حقیقی خوشیاں۔وقار عظیم

چیچہ وطنی میں ایک نواز شریف پارک ہے جو کہ اس چھوٹے سے شہر کے حساب سے اچھا پارک کہا جا سکتا ہے۔اس پارک میں گنتی کے چار یا پانچ جھولے ہیں اور اس کے علاوہ ایک وسیع و عریض گارڈن ہے ۔۔جہاں پر لوگ جاگنگ کرتے ہیں یا اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔میں جب بھی چیچہ وطنی آؤں حمنہ حفصہ کو ساتھ لے جاتا ہوں اور وہاں ان کو جھولے بھی دلواتا ہوں اور ان کے ساتھ کھیلتا ہوں۔

کل بھی میں حمنہ حفصہ کے ساتھ اس پارک گیا۔کچھ دیر سرسبز میدان میں بیٹھنے کے بعد میں جھولوں والی سائیڈ پر گیا۔وہاں حمنہ حفصہ اور ان کی مما کو ٹرین پر بٹھا دیا،ٹرین  نے پارک کے دو چکر لگائے۔اب حمنہ حفصہ کی مما کا کہنا تھا کہ ٹرمپولائن کی ٹکٹس لی جائیں(ٹرمپولائن ایک ایسے گول جھولے کا نام ہے جس میں لچک والا کپڑا ہوتا ہے اور بچے اس پر کودتے ہیں۔

جبکہ میرا کہنا تھا کہ ابھی حمنہ حفصہ چھوٹی ہیں ان کو کیا پتا اس پر کیا کرنا ہے۔پچھلی بار تو حمنہ  حفصہ  کی کزنز کو ساتھ لائے تھے وہ چھ  سات سال کی ہیں انھوں نے کود کود کر ان کو بھی انجوائے کروایا تھا۔ایسے میں اکیلی حمنہ حفصہ انجوائے نہیں کر پائیں گی۔۔

میری نظر تھوڑی دور بیٹھے ایک سات سے آٹھ سالہ بچے پر پڑی جو کہ زمین پر بیٹھا کھلونے بیچ رہا تھا اور یہ کھلونے بھی چند ہی تھے اور سستے سستے کھلونے تھے۔مہنگے سے مہنگا کھلونا  اس کے پاس ایک فٹ بال تھا جو کہ پچیس روپے کا تھا۔

سعدیہ نے کہا آپ اس بچے سے پوچھ لیں اگر وہ ٹرمپولائن پر جانا چاہتا ہے تو اس کی ٹکٹ لے لیں ساتھ حمنہ حفصہ بھی انجوائے کر لیں گی۔۔

میں اس بچے کے پاس گیا۔۔

“وہ جھولا لو گے؟” میں نے ٹرمپو لائن کی جانب اشارہ کیا

اس کے چہرے پر خوشی اور حیرانی کے تاثرات ابھرے لیکن فورا ً اس کی جگہ مایوسی کے تاثرات نے لے لی۔۔

” میری دکان کون دیکھے گا؟” وہ مایوسی سے بولا

” میں ہوں نا۔۔” میں نے بٹوے سے پیسے نکال کر اس کو دیے کہ اپنی ٹکٹ لے اور حمنہ حفصہ کی ٹکٹس میں نے اسے تھما دیں۔

میں اس کی بچھائی چادر پر کھلونوں کی دکان پر بیٹھ گیا ۔وہ خوشی سے بھاگ کلر اپنی ٹکٹ لے آیا۔۔اور حمنہ حفصہ کے ساتھ ٹرمپولائن پر چڑھ گیا۔اس وقت اس کے اندر سے ایک برسر روزگار گھر کا “بڑا” کہیں دور چلا گیا اور سات سے آٹھ سالہ ایک اصلی بچہ نکل کر سامنے آیا۔وہ ٹرمپولائن پر جمپ کرتا تھا خوشی سے قلقاریاں مارتا تھا۔حمنہ حفصہ کو تھامتا تھا۔ان کے  پاس جا کر جمپ کرتا تھا تاکہ وہ بھی اچھل سکیں۔مجھے اس خاص وقت میں اپنی بچیوں سے زیادہ اس سات سے آٹھ سالہ بچے نعمان کی قلقاریاں اور خوشی سے بھرپور چیخیں اچھی لگ رہیں تھیں۔وہ دس منٹ میری زندگی کے حسین ترین منٹس تھے جس میں مَیں  نے ایک غموں کے مارے بچے کو اپنے سارے غم بھلا کر بچپن انجوائے کرتے دیکھا۔ان دس منٹوں میں مَیں نے مجبوریوں لاچاریوں اور ذمہ داریوں سے جھکے کندھے والے ایک بچے کے اندر سے ایک لاابالی ، کھکھلاتا   مسکراتا بچہ باہر آتے دیکھا۔

وہ جب دس منٹس بعد خوشی سے بھرپور چہرہ لیے  میرے  پاس واپس آیا۔میں نے سو روپے ا س کی مٹھی میں تھمائے اور کہا” ایک آنٹی آئیں تھیں۔اکٹھے چار فٹ بالز خرید کر لے گئیں۔” اس سے پہلے وہ اپنے فٹ بالز کی گنتی کرتا میں اس کا نام پوچھا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر میں وہاں سے چل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے ارد گرد ایسی خوشیوں کو تلاش کیا کریں۔یہ بہت سستی لیکن کبھی نہ بھولنے والی خوشیاں ہیں جو آپ کو سرشار کر دیں گی۔

Facebook Comments

وقار عظیم
میری عمر اکتیس سال ہے، میں ویلا انجینئیر اور مردم بیزار شوقیہ لکھاری ہوں۔۔ویسے انجینیئر جب لکھ ہی دیا تھا تو ویلا لکھنا شاید ضروری نہ تھا۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply