ہم لفظوں کے اثر کا معجزہ ہیں /خنساء سعید

برسات کے بعد جنگل کا موسم بہت خوبصورت تھا ۔ہر طرف میٹھی میٹھی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ،ہرنوں کے ایک گروہ نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا جنگل کی سیر کی جائے ۔ساری دوستیں اکٹھی ہو کر مسکراتی کھکھلاتی ہوئی سیر کو نکل گئیں ۔راستے میں دو ہرنیں راستہ گیلا ہونے کی وجہ سے ایک گہرے گڑھے میں جا گریں ۔باقی ساری ہرنیں بہت ڈر گئیں کیونکہ گڑھا بہت گہرا تھا اور اُن کی دوستوں کا گڑھے سے نکلنا بہت مشکل تھا ۔ لیکن پھر بھی وہ ا پنی دوستوں کی مسلسل ہمت بڑھاتی رہیں کہ تم کوشش کرو باہر نکل آؤگی ،بس تھوڑی سی ہمت کرو ،ڈرنا  نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور بالآخر وہ لمحہ آ گیا جب دونوں ہرنوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ چھلانگ لگائی اور گڑھے سے باہر نکل آئیں ۔ اور باہر آتے ہی اپنی دوستوں کا شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا کہ اگر آپ لوگ ہمیں باہر نکلنے کے لیے ہمت بھرے الفاظ نہ دیتیں، ہماری ہمت نہ  بڑھاتیں تو ہم کبھی اس گہرے گڑھے سے باہر نہ  آ پاتیں ۔

انسان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ اپنا وجود رکھتا ہے، لفظ اگر نفرت بھرے کانٹے دار پُر خار ہوں تو سامنے والے کو چیڑ پھاڑ دیتے ہیں اور نرمی ،شفقت ،محبت کے لفظ محبت کا ایک جہان آباد کرتے ہیں جس میں ہر سُو امن اور صلح جوئی کی ہوا چلتی رہتی ہے۔

لفظوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر کسی انسان کے اندر سے وہ صلاحیت ختم کرنی ہو جس کے بل بوتے پر وہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہو تو اُسے بُرے، منفی، نفرت انگیز، لفظوں کی مار مارو، آہستہ آہستہ اُس کی صلاحیتیں ختم ہونا شروع ہو جائیں گی، خود اعتمادی اپنی موت آپ مر جائے گی ،وہ انسان ہر وقت تذبذب کا شکار رہنے لگے گا اور پھر ایک دن اپنی کنفیوز سی دبی ہوئی شخصیت لے کر کسی کونے کھدرے میں چھپ کر بیٹھ جائے گا۔ لفظ، رویے کسی انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں اور تباہ کرنے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں ۔ لفظوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے ان کی رگوں میں بھی زندگی دوڑتی ہے ۔یہ زندگیوں کو ویران بھی کرتے اور آباد بھی کرتے ہیں ۔زہریلے لفظ جب کسی کان میں اُنڈیلے جاتے ہیں تو ان کا زہر انسان کے احساسات جذبات پر وار کرتا ہے ۔

ڈاکٹر بروس لپٹن اپنی کتاب ” دی بیالوجی آف بیلیف ” میں انسانی ،حیوانی اور نباتاتی حیات پر اثر انداز ہونے والے انسانی رویوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سلیمان جزائر جن کو سلومون جزائر بھی کہا جاتا ہے وہاں کے جنگلی لوگوں نے اگر درخت کاٹنے ہوں تو بہت سارے لوگ درختوں کے اردگر د اکٹھے ہو کر ان کو بُرا بھلا کہنا شروع ہو جاتے ہیں وہ درختوں کو گالیاں دیتے ہیں اُن کی برائیاں کرتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہتا ہے اور پھر سارے درخت خود بخود ٹوٹ کر زمین پر گر جاتے ہیں ۔

لفظوں کا اثر صرف درختوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کے وار سے پانی بھی زہر  بن جاتا ہے۔ “محمد علی سید” اپنی کتاب “پانی کے عجائبات” میں لکھتے ہیں جو کہ ایک جاپانی ڈاکٹر ماساروا موٹو کی کتاب” دا ہیڈن میسج ان واٹر” the hidden message in water کا اُردو ترجمہ ہے، کہ  لفظوں کا اثر پانی پر بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے اپنی لیبارٹری میں ایک تجربہ کیا جس میں انہوں نے کرسٹل بنانے کے لیے شیشے کی سفید بوتلوں میں مختلف اقسام کے پانی کے نمونے جمع کیے۔ ڈسٹل واٹر یعنی خالص پانی والی بوتل پر اس نے you fool لکھا جبکہ نلکے کے پانی والی بوتل پر اس نے thank you لکھا۔۔خالص پانی کو نفرت اور حقارت آمیز لفظوں سے نوازا گیا جبکہ نلکے والے پانی کو پیار محبت اور شکر گزاری والے لفظوں کا جامہ پہنایا۔ اور دونوں بوتلوں کو لیبارٹری کے مختلف کونوں پر رکھ دیا،اور ملازمین سے کہا کہ وہ جب بھی ڈسٹل واٹر یعنی خالص پانی والی بوتل کے پاس سے گزریں تو نفرت آمیز لہجے میں حقارت سے بھرے لفظ بولیں اور نلکے کے پانی والی بوتل کے پاس سے گزریں تو لہجے میں پیار اور محبت سموئے محبت بھرے لفظ کہیں یہ عمل 25 دن تک جاری رہا اور 25 دن کے بعد حیران کن نتائج دیکھنے کو ملے۔

پچیس دنوں کے بعد دونوں پانیوں کو برف بنانے کے عمل سے گزارا گیا ڈسٹل واٹر(خالص پانی) جس کے اوپر you fool لکھا گیا تھا اُس کے کرسٹل انتہائی بدصورت بنے تھے اور نلکے کا پانی جس کے اوپر محبت بھرے لفظ لکھے گئے تھے اُس کے کرسٹل بہت خوبصورت بنے تھے۔

اسی طرح ڈاکٹر ماساروا موٹو نے ایک ہی فصل ایک ہی کوالٹی کے چاولوں کو بوتلوں میں ڈال کر نفرت حقارت اور محبت بھرے لفظ لکھے اور 25 دنوں تک وہ ہی عمل دہرایا نتیجہ یہ نکلا کہ پیار اور محبت بھرے لفظوں سے چاول خوش ذائقہ رہے اور اُن کی غذائیت بھی برقرار رہی اس کے برعکس چاولوں کی جس بوتل پر نفرت سے بھرے لفظ لکھے گئے تھے وہ چاول خراب ہو گئے اور انہوں نے اپنی غذائیت کھو دی۔

منہ سے نکلنے والے وہ الفاظ جن کا مقصد سامنے والے کو مبتذل، ذلیل خوار، بے مایہ، ادنیٰ بے قدروقیمت کرنا ہو اُن کی تاثیر میٹھے پانیوں کو کڑوا کر دیتی ہے، پہاڑوں کے جگر چیر دیتی ہے تو گوشت پوست کا بنا انسان اُن کے حملوں سے کیسے بچ سکتا ہے، انسان نوکیلے سخت لفظوں کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔

انسانی ذات کی تخریب کاری شکست و ریخت کا سبب بننے والے لفظ بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی منہ سے آگ نکالے اور سب جلا ڈالے ۔ویسے تو لفظ بے جان ہوتے ہیں ،مگر ان کا استعمال چاہے تو کسی کی جان لے لے اور چاہے تو کسی میں جان ڈال دے ۔بادشاہوں کے دربار میں کچھ کہنے کی جرات کرنے والا اپنے منہ سے نکلنے والے لفظوں سے اتنا خوفزدہ ہوتا تھا کہ پہلے ہی بادشاہ سلامت سے کہہ دیتا کہ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے منہ سے نکلنے والے میرے لفظوں کو بنیاد بنا کر بادشاہ سلامت چاہیں تو میری گردن کاٹ دیں اور چاہیں تو انعامات سے نواز دیں ۔

ہمارے کہے لفظ ہمارے لیے گھر بناتے ہیں جس میں ہم لوگ رہتے ہیں، ہم اگر پیار و محبت بھرے لفظ بولیں گے پیار بڑھائیں گے تو پیار اور محبت کے بنے گھر میں رہیں گے،ہم اگر مہربانی اور سخاوت کی اینٹیں بنائیں گے تو یہ ہی اینٹیں ہمارے لیے سخاوت کا گھر بنا دیں گی۔یا پھر ہم نرم لفظوں اور نرم رویوں کے کسان بنیں اور رحمدلی کے بیج بوئیں تو امن، احسان اور شکر گزاری کی فصلیں کاٹیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے برعکس ہمارے منفی اور تضحیک بھرے لفظ ، سازشی رویے ہمارے لیے نفرت کا گھر بناتے ہیں جس میں ہر وقت ہر مقیم کے جذبات مجروح ہوتے رہتے ہیں۔ زہریلے لفظوں کے تیر کسی ایک کا سینہ چھلنی نہیں کرتے بلکہ ہم میں سے ہر کوئی کڑوے کسیلے، چبھن سے بھرے لفظوں سے لہولہان دل اور زخمی روح لیے بس معجزاتی طور پہ  جیئے جا رہا ہے ،کیونکہ موجودہ دور میں لفظوں میں جرات زیادہ ہے اور مروت کم ہے ،اہانت زیادہ ہے اور محبت کم ہے ،بے تعلقی زیادہ ہے اور تعلق پروری کم ہے ۔کاش کہ ہم میں سے ہر کوئی بولنے سے پہلے خود اپنے لفظوں کا کفیل بن جائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply