معجزے آج بھی ہوسکتے ہیں -1/انجینئر ظفرا قبال وٹو

بلوچستان سے میری پہلی محبت سنہ 2005 کے وسط میں اس وقت شروع ہوئی جب میں کوالالمپور سے براستہ لاہور کوئٹہ پہنچا۔ میری فرم کی طرف سے مجھے واٹر  مینجمنٹ کے ملک گیر منصوبے پرصوبہ بلوچستان کے ڈپٹی ٹیم لیڈر کے طور پرتعینات کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں یہ منصوبہ سُست روی کا شکار تھا اورہمیں اس منصوبے پر کام کی رفتار کو بہتر بنانے، پیچھے رہ جانے والے ٹارگٹ مکمل کرنے اور اس پراجیکٹ کو دوسرے صوبوں کی طرح کامیاب کروانے کا مشکل ٹاسک دے کر روانہ کیا گیا۔

وفاقی حکومت نے 2004 میں ملک کے چاروں صوبوں میں پانی کے بہتر استعمال اور بچت کا قومی پروگرام “قومی پروگرام برائے اصلاح کھال “ یا “ National Program for Improvement of Watercourses (NPIW)” شروع کیا ہوا تھا جس نے 2009 میں مکمل ہونا تھا۔

انجینئرنگ کے شعبے کے حوالے سے اس پراجیکٹ میں کوئی خاص تکنیکی چیزیں شامل نہ تھیں جس کی وجہ سے انجینئرز کمیونٹی میں یہ ملک گیر میگا پراجیکٹ کوئی خاص توجہ حاصل نہ کر سکا ۔ تاہم اس پراجیکٹ کے سوشل اور واٹر مینجمنٹ  کے کمپونینٹ نے مجھے اپنی طرف بہت راغب کیا اور خصوصا ً بلوچستان کے حوالے سے تو اس میں کئی چیزیں نئی سیکھنے والی تھیں جنہوں نے آنے والے وقتوں میں وطن کے اس خوب صورت حصے میں ہمیں مستقل طور پر کام کرنے پر مجبور کر دیا۔

بلوچستان میں اس منصوبے پر دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت کم پراگریس تھی۔پہلے سال میں صرف 700کے قریب اسکیموں پر کام شروع ہوا تھا جب کہ ٹارگٹ 5000 سے بھی زیادہ کا تھا۔محکمہ زراعت بلوچستان بھی اس پر بے دلی اور غیر یقینی سے کام کرہا تھا اور خدشہ تھا کہ یہ مفید پراجیکٹ اس صوبہ میں بند ہی نہ ہوجائے۔

بلوچستان میں یہ ہماری پہلی آمد تھی اورروانگی سے پہلے ہر طرف سے کئی قسم کے تبصرے سننے کو ملے تھے لیکن میرے جیسے سیلانی بندے کے لئے تو اندرون بلوچستان دیکھنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ پورے صوبے کے دور دراز علاقوں میں بیس ہزار سے زیادہ مقامات پر اگلے پانچ سالوں میں (2005۔10) ایری گیشن سسٹم میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے عوامی تعاون سے چھوٹی چھوٹی مائیکرو اسکیمیں بنانی تھیں جن کی اس وقت لاگت اوسطا چار سے آٹھ لاکھ روپے پر سکیم ہوتی۔

کوئٹہ پہنچ کر سب سے پہلے مرحلہ تو اپنے دفتر کو ترتیب میں لانا تھا۔کام کو سمجھنے والے مقامی اسٹاف کو ڈھونڈنا تھا جو ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر آن گراونڈ رہ کر کام کروا سکے اس سلسلے میں بہت دلچسپ تجربے ہوئے اور کئی ایسی دوستیاں بنیں جو آج تک قائم ہیں۔

ہمارے لئے سب سے اہم کام اس راز کو سمجھنا تھا کہ بلوچستان میں یہ پراجیکٹ کیوں نہیں “اُٹھ” رہا۔میں ذہن بنا کر آیا تھا کہ پراگریس کے دباؤ سے نکل کر سب سے پہلے اس پراجیکٹ کی بلوچستان میں سست روی کی وجوہات جاننا ہوں گی چاہے اس میں جتنا بھی وقت لگ جائے یا جتنی بھی محنت کرنی پڑے۔ تبھی ہم اس منصوبے کو بلوچستان میں آگے لے کر جا سکتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے برابر کھڑا کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے محکمہ زراعت بلوچستان کے ذمہ دار افسران سے ملاقاتیں شروع میں تاکہ ان سے اس منصوبے کے بارے میں جان کاری لی جائے۔ ڈائریکٹر جنرل سے لے کر فیلڈ اسسٹنٹ سطح کے لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تو پتہ چلا کہ ہمیں کوئی بندہ گھاس نہیں ڈال رہا اور ہر جگہ ہم نا پسندیدہ ہی ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ محکمہ کے لوگ ہمیں ملنے کے لئے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

جب کافی کوشش کرکے اندر کی بات معلوم کرنا چاہی تو پتہ چلا کہ کیونکہ یہ منصوبہ   صدر پاکستان کی ذاتی نگرانی میں چل رہا تھا اس لئے بلوچستان حکومت نے وزیراعلیٰ  سیکریٹریٹ میں اس کا علیحدہ سے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU)بنا کر اس منصوبے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ دور دراز علاقوں میں عوامی سطح پر کام کرنے والی فیلڈ ٹیمیں محکمہ زراعت بلوچستان کی تھیں جبکہ اس محکمہ کا اس PMU میں عملی طور پر فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے محکمہ کے تمام افسران اس منصوبے کے حوالے اپنے ہاتھ پاؤں بندھا ہوا سمجھتے تھے۔ ان کا کام روبوٹ کے طور پر اوپر کے احکامات نیچے اور نیچے کی حالت اوپر پہنچانا تھا اور وہ بہت ڈی مورالائز تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اے گناہ بے لذت سمجھ کر اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔

فیلڈ ٹیموں کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ PMU عملا جمود کا شکار تھا اور حالات بہتر ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ حالات اتنے سنگین تھے کہ میرے پراجیکٹ کو جوائن کرتے ہی تین دن بعد ہونے والی پروانشئیل اسٹیرنگ کمیٹی کی میٹنگ میں PMU اور محکمہ زراعت کے اعلیٰ  افسران میں اچھی خاصی بدمزگی ہوگئی۔اور محکمہ زراعت نے ہمارے ساتھ تعاون بالکل معطل کردیا کیونکہ ہم PMU کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

میں نے ان حالات میں بہتر سمجھا کہ جب تک بڑوں میں صلح صفائی ہوتی ہے تو کوئٹہ میں فارغ بیٹھ کر مکھیاں مارنے کی بجائے فیلڈ میں جاکر اب تک کئے گئے کام کو چیک کیا جائے اور ساتھ ہی عوام سے بھی گفت وشنید کر کے ان کی اس منصوبے کے حوالے سے شکایات و تجاویز کو سنا جائے ہو سکتا ہے کہ وہاں سے کوئی “کلیو”(اشارہ) مل جائے۔

میں نے اپنے فیلڈ سٹاف کے ساتھ دو ہفتوں کا فیلڈ ٹور ترتیب دیا۔ PMU کے پی ڈی صاحب سے بمشکل اجازت ملی کیونکہ ان کے خیال میں یہ دورہ ابھی بہت جلدی تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کوئٹہ میں  ہی بیٹھ کر پہلے کچھ وقت ان کے لوگوں سے پراجیکٹ کو سمجھنا چاہیے تھا۔ تاہم میں کوئٹہ پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد ہی اپنی ٹیم کے ہمراہ فیلڈ میں ایکشن میں تھا اور ہم نوشکی چاغی کے پہاڑوں صحراؤں اور ویرانوں میں اگلے پندرہ دن گزارنے کے لئے کوئٹہ سے نکل چکے تھے ۔

ہم نے دورے کا فیصلہ تو کوئٹہ میں ہونے والی بدمزگی کے ماحول سے بچنے ، بنی ہوئی  اسکیموں کو دیکھنے اور کچھ وقت بلوچستان کے ویرانوں میں گزارنے کے لئے کیا تھا جن کے لئے ہم کوالالمپور کے “پیٹرناس ٹون ٹاورز” اور لاہور کے “نیس پاک “ ہاؤس کو چھوڑ کر کوئٹہ پہنچے تھے لیکن اس دورے نے بلوچستان کے حوالے سے میری سوچ ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دی۔

ہم ابھی اپنے کیرئیر کے پہلے دس سال مکمل کرنے والے تھے لیکن اس دورے سے اپنے پروفیشنل زندگی کے نہ بھولنے والے سبق لے کر کوئٹہ واپس آئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے اس پراجیکٹ پر پراگریس نہ ہونے کی وجوہات ڈھونڈ لی تھیں کہ جن پر اگر کام کیا جاتا تو یہ ہراجیکٹ پھر سے اٹھ سکتا تھا۔ جن میں سب سے بڑی وجہ عوامی اور مقامی ضروریات کو سمجھے بغیر سٹیریو ٹائپ کاغذی منصوبے بنانا تھا جس کا زمینی صورت حال سے دور دور تک کوئی میل نہیں تھا۔

اسلام آباد کی ٹھنڈی مشینوں والے کمروں میں بیٹھے بابوؤں نے اس پروگرام کے پی سی ون میں بھی بلوچستان کو پیرس بنانے کے منصوبے بنائے ہوئے تھے جو کہ زمینی حقائق سے میل نہ کھاتے تھے جس کی وجہ سے بلوچستان میں یہ پراجیکٹ اب تک عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکا تھا۔

بلوچستان ہمیشہ سے ایک لائیو اسٹاک معیشت والا صوبہ رہا ہے جسے ہمارے وفاقی منصوبہ سازوں نے دوسرے صوبوں کی طرح ایک زرعی صوبہ سمجھتے ہوئے اس منصوبے کا پی سی ون بنا دیا تھا اور اس پراجیکٹ کا ڈیزائن ایسا تھا جو کہ بلوچستان کے کسانوں کے بہت بڑی تعداد کی مقامی ضروریات پوری ہی نہیں کرتا تھا اور یہ بات جب محکمہ زراعت بلوچستان والے کرتے تھے تو انہیں ٹھنڈی مشینوں میں بیٹھے بابو جواب دیتے تھے کہ “اس منصوبے کا پی سی ون ایسے ہی منظور ہوا ہے۔ اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی”۔

اس منصوبے کو محکمہ زراعت اور عوامی تعاون سےکتنی محنت سے اور کیسے عوام دوست منصوبہ بنایا گیا اور کیسے بلوچستان میں اس منصوبے کا کام بہت کم وقت میں باقی صوبوں کو پیچھے چھوڑ گیا اور سب سے بڑھ کر اس کے مقامی معیشت پر کتنے زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ یہ ذکر اگلی پوسٹ میں کروں گا انشا اللہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply