معجزے آج بھی ہوسکتے ہیں -4/انجینئر ظفر اقبال وٹو

کوئٹہ میں ابھی دونوں محکموں کے درمیان کوئی صلح صفائی نہیں ہوئی تھی اس لئے میں نے لورالائی اور گردونواح کے علاقے کا بھی تفصیلی دورہ کرنے کا پروگرام بنا لیا تاکہ اس علاقے کے زمینی حقائق کو بھی سمجھا جا سکے-بلوچستان میں پچھلے چھ سات سالوں سے خشک سالی جاری تھی اور لورالائی کےارد گرد کے سارے علاقے اس سے ہونے والی تباہی کی مجسم تصویر بنے کھڑے تھے-زیر زمین پانی بہت نیچے جا چکا تھا اور باغات اجڑ چکے تھے-اچھے بھلے زرعی علاقے ویران ہوچکے تھے اور پانی سمٹ کر پہاڑوں کر دامن میں پناہ لےچکا تھا جہاں سے اسے ڈیزل پمپ سے نکال کر کلومیٹروں دور زرعی اراضیوں میں لانا بہت مہنگا سودا تھا اور میں حیران تھا کہ اس مسئلے پر اس منصوبے کا پی سی ون بالکل خاموش تھا-
علاقے کے اچھے بھلے زمیندار کنگال ہوگئے تھے حالانکہ لورالائی کسی زمانے میں اپنے سیب، انار اور بادام کے باغات کے لئے بہت مشہور تھا لیکن اب یہ سارے باغات ختم ہوچکے تھے- مقامی کاشتکار پہاڑوں کے دامن سے زمینوں تک پانی پہنچانے کے لئے ہم سے پائپ لائن بچھانے کی درخواست کرتے لیکن ہمارے پی سی ون میں اتنی لمبائی کے کھال کے پکا کرنے کی بھی گنجائش نہیں تھی-یہاں کی صورتحال کے تناظر میں پائپ لائن ہی بہتر آپشن تھی جس سے پانی کا بھی ضیاع نہ ہوتا اور یہ کم وقت میں لگ جاتی- میں نے پی سی ون میں پائپ لائن کو شامل کروانے کی سفارشات مرتب کرنے کا ذہن بنا لیا-
لورالائی کی تحصیل دکی اپنے کوئلے کی کانوں کی وجہ سے مشہور ہے (دکی شائد ضلع اب بن گیا ہے)- یہ ناصر قبیلے کا علاقہ ہے اور سردار یعقوب خان ناصر یہاں سے تعلق رکھتے ہیں-دکی جانے کے لئے لورالائی سے زیارت جانے والی سڑک پر آتے تھے اور پھر سنجاوی سے پہلے ہی بائیں ہاتھ دکی کی طرف مڑ جاتے تھے- اس زماے میں (2005-08) اس سنگل لین بلیک ٹاپ سڑک کی حالت بہت پتلی تھی اور اس پر بے شمار کھڈے تھے – اکثر سیلابی نالوں پر پل غائب تھے اور کہیں پر اگر کوئی پلیاں تھیں بھی تو سڑک کی سطح سے بلند ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ جھٹکا دیتیں-یہ سفر ہمیشہ ایک آزمائش ہوتا –
میں جب 2005 میں پہلی دفعہ اس علاقے کے وزٹ پر گیا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ معدنیات سے مالامال اس علاقے تک رسائی والی سڑک اس قدر خراب تھی-اللہ تعالی نے اس علاقے کو اس قدر قدرتی کوئلے کے ذخائر سے نوازا ہوا تھا کہ میں خود بیلچوں سے لوگوں کو زمین سے کوئلہ نکالتے ہوئے دیکھا- اس علاقے کے ایک زمیندار کی اسکیم کا وزٹ کیا تو بتانے لگے کہ ہم نے مدرسے کی تعمیر کے لئے بنیاد کھودنا شروع کی تو نیچے سے کوئلہ نکل آیا –دکی کی مرکزی سڑک کے اطراف بھی کوئلے کی بے شمار کانیں اس طرح نظر آرہی تھیں جیسے ہمارے ہاں تازہ سبزیوں کے خوانچے لگے ہوتے ہیں- تاہم پانی کی کمی، سہولیات کے فقدان اور حکومتی محکموں کی عدم دلچسپی کی وجہ س سے اس قدر شاندار علاقے مین غربت اپنے عروج پر نظر آئی-
ایک دن وزٹ کے لئے ہم لورالائی سے شمال میں مرغہ کبزئی کے علاقے کے لئے نکل گئے-کسی زمانے میں یہ علاقہ زراعت کے لئے ایک بہترین علاقہ تھا اور یہاں کی سبزیاں اور پھل پورے پنجاب میں جاتے تھے لیکن اب پانی نہ ہونے کی وجہ سے اجڑ چکا تھا-اس علاقے میں کسی زمانے میں محکمہ زراعت بلوچستان نے ایک بہت بڑا ماڈل زرعی فارم بنایا تھا جو اب اس قدر اجڑا ہوا تھا جیسے کسی دشمن ملک نے خدانخواستہ اس پر بمباری کرکے اسے نیست ونابود کر دیا ہو-
میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ہمارے منصوبے کے تحت اس زرعی فارم کی رونقیں بحال کی جا سکتی ہیں؟ لیکن رب سوہنے کی ناراضگی بالکل واضح نطر آرہی تھی- یہاں پانی بالکل نہیں تھا-اس اجڑے ہوئےزرعی فارم کے پاس سے جب بھی اگلے تین چار سالوں میں گزر ہوا دل میں ایک ہوک سی اٹھی- ہر دفعہ اللہ سے عافیت کی دعا ہی مانگی-اس فارم سے آگے ٹوٹی پھوٹی بلیک ٹاپ روڈ بھی ختم ہوجاتی تھی اور بلوچستان کی مشہور عام شنگل رووڈ شروع ہوجاتی تھی- آج کل سنا ہے محکمہ مواصلات بلوچستان اس راستے پر پختہ سڑک تعمیر کررہا ہے-
مرغہ کبزئی کے اس پہلے سفر میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا اور اس واقعہ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچستان کو بلوچستان مین آئے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا-اس وقت (جولائی 2005) ہمارے پاس سائٹ پر فوٹو بنانے کے لئے اپنے وقت کا بہترین 4 میگا پکسل کیمرہ تھا جس کی پاور بیٹریز میں کافی تعداد میں کوئٹہ سے لایا تھا لیکن کثرت استعمال سے وہ تقریبا ختم ہو گئیں-مقامی دوستوں نے بتایا تھا کہ مرغہ کبزئی ژوب کی سب تحصیل ہے اور وہاں صبح ہم نے ایک مقامی ایم پی صاحب کے پاس جانا تھا جنہوں نے اپنے علاقے کی اسکیمیں ہمارے ساتھ وزٹ کرانی تھیں-سب تحصیل اور ایم پی اے کے ذکر پر میں نے پروگرام بنایا کہ کیمرے کی پاور بیٹریز صبح مرغہ سے ہی لے لیں گے-اس بات کا ذکر میں نے مقامی دوستوں سے بھی نہ کیا-
اگلے دن صبح جب ہم لورالائی سے تین گھنٹے کی مسافت پر اس زرعی فارم سے کافی آگے کچے راستوں کے ایک سنگم پر پہنچے تو ڈرائیور نے بریک لگادی-وہاں پر بمشکل آتھ سے دس کچے کوٹھے بے ترتیبی سے بنے ہوئے تھے جن میں چند ایک کریانے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں- یہ مرغہ کبزئی کا مرکزی بازار تھا-اس سے گزر کر راستے کے ساتھ ہی دو تین کچے گھر تھے جہاں پر اپنی بیٹھک میں ایم پی اے صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے-اس بیٹھک میں فرشی نشت پر بیٹھ کر مولوی صاحب (ایم پی اے) نے ہمیں چائے پلوائی اور پھر ہم سائٹ پر نکل گئے-
مرغہ کے آس پاس اور اس سے آگے ژوب روڈ کے ساتھ کا علاقہ دیکھ کر دل بہت خوش ہوا کیونکہ یہاں پر پانی موجود تھا- مون سون کی کچھ بھٹکی ہوئی بارشیں اس علاقے میں پہنچ جاتی تھیں-اس کے پہاڑوں پر سبزہ بھی نظر آجاتا تھا-اس علاقے میں زبردست زراعت ہو رہی تھی اور میں نے اس پہلے وزٹ میں یہ واحد علاقہ نوٹ کیا جہاں پراجیکٹ کا کام فوری شروع ہو سکتا تھا- یہاں کے کسان بھی پائپ لائن اسکیمیں لگانے میں دلچسپی رکھتے تھے اور پانی کی موجودگی کی وجہ سے ان اسکیموں کی لمبائی بھی اتین زیادہ نہیں تھی لہذا وہ پروجیکٹ کے بجٹ کے اندر اندر بن سکتی تھیں- اس علاقے میں کچھ انوکھا نیا کام بھی ہو سکتا تھا جس کے لئے میں نے اپنے مقامی فیلڈ سٹاف کو دوبارہ یہاں آکر اس علاقے کا تفصیلی سروے کرنے کو کہا-
بلوچستان پچھلے پندرہ دنوں سے مجھے حیران کرہا تھا- چند ہی دنوں میں نوشکی چاغی کے صحراؤں سے لے کر، کوئٹہ کے بلندوبالا خشک پہاڑوں ، لورالائی کے پانی کالئے ترستے کلومیٹروں لمبے زرعی میدانوں او راب مرغہ کے انتہائی سرسبز کھیتوں کو دیکھ چکا تھا اور ہر علاقے کی واٹر منیجمنٹ کے لئے وہاں کےزمینی اور جغرافیائی حالات مختلف قسم کی سٹریجی مانگ رہے تھے مگر ہمارا پی سی ون اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھا- اس میں صرف کھال پختہ کرنے کی اجازت تھی-
لورالائی کی لامحدود لمبائی چواڑائی والے زراعت کے لئے انتہائی موزوں میدان اتنے وسیع تھے کہ اگر پانی مل جاتا تو یہ ایک اکیلا ضلع پورے پنجاب سے زیادہ زرعی پیداوار دے سکتا تھا- میں اس پورے وزٹ کے دوران یہسوچتا رہا کہ اگر تونسہ بیراج سے بلوچستان کو کچھی کینال کے ذریعے پانی سینکڑوں کلومیٹر دور بھیجا جا سکتا ہے تو یہی پانی تونسہ بیراج سے کوہ سلیمان کے راستے پمپ کرکے ساتھہ کے ضلع لورالائی میں کیوں نہیں پہنچایا جا سکتا-
مرغہ سے واپسی پر اگلے دن لورالائی سے مشرق میں ڈی جی خان جانے والی قومی شاہراہ کے دونوں اطراف پھیلے زرعی علاقوں کو دیکھنے نکل گئے –ہر علاقہ اپنی علیحدہ ہی خصوصیات رکھتا تھا- اسی وزٹ میں ہم نے لورالائی کے ویرانوں میں وہ “لاہور” بھی دیکھ لیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”جس نے لہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا”
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply