معجزے آج بھی ہوسکتے ہیں -6 ،آخری قسط/انجینئر ظفر اقبال وٹو

ہم نے اپنی ٹیم میٹنگ کی اور طے ہوا کہ سیکرٹری صاحب سے علیحدہ وقت لیا جائے تاکہ کھل کر بات ہو سکے- جاوید اعوان صاحب نے شفقت کی اور ہم ان سے جا علیحدہ کر ملے اور اپنی گذارشات پیش کیں- پراجیکٹ کو سیدھے راستے پر لانے کے حوالے سے کھل کر بات ہوئی اور ہم نے محکمہ زراعت اور pmu کے حوالے سے اپنی رائے دی اور ان کو اپنی رپورٹ کی کاپی بھی دی جو کہ چند دن پہلے میں pmu میں جمع کروا چکا تھا- وہ ہماری پراگریس سے مطمئن نظر آرہے تھے ۔
دونوں اداروں کے درمیان تناؤ زوروں پر تھا اور pmu کو ہماری سیکرٹری زراعت سے ملاقات کی بھنک پڑ گئی تھی جس کا انہوں نےاس ملاقات کا بہت برا منایا تھا اور نچلے عملے نے ہماری پیمنٹ روکنے کی دھمکی دے دی تھی- تاہم چوہدری ذوالفقار صاحب جو pmu کے پی ڈی تھے ان کا رویہ ابھی تک مشفقانہ تھا- ہم نے بھی اس ناراضگی کے ماحول کے باوجود آہستہ آہستہ محکمہ زراعت کی میٹنگوں میں جانا شروع کردیا تفا کیونکہ ہمارے خیال میں پراجیکٹ وہی لوگ صحیح طریقے سے چلا سکتے تھے-
ایک انہونی یہ ہوئی کہ محکمہ زراعت کے ڈی جی جو کہ پہلے ہمیں منہ نہیں لگا رہے تھے اب اچانک مہربان ہوگئے اور ہماری خوب آؤ بھگت کرنا شروع کر دی – بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں سیکرٹری آفس سے معلومات ملی تھیں کہ کنسلٹنٹس نے بھی یہ پراجیکٹ pmu سے لے کر محکمہ زراعت کے حوالے کرنے کی سفارش کی ہے کس کی وجہ سے وہ اتنے مہربان ہوئے پھرتے تھے- لیکن ہم pmu جاتے تو ہماری خوب واٹ لگائی جاتی-
دو تین مہینے مزید اسی چکر میں گزر گئے – نیچے کی فائل اوپر اور اوپر کی فائلیں نیچے آتی جاتی رہیں- تاہم اس دوران ہم نے اپنے فیلڈ وزٹ جاری رکھے اور pmu کے زیر اہتمام بننے والی اسکیموں کو چیک کرتے رہے جن پر کام کی رفتار بہت سست تھی- اس کے ساتھ ساتھ ہم نے سبی، پشین اور ژوب میں اپنے کیمپ آفس بنا لئے-
پراجیکٹ کی سست رفتاری کی وجہ بالکل سامنے آ گئی تھی- فیصلہ سازی کی کمی ، محکموں کا آپس میں عدم اعتماد ، باہمی روابط کی کمی اور پاور گیم- جاوید اعوان صاحب کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وفاقی حکومت کی طرف سے پراجیکٹ کی باگ دوڑ محکمہ زراعت بلوچستان کو مل گئی اور pmu کا کردار پالیسی سازی اور پراجیکٹ پرعمل درآمد میں راہنمائی اور مانیٹرنگ تک محدود کردیا گیا- چھ اور قیمتی ماہ ضائع ہو چکے تھے اور اس دوران دوسرے صوبے اس پراجیکٹ پر اور آگے جا چکے تھے-
فیصلہ ہوتے ہی اعوان صاحب نے پورے محکمے کے افسران کی میٹنگ طلب کی – ہمیں بھی بلایا گیا اور خوب برین سٹارمنگ ہوئی کہ جو وقت ضائع ہوگیا ہے اس کمی کو کیسے پورا کریں اور پراجیکٹ جو اپنے ٹریک پر کیسے واپس لائیں-
ہم نے انہیں بڑے زوروشور سے کہا کہ جب تک زمینی حالات کے مطابق پائپ لائن کی اسکیمیں شروع نہیں کی جاتیں پراجیکٹ کا پانی بچانے کا مقصد بلوچستان میں پورا نہیں ہوگا- دوسرے ایک اورمسئلہ کسانوں کی ایسوسی ایشن کے اکاونٹ کھلوانے کا بھی تھا- بلوچستان میں بڑی تعداد میں ایسے علاقے ہیں جہاں دور دور تک بینک نہیں- کئی کئی اضلاع میں صرف ایک بنک ہے تو ایسے میں کسان ان دور دراز علاقوں کا سفر کرکے اکاونٹ کھلوانے یا پیسے جمع کروانے اور نکلوانے کیسے آیئں گے – ہماری تجویز تھی کہ یہ طریقہ کار باقی صوبوں میں تو قابل عمل ہے لیکن بلوچستان کے زمینی حقائق کے تناظر میں اسے تبدیل ہونا چاہئے- اور ایسا پی سی ون میں تبدیلی سے ہی ہو سکتا تھا جس کے لئے اسلام آباد جانا پڑتا- ایک کے بعد دوسرے پہاڑ کا سامنا تھا-
محکمہ جب تک ان مسائل کا حل تلاش کرتا ہم اپنے اگلے فیلڈ ٹور پر روانہ ہوگئے- اب ارادہ قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے دورے کا تھا- اس وقت (2005) میں ژوب جانے والی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر دو طرفہ ٹریفک چلتی تھی اور یہ انتہائی ناہموار تھی- یہ ایک بم پی سڑک تھی جس پر ہماری فور بائی فور گاڑی ہمیں باسکٹ بال کے بال کی طرح اوپر نیچے اس طرح پٹختی رہتی کہ ساری انٹریاں درد کرنے لگتیں- ان جمپوں کو ہمارے ڈرائیور چور جمپ کہتے کیونکہ ان کو اپنی اوور سپیڈنگ کے دوران یہ جمپ نظر ہی نہ آتے-
سچی بات ہے کہ اندرون بلوچستان کے طویل فاصلے اور سپیڈنگ کے بغیر طے ہی نہیں ہوتے اور پھر وہاں آپ ایسا کر بھی سکتے ہیں کیونکہ سڑک پر میلوں تک مسلسل چلنے کے باوجود کوئی آبادی یا گاڑی نظر نہیں آتے – یوں لگتا ہے کہ کوئی خلائی گاڑی آپ کو مریخ پر اتار کر واپس چلی گئی ہے اور اب آپ اس سیارے پر تنہا ہی مسافر ہیں- اس دوران اگر گاڑی خراب ہوجائے یا کوئی اور گڑبڑ ہو جائے تو دور دراز پہاڑیوں پر موجود اکا دکا گھر کے مکین ہی کئی گھنٹوں بعد آپ کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں یا پھر آپ کی طرح کا کوئی اور دشت نورد-
بلوچستان میں اگر آپ کسی سے کوئی بھی لمبے روٹ کا فاصلہ پوچھ لیں ہمیشہ وہ آپ کو “گھنٹوں “میں ہی بتائے گا کیونکہ اگر وہ کلومیٹروں میں بتائے تو آپ سفر کا ارادہ ترک کرکے ادھر ہی بیٹھ جائیں گے- سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے والے سفر کو مقامی لوگ کہتےہیں “یہ پاس ہی ہے یا یہ سامنے ہی ہے”۔
ہم کوئٹہ سے باہر نکل کر کچلا ک کے مقام سے دائیں طرف زیارت روڈ پر مڑ گئے اوراس راستے پر اصلی “گلستان” اور “بوستان” کے علاقے ہیں- یہ علاقہ اپنے سیب کے باغات کی وجہ سے بہت مشہور ہے – اس سڑک پر دائیں طرف پہاڑ اور بائیں طرف ایک وسیع زرخیز مٹی کا علاقہ چلتا ہے جس پر ایک سبز پٹی کی صورت میں سیب کے باغات ہیں جو زیر زمین پانی نیچا ہونے کہ وجہ سے اب سکڑ رہے تھے- بہت دور ان میدانوں اور سبزے کے بیک گراونڈ میں پشین کی” شیل “ پتھر والی سرخی مائل گہرے رنگوں والی چھوٹی پہاڑیوں کا ایک سلسلہ قطار در قطار نظر آتا ہے جنہیں دیکھ کر مجھے بچپن میں واٹر کلر سے بنائی گئی اپنی سکول پینٹنگز یاد آجایئں-
اس علاقے سے آگے بڑھتے ہیں تو سڑک کے بایئں طرف بھی پہاڑ قریب آنا شروع ہو جاتے ہیں اور زمین پتھریلی ہو جاتی ہے- زیارت موڑ سے دائیں طرف زیارت کو سڑک چکی جاتی ہے جب کہ ہم بائیں طرف ہوگئے جہاں پر تھوڑا آگے جاکر خانوزئی کا مشہور قصبہ آتا ہے- اس قصبے کا لٹریسی ریٹ اس وقت (2005) بھی سو فیصد ہی تھا-
آپ خانوزئیُ کو بلوچستان کا علی گڑھ کہہ سکتے ہیں اور یہاں کے سر سید وہ ہیڈ ماسٹر صاحب ہیں جنہوں نے آج سے چند دہائی قبل اس چھوٹے سے قصبے میں پڑھائی کے ایک ایسے کلچر کا بیج بویا کہ جس سے اس علاقے کی نسلیں سنور گئیں- یہاں کے ہر گھر کے بچے بچیاں اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور زندگی ہر شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں- بیوروکریسی کے اکثر افسران اس چھوٹے سے قصبے سے ہیں-
خانزئی سے آگے بڑھیں تو اس روٹ کا سب سے بلند مقام “کان مہتر زئی” آتا ہے جس کے ساتھ ہی مسلم باغ کا قصبہ ہے جو اپنی کان کنی کی وجہ سے مشہور ہے- اس کے سیب کے باغات بھی مشہور ہیں اور سردیوں میں اکثر یہاں برف باری ہو جاتی ہے جس سے یہ سڑک کئی دفعہ بند ہو جاتی ہے اور مسافر گاڑیاں پھنس جاتی ہیں جن کے مسافروں کے لئے مسلم باغ والے اپنے گھر اور دل کھول دیتے ہیں-
یہاں سے دریائے۔ژوب کی وادی شروع ہوتی ہے-دونوں طرف بلندو بالا خشک پہاڑ جن سے ہر طرف بارشی پہاڑی نالے کٹاؤ کی صورت میں نکل رہے ہیں- پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع وعریض پہاڑی زمین کا دشت پھیلا ہوا ہے جس پر ہر طرف پتھر ہی پتھر بکھرے نظر آیئں گے تاہم دونوں طرف کی پہاڑوں سے آنے والی زمین کے ڈھلوان دشت کے عین درمیان میں ایک نالے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو کہ دریائے ژوب کی ابتدائی شکل ہے- اور اسی نالے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ٹیوب ویل لگا کر سیب کے باغات لگا رکھے تھے جو کہ زیرزمین پانی نیچا ہونے کی وجہ سے دن بدن کم ہورہے تھے- یہ ایک نہایت زرخیز مگر پانی کی کمی کا شکار علاقہ تھا-
(جاری ہے۔۔۔۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply