کیا سال اور کیلنڈر بھی اسلامی ہوتے ہیں؟/محمد مشتاق

کل ایک صاحبِ علم کی پوسٹ نظر آئی جس میں انہوں نے سوال قائم کیا تھا کہ کیا سال اسلامی و غیر اسلامی ہوتے ہیں؟ یہ سوال قائم کرکے آگے انھوں نے لکھا تھا:
قدیم زمانے سے انسانوں نے موسمی تغیرات کا مطالعہ کر کے سال کو برابر بارہ اکائیوں میں تقسیم کر دیا تھا،تاہم ماضی اور مستقبل کے واقعات کا تعین کرنے کے لیے کسی نہ کسی نقطہ آغاز کی ضرورت رہتی تھی اس لیے مختلف علاقوں اور زمانوں میں مختلف نقطہ ہائے آغاز رائج رہے۔ شمسی کیلنڈر موسموں سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور زرعی شعبے سے وابستہ ہے اس لئے دنیا کے اکثر حصّوں میں یہی رائج رہا لیکن اس کا آغاز و اختتام جاننے کی ایسی واضح علامات نہیں ہیں جیسی قمری کیلنڈر کی ہیں اس لیے عربوں نے قمری کیلنڈر اختیار کر لیا البتہ اسے موسموں کے مطابق کرنے کے لیے اس میں ردوبدل کرتے رہتے تھے جسے قرآن نے منع کر دیا۔ عرب میں یہی کیلنڈر رائج تھا اس لیے مسلمانوں نے اسے اسلامی کیلنڈر کہنا شروع کر دیا ورنہ اسلامی عبادات میں سے کچھ عبادات سورج اور کچھ چاند سے وابستہ ہیں۔

مثلاً نمازوں کے اوقات کا تعین، روزے کی ابتداء  اور انتہا کا تعین، قیام عرفہ کے وقت کا تعین سورج سے اور رمضان اور حج کے مہینوں اور تاریخوں کا تعین چاند سے ہوتا ہے۔

شمسی کیلنڈر کو غیر اسلامی اور قمری کیلنڈر کو اسلامی سمجھنا ایک غیر علمی رویہ ہے۔

بظاہر یہ باتیں کتنی حسین معلوم ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے کئی لوگوں نے اس پر واہ واہ کی ہے، لیکن ذرا گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ باتیں نا صرف غلط ہیں، بلکہ ایسے مفروضات پر قائم ہیں جنھیں مان لیا جائے، تو اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ دینی شعائر اور تصورات کو لادینی بنانے کا پروجیکٹ ہے۔

چند نکات پیشِ خدمت ہیں۔
1۔ یہ موقف اس مفروضے پر قائم ہے کہ “قدیم زمانے” سے “انسانوں” نے غور کرکے، اور اس طرح غور کرکے جس میں وحی کی کوئی رہنمائی میسر نہیں تھی، خود ہی اپنی مصلحتوں کا خیال رکھتے ہوئے دِنوں، مہینوں اور سالوں کے کچھ پیمانے وضع کیے۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ یہ سوال محض تاریخی نوعیت کا نہیں، بلکہ دینی نوعیت کا بھی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں پہلے انسان کو روزِ اوّل سے ہی وحیِ الٰہی کی روشنی حاصل تھی اور وہ پیغمبر تھے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ انسان کو پہلے دن سے ہی شرعی احکام کا مکلّف بنایا گیا ہے اور اسے بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اس کا محاسبہ ہوگا۔ چنانچہ روزِ اوّل سے ہی کچھ کام اس کےلیے واجب ٹھہرے جن کے نہ کرنے پر اللہ کی جانب سے سزا رکھی گئی ہے، کچھ ممنوع ہوئے جن کے کرنے پر اللہ کی جانب سے سزا رکھی گئی ہے اور کچھ واجب ہونے اور ممنوع ہونے کے درمیان کے درجوں میں رہے، یعنی اچھے کام جن کے کرنے پر ثواب ہو لیکن نہ کرنے پر سزا نہ ہو، غیر مناسب جن کا نہ کرنا بہتر ہو اور مباح جن کا کرنا اور نہ کرنا اس لحاظ سے برابر ہے کہ کرنے یا نہ کرنے پر ثواب یا سزا نہیں ہے۔ گویا انسانی افعال کی “شرعی تقسیم” پہلے دن سے ہی موجود ہے۔ پھر انسانی افعال میں کچھ وہ عبادات بھی ہیں جو اس پر واجب ہیں اور ان واجب عبادات میں کچھ وہ ہیں جن کےلیے دن کے مخصوص اوقات مقرر ہیں اور کچھ وہ عبادات بھی ہیں جن کےلیے سال میں کچھ مخصوص اوقات مقرر ہیں۔ ایسی عبادات، جن کےلیے دن یا سال میں مخصوص اوقات ہوں، صرف ہماری شریعت میں ہی نہیں ہیں، بلکہ ہم سے قبل سیدنا موسی علیہ السلام کی شریعت میں بھی تھیں اور ان سے قبل سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا نوح علیہ السلام کی شریعتوں میں بھی تھیں، بلکہ پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کے وقت سے ہی تھیں۔ مثلاً کوئی شریعت ایسی نہیں ہے جس میں نماز نہ ہو اور نماز کےلیے دن کے مخصوص اوقات نہ ہوں۔

اسی طرح ہر شریعت میں قربانی کا کچھ تصور، زکات کاکچھ تصور اور روزوں کا کچھ تصور بھی رہا ہے اور ان عبادات میں بعض کےلیے سال کے کچھ مخصوص دن بھی مقرر رہے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے لیے مسلمہ ہے کہ عبادات کے اوقات کا تعین وحی کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، اس نے دن کے اوقات کے حساب کےلیے بھی، اور سال کے حساب کےلیے بھی کچھ پیمانے بنائے ہیں اور یہ پیمانے اولاً وحی کی روشنی میں ہی بنائے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے اس امر کی تصریح بھی کی ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت ملاحظہ 36 فرمائیے:
إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثۡنَا عَشَرَ شَهۡرٗا فِي كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَوۡمَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضَ مِنۡهَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٞۚ
(بے شک مہینوں کی تعداد، اللہ کے ہاں، نوشتۂ الٰہی میں، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں۔)

معلوم امر ہے کہ مشرکینِ عرب نے موسموں کے فوائد اور بعض جنگی، سیاسی اور معاشی مصلحتوں کی خاطر ان مہینوں کو آگے پیچھے کردیا تھا، جسے “نسیء” کہتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کو ناجائز قرار دے کر ان مہینوں کو اصل مقام پر رکھنے کا حکم دیا اور جس سال رسول اللہ ﷺ نے آخری حج کیا، تو اس سال ذی الحجہ کی نویں تاریخ واقعی ذی الحجہ ہی کی نویں تاریخ تھی۔ چنانچہ عرفہ کے خطبے میں آپ نے اعلان فرمایا کہ:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ الله السموات وَالْأَرْضَ
(اے لوگو! وقت گھوم کر واپس اس ہیئت پر آگیا ہے جس پر یہ اس دن تھا جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کیے۔)

چنانچہ اب ان مہینوں کو اپنے وقت سے آگے پیچھے کرنے پر شرعی حکم کی خلاف ورزی مرتب ہوتی ہے اور اس لیے ان مہینوں کو ان کے مقام پر رکھنا اب شرعی حکم ہے۔ اسی لیے ان مہینوں کا یہ حساب اب “اسلامی مسئلہ” ہے۔

2۔ واضح رہے کہ ان مہینوں کو ان کے مقام سے ہٹانا شریعت کے صرف ایک حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ اس ایک خلاف ورزی سے بہت سی خلاف ورزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک بات کا ذکر تو سورۃ التوبہ کی اسی آیت میں ہے کہ ان مہینوں میں چار مہینے حرمت کے ہیں اور ان حرمت کے مہینوں کی حرمت شرعی پہلو سے ہے اور ان سے کئی خصوصی احکام متعلق ہیں۔ پھر ان میں رمضان کا مہینہ آتا ہے جو ایک خاص عبادت کےلیے خاص ہے، یعنی روزوں کےلیے، اور اس مہینے میں صرف فرض روزے ہی رکھے جاسکتے ہیں، وہ مہینہ نفلی یا قضا روزوں کےلیے ہے ہی نہیں، اصول فقہ کی اصطلاح میں وہ رمضان کے روزے واجب مضیق کہلاتے ہیں کیونکہ اس وقت صرف یہی فرض ادا کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ایک ہی دفعہ! پھر عید الفطر کےلیے یکم شوال اور عید الاضحیٰ کےلیے دس ذی الحجہ کی تاریخیں شرعاً مقرر ہیں۔ اسی طرح حج نام ہی عرفہ کا ہے اور عرفہ کےلیے نو ذی الحجہ کی تاریخ شرعاً مخصوص ہے۔ اسی طرح بہت ساری دیگر عبادات ہیں جن کےلیے مخصوص دن مقرر کیے گئے ہیں۔ پھر مخصوص اوقات کےلیے خصوصی فضائل ہیں جیسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر۔

3۔ پھر اس پہلو پر غور کیجیے کہ عربوں میں یہ مہینے اگر رائج رہے ہیں، خواہ انھوں نے ان کا مقام تبدیل کیا ہو، تو سوال یہ ہے کہ عربوں میں یہ مہینے کہاں سے رائج ہوگئے تھے؟ ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے ہی ان میں یہ مہینے رائج کیے تھے ان مخصوص عبادات کےلیے۔ اس لیے یہ کہنا کہ عربوں میں رائج مہینوں کو مسلمانوں نے اپنا لیا، بات کو درمیان سے شروع کرنا ہے۔ پیچھے اصل تک جائیے، تو معلوم ہو کہ عربوں نے یہ مہینے از خود نہیں گھڑے تھے، بلکہ ان جد امجد نے وحی الٰہی کی رہنمائی میں ان کےلیے یہ مہینے مقرر کیے تھے، بالکل اسی طرح جیسے حج، روزہ، یہاں تک کہ نماز اور زکات کے تصورات بھی بگڑی ہوئی شکل میں عربوں میں رائج تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی تطہیر کرکے ان کی صحیح شرعی صورت میں ان کو رائج کیا، تو اب وہ ہماری شریعت کے احکام ہیں اور اسی حیثیت سے وہ ہم پر واجب ہیں ، نہ کہ عربوں کی عادت اور رواج کی اتباع کے طور پر! ان امور کو مسلمان اہلِ علم نے ہمیشہ اسی پہلو سے دیکھا ہے۔ مثلاً سورۃ التوبہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں:
هَذِهِ الْآيَةُ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْوَاجِبَ تَعْلِيقُ الْأَحْكَامِ مِنَ الْعِبَادَاتِ وَغَيْرِهَا إِنَّمَا يَكُونُ بِالشُّهُورِ وَالسِّنِينَ الَّتِي تَعْرِفُهَا الْعَرَبُ، دون الشهور التي تعتبر ها الْعَجَمُ وَالرُّومُ وَالْقِبْطُ وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَى اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا
(یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عبادات اور دیگر احکام کا انھی مہینوں اور سالوں کے ساتھ باندھنا واجب ہے جو عرب جانتے تھے، نہ کہ وہ مہینے جو عجم، روم یا مصر میں رائج تھے، خواہ ان لوگوں کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ سے زائد نہ ہو۔)

4۔ یہ بھی واضح رہے، جیسا کہ امام قرطبی کی عبارت میں اشارہ ہوا، کہ صرف عبادات ہی کے احکام نہیں، بلکہ بعض دیگر احکام کا تعلق بھی انھی مہینوں اور سالوں کے ساتھ ہے۔ مثلاً بیوہ کی عدت قرآن کریم نے چار مہینے، دس دن مقرر کی ہے۔ یہاں چار مہینوں سے مراد چار قمری مہینے ہیں، نہ کہ شمسی۔ اسی طرح مطلّقہ کی عدت بعض اوقات تین مہینے ہوتی ہے، تو وہاں بھی مراد تین قمری مہینے ہیں، نہ کہ شمسی۔ بچے کی رضاعت دو سال کےلیے ہوتی ہے، تو یہاں بھی دو سال سے مراد دو قمری سال ہیں، نہ کہ شمسی۔ زکات کے وجوب کےلیے مال پر سال کا گزرنا شرط ہے، تو یہاں بھی سال سے مراد قمری سال ہے، نہ کہ شمسی۔

5۔ اس لیے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر سورۃ التوبہ کی آیت 36 میں یہ ذکر نہ بھی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء سے ہی سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا ہے، تب بھی اللہ تعالیٰ نے جو شرعی احکام اس امت کو دیے ہیں، ان پر عمل کےلیے سال بارہ مہینوں میں ہی تقسیم ہونا تھا اور سال کے مہینوں کا یہ حساب چاند کی گردش پر ہی منحصر رہنا تھا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کےہاں خالص دینی احکام کی ادائیگی کےلیے قمری کیلنڈر نے ہی رائج ہونا تھا۔ اس صورت میں یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہوتا جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں گھر بنانے کا کوئی خصوصی نقشہ بنا کر نہیں دیا لیکن اگر محرم و نامحرم ، حجاب اور حیاء کے متعلق اسلامی احکام پر عمل کرنا ہو، تو مسلمانوں کے گھر ایک خاص طرز کے ہی بنیں گے۔دنیا کے مختلف خطوں میں موسم اور دیگر عوامل کی وجہ سے گھروں کی تعمیر میں کچھ نہ کچھ اختلاف یا تنوع تو ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے گھروں کی تعمیر میں کچھ امور مشترک ضرور ہوتے ہیں، جیسے مردوں کے بیٹھنے کےلیے الگ جگہ بنائی جاسکتی ہے، تو ضرور بنائی جاتی ہے، ورنہ کم از کم پردہ لٹکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح غسل خانے میں اگر نجاست و طہارت کے احکام پر عمل کرنا ہو، تو کچھ خاص طرز بن ہی جاتی ہے جو ہر جگہ مشترک ہوتی ہے۔ “مسلم شاور” کو ہی دیکھ لیجیے۔ “اسلامی کیلنڈر” کا مسئلہ بھی یونہی ہوتا کہ اس نے بننا ہی بننا تھا، لیکن جب اس آیت میں اور پھر متعلقہ احادیث میں اس کا حکم بھی آگیا ہے، تو اس کے بعد اس سوال کےلیے کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی کہ کیا سال بھی اسلامی یا غیر اسلامی ہوتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ جی ہاں، ہوتے ہیں، یقیناً ہوتے ہیں، اور مسلمانوں میں رائج قمری سال یقیناً اسلامی سال ہے اور یہ تقویم یقیناً اسلامی تقویم ہے۔
باقی رہا شمسی تقویم کا شرعی حکم تو اس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے، ان شاء اللہ، جب ہم “یہودی تقویم” اور “مسیحی تقویم” کے متعلق بھی کچھ تفصیل واضح کریں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ موجودہ رائج کیلنڈر کی فکری بنیادیں کیا ہیں کیونکہ لوگوں نے یہ فرض کیا ہوا ہے کہ کیلنڈر اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتے، نہ ہی ان کے پیچھے کچھ اقدار کارفرما ہوتی ہیں۔ ہم واضح کریں گے کہ یہ فرض کرنا کیوں غلط ہے، ان شاء اللہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply