا ۷۹)، نہیں معلوم کہ اس انتخاب کی کیا وجہ ہے، کیا شاعر کی کوئی اور نظم میسر نہیں تھی یا نظم کے ان اقتباسات میں کوئی ایسی خاص بات تھی کہ مدون نے صرف انہی کو انتخاب کا حصہ بنانا ضروری سمجھا، دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت ہو، مدون کو اس معاملے کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔

۴۔نثری نظم کے معاملے میں یہ رائے دی جاتی ہے کہ اس کی کوئی خاص ہئیت نہیں ہوتی لیکن یہ خاص ہئیت نہ ہونے کی سہولت صرف شاعر کے لیے ہوتی ہے، مدونین یا محققین کے لیے نہیں ہوتی۔ نثری نظم کا بھی ایک اپنا خاص آہنگ ہوتا ہے جو جملوں کی ترتیب اور گیپ سے بنتا ہے۔ اس کتاب میں اس امر کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا، کتاب میں نظم کسی اور ہئیت میں لکھی ہوئی ہے اور اس انتخاب میں اسے کسی اور ہئیت میں لکھا گیا ہے۔ کہیں دو جملے ملا دیے گئے ہیں، کہیں ایک جملے کو آدھا کر دیا گیا ہے مثال کے طور پرقمر جمیل کی نظم ’’ پہاڑی کی آخری شام‘‘ دیکھیے ۔ پہلے میں قمر جمیل کی کتاب سے یہ نظم ٹائپ کر رہا ہوں:
پہاڑی کی آخری شام
ایشیا کی اس ویران پہاڑی پر
موت ایک خانہ بدوش لڑکی کی طرح
گھوم رہی ہے
میری روشنی اور انار کے درختوں میں
قزاقوں کے چاقو چمکتے ہیں
اور سر پر وہ چاند ہے
جو اس پہاڑی کا پہلا پیغمبر ہے
اس پہاڑی پر فاطمہ رہتی ہے
اس کے کپڑوں میں وہ کبوتر ہیں
جو کبھی اڑنہیں سکتے
خدا نے ہمیں ایک غار میں
بند کردیا ہےا ور ہمارے سروں پر
سیاہ رات جیسا پتھر رکھ دیا ہے (ص۱۲۵، چہار خواب دوسرا ایڈیشن ، شہرزاد ، کراچی)

اب یہی نظم انعام ندیم کے مرتبہ انتخاب سے ٹائپ کر رہا ہوں:
پہاڑی کی آخری شام
ایشیا کی اس ویران پہاڑی پر
موت ایک خانہ بدوش لڑکی کی طرح
گھوم رہی ہے
میری روشنی
اور انار کے درختوں میں
قزاقوں کے چاقو چمکتے ہیں
اور سر پر وہ چاند ہے جو اس پہاڑی کا پہلا پیغمبر ہے
اس پہاڑی پر فاطمہ رہتی ہے
اس کے کپڑوں میں وہ کبوتر ہیں
جو کبھی اڑنہیں سکتے
خدا نے ہمیں ایک غار میں
بند کر دیا ہے اور ہمارے سرو ں پر
سیاہ رات جیسا پتھر رکھ دیا ہے ! ( ۵۰)

اس نظم میں دو جگہوں پر جملوں کی ترتیب بگاڑ دی گئی ہے۔ پہلے’’ میری روشنی اور انارکے درختوں میں‘‘ کو دو حصوں میں ٹائپ کیا گیا ہےا ور اس کے بعد ’’ اور سر پر وہ چاند ہے جو اس پہاڑی کا پہلا پیغمبر ہے ‘‘ میں دو جملوں کو ملا دیا گیا ہے۔

۵۔ کسی بھی شاعر کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی کسی تخلیق پر قلم پھیر دے، اس ضمن میں محقق کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جو تخلیق کسی شاعر سے منسوب کر کے انتخاب کا حصہ بنا رہا ہے، اس کی پوری چھان پھٹک کرے کہ آیا شاعر نے اس تخلیق کو اپنی وفات سے پہلے رد تو نہیں کر دیا تھا اور اگر کر دیا تھا تو وضاحتی نوٹ کے ساتھ وہ تخلیق انتخاب میں شامل کرنی چاہئیے۔ مثال کے طور پر قمر جمیل کی کتاب چہار خواب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۸۵ ء میں شائع ہوا اور مدون نے اسی کتاب میں سے ۵ نظمیں اس انتخاب میں شامل کر لیں جبکہ وفات سے قبل انہوں نے اپنی اسی کتاب کا دوسرا ایڈیشن ترتیب دیا جسے ان کی وفات کے بعد آصف فر خی نے اپنے اشاعتی ادارے شہرزاد سے ۲۰۰۹ء میں شائع کیا۔ اس ایڈیشن کے پیش لفظ سے ایک اقتباس دیکھیے:
’’قمر جمیل صاحب کا مجموعہ کلام ’چہار خواب‘ ان کی زندگی میں ہی عدم دستیاب ہو گیا تھا۔ ان کے نئے ایڈیشن کی اشاعت کے لیے جب میں نے اصرار کیا تو انہوں نے ایک نسخہ خود ترتیب دے کر میرے حوالے کر دیا تھا۔ یہ نو ترتیب نسخہ میں نے ان کی اجازت سے لاہور کے ایک پبلشر کو اشاعت کے لے بھیج دیا مگر طویل عرصے تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس اثناء میں ۲۸ اگست ۲۰۰۰ء کو قمر جمیل صاحب کا انتقال ہو گیا۔‘‘ (ص۱۱، چہار خواب، دوسرا ایڈیشن، شہرزاد، کراچی)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قمر جمیل صاحب کی کتاب چہار خواب کا دوسرا ایڈیشن زیادہ معتبر ہو گا جسے انہوں نے خود ترتیب دے کر ڈاکٹر فاطمہ حسن کے حوالے کیا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں قمر جمیل کی جو ۵ نظمیں شامل کی گئی ہیں، ان میں سے تین نظمیں کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، مدون نے صرف اولین ایڈیشن دیکھا اور اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے نظموں کا انتخاب کر لیا۔

۶۔ اکادمی ادبیات پاکستان ایک معروف و مشہور ادارہ ہے اور کسی حد تک ان کی شائع کردہ کتابوں کو مستند مانا جاتا ہے لہذا انہیں چاہئیے کہ شائع ہونے والی ہر کتاب کی پروف ریڈنگ کسی اچھے پروف ریڈر سے کرائیں۔ اوّل تو مدون کو بھی اس کام میں پوری دلچسپی دکھانی چاہئیے اور اپنے طور پر بھی پروف ریڈنگ کرنی چاہئیے،ا س کے باوجود اکادمی ادبیات کی طرف سے نگرانی کا کوئی نظام ہونا چاہئیے تاکہ کتاب ممکنہ حد تک اغلاط سے پاک ہو۔ یہ انتخاب کتابت کی غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔اس کا آغاز پہلے شاعر کے تعارف سے ہوتا ہےا ور کتاب کے بیک ٹائٹل تک یہ اغلاط بتدریج موجود رہتی ہیں۔ چند ایک اغلاط کی نشاندہی میں کر دیتا ہوں جن میں ٹائپنگ کی وجہ سے غلط لفظ اور غلط تاریخ لکھنے سے لے کر نامکمل جملے تک شامل ہیں:
(۱) صفحہ ۲۹ پر مبارک احمد کے نام کے نیچے لکھاہوا ہے کہ وہ ۱۹۲۵ ء میں پیدا ہوئے اور درست تاریخِ پیدائش بھی یہی ہے لیکن تعارفی خاکے کے متن کی عبار ت دیکھیے: ’’ان کی پیدائش گجرات میں ۲۴ جولائی ۱۹۴۵ء کو ہوئی‘‘۔ ص۲۹
(۲) کتاب میں بہت سی جگہوں پر جہاں ’’ؤ‘‘ آنا تھا وہاں ’’؟/سوالیہ نشان‘‘ ٹائپ کیا ہوا ہے۔ مثلاً’’ اور پھر عورتوں نے اپنے دائیں بازو؟ ں کی چوڑیاں توڑ دیں‘‘ ، ص۳۴۔ اسی طرح ’’ پھر برسوں پرانی کہانی سناؤں لیکن بھٹک جاو؟ں‘‘ص۹۷ وغیرہ وغیرہ۔
(۳) ٹائپنگ میں بے دھیانی کے سبب کہیں الفاظ غلط لکھ دیے گئے ہیں تو کہیں دو الفاظ کو ملا کے ایک ہی لفظ بنا دیا گیا ہے۔ مثلاً’’اس کا قرض اٹھائیقبروں سے باہر نکلیں گے‘‘ ص۱۰۴، ’’تجریدی نظم ان کی پہچان ہچس میں انتشار، بے سمتی اور ابہام سے پرتصورات موجود ہے‘‘ ص ۱۰۵، اسی طرح ’’میں نے زمین پر نیکی کا بیچ بویا‘‘ ص۳۴ وغیرہ وغیرہ ۔
(۴) کتابت کی ایک اور غلطی نا مکمل جملوں کی صورت میں دیکھنے کو آتی ہے جو متنی تنقید کے ذیل میں ایک عیب/خامی شمار ہوتی ہے۔مثال کے طور پررئیس فروغ کی نظم کی ایک لائن اس انتخاب میں کچھ یوں درج ہے: ’’تارے جب ٹوٹ کر گرتے ہیں تو ایسی ہی عجیب آوازیں ہیں‘‘ (ص۴۱) لیکن رئیس فروغ کی کتاب دیکھی جائے تو درست لائن کچھ یوں ہے:’’تارے جب ٹوٹ کر گرتے ہیں تو ایسی ہی عجیب آوازیں آتی ہیں‘‘ ص۲۰ ، رات بہت ہوا چلی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس انتخاب کے معاملے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحقیقی یا تجزیاتی صلاحیتوں سے کام نہیں لیا گیا۔ میں اپنے موقف کی بالترتیب وضاحت کرتا ہوں۔ تحقیقی انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی شاعر کا سارا تخلیقی کام دیکھا جائے،ا س کے سارے ایڈیشن سامنے رکھے جائیں، اگر کوئی تاریخی ابہام موجود ہوتو اس کی وضاحت کی جائے، جیسا کہ قمر جمیل کے انتخاب کے سلسلے میں کرنا چاہئیے تھا لیکن مدون نے صرف ایک ہی ایڈیشن پر اکتفا کیا اور اسی سے ساری نظمیں منتخب کر لیں۔تجزیے کی بات کی جائے تو اس انتخاب میں چند ایک شعراء کے بارے میں دو دو چار چا ر روایتی سطریں قلمبند کی گئی ہیں،حالانکہ مدون کا حق بنتا تھا جب وہ خود کتاب کے ٹائٹل پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ کتاب تحقیق و ترتیب و تجزیے پر مشتمل ہے تو کم سے کم دو صفحات کا تجزیاتی نوٹ تو ضرور تحریر فرماتے، چاہے انہی چار پانچ نظموں کے متعلق ہی اپنی رائے دے دیتے یا روایتی اور معاصر نثری نظم کے تناظر میں ہر شاعر کی شاعری پر خامہ فرسائی فرماتے لیکن اس انتخاب میں تو ایسی کوئی خوبی بھی موجود نہیں ، پھر اسے تجزیہ کیونکر تسلیم کیا جائے۔ مزید برآں انتخاب بھی معیاری نہیں ہے، ایک شاعر کی اگر نثری نظموں کی چار پانچ کتابیں ہیں تو ہر کتاب سے ایک ایک نظم شامل کی جانی چاہئیے تھی اور کتاب کا سنِ اشاعت بھی بتانا چاہئیے تھا تاکہ اس شاعر کی نثری نظم کا فکری و فنی ارتقاء سمجھنے میں قاری کو سہولت ہو لیکن مدون نے اکثر شعراء کی نظموں کا انتخاب کسی ایک کتاب سے ہی کیا ہے مثلاًجمیل الرحمٰن کی نثری نظموں کی بہت سی کتابیں ہیں مثلاً خلا زاد، کارنیوال، میورل ،وغیرہ لیکن ان کی ساری نظمیں ان کی ایک ہی کتاب ’’کنارشی‘‘ سے لی گئی ہیں (ص۳۰۵)، اسی طرح افضال احمد سید کی نظمیں بھی ان کے کلیات کی ابتدائی دو کتابوں سے لی گئی ہیں جبکہ ان کی کتاب میں کل چار کتابیں شامل ہیں (ص۱۶۱)۔ پھر بھی عین ممکن ہے کہ کل یہ کتاب نثری نظم کی تاریخ کا ایک حوالہ شمار کی جائے، اس لیے مدون اور پبلشر سے التماس ہے کہ اس کتاب کے متن کو ایک بار دوبارہ ضرور پڑھیں اور ٹائپنگ کی سینکڑوں اغلاط جو اس کتاب میں شامل ہیں، ان کی درستی کریں تاکہ اگلا ایڈیشن اس سے بہتر ہو۔ح

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply