سماج (25) ۔ علیحدگی/وہاراامباکر

پچھلی ایک صدی میں زیادہ تر جنگیں کسی ریاست کی توسیع کیلئے نہیں ہوئی بلکہ ان کو توڑنے کی کوشش میں رہی ہیں۔ آج کی دنیا میں خانہ جنگی جنگ کی عام ترین صورت ہے۔ ایسی خانہ جنگی کے پیچھے بھی شناخت کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اور اٹھنے والے یہ گروہ اپنے درمیان پائے جانے والے فرق عام طور پر صدیوں پرانی کہانیوں سے لے کر آتے ہیں۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے طالب سکاٹ لینڈ کے لوگ ہوں یا سپین سے جدا ہونے کی کوشش کرنے والے قیطلونی۔۔ آزادی کی کوشش کرنے والے صرف سیاسی یا معاشی مفاد کے لئے ایسا نہیں کرتے۔ ان کے پیچھے نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ ماضی کے دھندلکوں میں ۔۔ علیحدگی کی خواہش رکھنے والے خود کو الگ دیکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اس کو نفسیات کی نگاہ سے دیکھنا دلچسپ ہے۔ قدیم ماضی سے سماجی فرق تلاش کرنا، صدیوں پرانے کسی تنازعے کو واپس لا کر اہم بنا لینا۔ اور پھر دوسرے گروہ کے بارے میں منفی سٹیریوٹائپ کا لوٹ آنا۔ اس وقت کے آئیڈیاز کو زندہ کر لینا جو معاشرے کی تشکیل سے قبل کے تھے۔
علیحدگی پسند گروہ کے لئے جذباتی ایندھن ایسی علامات ہوتی ہیں جو ماضی سے بامعنی رشتہ بنا سکیں۔ بڑے گروہ کے عمل کے دوران یہ ولولہ انہیں اس کاوش میں پیش آنے والی مشکلات کو جھیلنا ممکن کرتا ہے اور اس کشمکش کے دوران گروہ کو اکٹھا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوگوسلاویہ سے ٹوٹ کر چھ الگ ممالک بنے جنہوں نے اپنے الگ ترانے، جھنڈے اور تہوار بنائے۔ کچھ نئے تخلیق کردہ لیکن زیادہ تر ماضی سے مستعار لے کر۔ آزادی کیلئے اکٹھا کرنے کا آسان طریقہ ماضی کی علامات ہیں۔
ریاست کا ٹوٹنا خوشگوار عمل نہیں۔ اس میں مشکلات ہوتی ہیں اور ٹوٹ جانے کے بعد آبادی کو معاشی چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔ اگر بڑی ریاست سخت جابرانہ استحصال والی نہیں تھی تو پھر اس علیحدگی کا مطلب معاشی طور پر پیچھے چلے جانا ہے۔ جس سے اگر واپسی ہو سکے تو بھی طویل وقت لگتا ہے۔ زندگی کے معیار کے اس نقصان کی کمی کو نئی شناخت سے وابستگی کا جذبہ پورا کر سکتا ہے۔ سماج کے ان اتار چڑھاؤ میں خاندان اور مقامی کمیونیٹی مستحکم رہتی ہیں اور انفرادی سطح پر روابط زیادہ تبدیل نہیں ہوتے۔ اور اس وجہ سے عام لوگ اس عمل سے نسبتاً کم متاثر ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار علیحدگی پرامن بھی ہو سکتی ہے لیکن ایسا ہونا عام نہیں۔ ایسی ایک مثال ناروے کی سویڈن سے 1905 میں لی جانے والی آزادی تھی جو کہ tense تھی لیکن آخر میں پرامن رہی۔
وینیزویلا کولمبیا سے 1830 میں جبکہ پانامہ 1903 میں علیحدہ ہوا۔ اور اس نے یہاں کے سیاسی روابط کو بھی کاٹ دیا۔ نئی بننے والی ریاست کے اپنی پچھلی ریاست سے رابطے نہ رہے۔
جب 1945 میں شمالی اور جنوبی کوریا کی تقسیم ہوئی تو ہر قسم کا ناطہ توڑ لیا گیا۔ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحد بنی تو یہ دو تلخ حریفوں کو الگ کرتی تھی۔
ایریٹریا میں رہنے والوں نے اطالوی کلچر کے اثرات لئے تھے۔ اس کی وجہ کالونیل حکمرانی کے برس تھے جس نے انہیں ایتھوپیا کے روایتی کلچر سے جدا کر دیا تھا۔ جنگِ عظیم کے بعد یہ ایک ہی ملک بنا۔ لیکن ایریٹریا نے اپنی آزادی 1991 میں حاصل کر لی۔ کلچر کے اثرات نے یہ ملک ہی جدا کر دئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی معاشرہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا اگر اس کی مرکزی شناخت کا اثر اس کے ممبران پر زیادہ اہم نہ ہو۔ سوویت یونین اور یوگوسلاویہ کا شیرازہ بکھر جانا ایسی مثالیں ہیں جہاں یہ بڑا معاشرہ اپنے اثرات شہریوں پر مضبوطی سے نہ ڈال سکا۔ ان کے اکٹھ چند دہائیوں میں ختم ہو گئے۔ جب مرکزی ریاست کی طاقت کمزور پڑی تو لیٹویا، اسٹونیا، لیتھوینیا، آرمینیا، جارجیا اپنے قدیم ماضی کے تسلسل کی طرف چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرکیولوجسٹ جوائس مارکس کہتے ہیں کہ ریاستوں کی زندگی کا دورانیہ محدود رہا ہے۔ عام طور پر یہ دو سے چھ صدیوں کے بیچ کی عمر ہے۔ اور یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ریاستیں اپنے تمام کنٹرول کے باوجود، اپنی تمام خدمات کی فراہمی کے باجود اور انفارمیشن کے بہاؤ کے باوجود بہت عرصہ مستحکم نہیں رہتیں؟
عدالتیں، منڈیاں، آب پاشی، اور ریاست کا اکٹھا گیا سٹرکچر ۔۔۔ ٹھیک کام کرتے بھی ہوں، تب بھی نہیں۔ ان سے زیادہ اہم لوگوں کا اپنی ریاست سے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اور شناخت سے وفاداری ہے۔ اور مشترک مقصد کو برقرار رکھنا وقت کے ساتھ مشکل تر ہوتا ہے۔
جو معاشرے گزرتے وقت کے ساتھ پیدا ہونے والے انتظامی مسائل کو اور متنوع آبادی کی ہم آہنگی کو کنٹرول کر سکتے ہیں، ان کی عمر زیادہ طویل ہو سکتی ہے۔ بنیادی طور پر ریاستوں کے معاشرے فانی ہیں۔ کامیابی کے لئے انہیں ایسے خیالات اور نظریات درکار ہوتے ہیں جن کی قدر ان کے ممبران کے لئے کسی بھی دوسری ممبرشپ سے بڑھ کر ہو۔ اس کے لئے ریاست کو اپنے شہریوں کو یکجہتی کا سبق پڑھانا پڑتا ہے اور یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ “ہم سب ایک ہیں”۔ افراد کو وفاداری، اتحاد، یکجہتی کے اجتماعی روغن سے رنگنا ہوتا ہے، خواہ ان سب میں آپس کتنے ہی زیادہ اختلاف اور فرق کیوں نہ ہوں اور کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔
اپنے شہریوں سے اس چیز کی قبولیت پا لینا ایک معاشرے کی کامیابی ہے۔
سماج کی باقی کامیابیاں صرف اور صرف اس کے بعد ہی آ سکتی ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply