روم(1)-ناصر خان ناصر

روم کے اس ہوٹل کے بروشئر پر ایک بے حد خوبصورت حسینہ کی تصویر تھی جو اپنے جملہ آلات خود کش ‘نکتہ چیں اے غم دل بات ‘چھپائے’ نہ بنے’ کی عملی تصویر بنی تھی۔
جس طرح پرانی کہانیوں کا شہزادہ کسی پری کی ایڑی چوٹی کے لگائے میک اپ کے زور دیکھے بنا اس کی پنڈلی پر عاشق ہو جاتا تھا اور غش پہ غش کھانے لگتا تھا، ہم بھی سحری زہر مار کر کے افطار تک یہی فرمانے لگے۔۔
کتھا چونا چھالیہ
تیرے غم میں کھا لیا۔۔۔
ہماری مومنہ بیگم صاحبہ ہمارے روزے اور ایمان کی پختگی پر ‘رشک و اشک بدنداں’ ہوئیں۔
روم کے کلموہے ہوٹل کا نام مزید تیر بہدف ثابت ہوا۔۔۔
‘روم کا رنگیلا پوپ’
اور یہ رنگیلا’ چھیلہ چھبیلا پوپ ہمیں اپنے سپید لبادے اور اونچی ٹوپی کی اوڑھ سے آنکھیں کیا مارنے لگا، ہم تو لہک لہک کر اپنا لکھا گیت دن رات گانے لگے اور بیٹے کے کانوں میں دو انچھر پھونکنے لگے۔۔۔
مورے روم روم میں
روم بسا
روم میں لے دے روم۔۔
ابھی ہم نے اپنی دھوم کی دھوم نہیں مچائ تھی کہ بیگم صاحبہ کی قہر آلود نظریں ہمیں رنگیلے پوپ کے جلو سے زبردستی نکال کر ہمارا منہ کالا کر کے جلوس نکالنے لگیں۔۔۔
الحمدوللہ ہمارا بیٹا رافیل (جس کا نام ہم نے گالیتا نامی فتنہ روزگار تصویر کے خالق مشہور رینوسان اطالوی مصور کے نام پر رکھا ہے) بے حد فرمانبردار بچہ ہے۔ ماں سے چوری اس نے ہمارے روم کے آخری ہفتے کا بندوبست اسی بدنام ہوٹل میں کر دیا۔
دو ہزار سال پرانے رومن قلعے کے سامنے یہ نابکار اپنا منہ ماتھا پھلائے، کالے کرتوت ٹھمکائے ہمیں بمشکل ملا۔ صدیوں کی پھٹکار درودیوار پر برس رہی تھی، رنگیلا پوپ نجانے نن تھا کہ ٹن؟
کچھ پتہ نہ چلا۔۔۔ دل ہی دل میں مقدس رنگیلے پوپ کی ڈیوڈ کی طرح عزت افزائ کرتے ہم آگے لپکے۔
تین بند دروازوں سے گزر کر چوتھے دروازے پر وہ پانی پسینہ ‘غسینہ’ ہمیں ملی۔۔۔
مگر ٹہریے!
پہلے ایک لطیفہ سن لیجیے۔
‘ایک صاحب کو اپنے وجود کے بھاری پن کا احساس ہوا تو وہ اپنا وزن کم کرنے کے جتن کرنے لگے۔ ایک کلب کا اشتہار دیکھ کر وہاں پہنچے جن کا دعوی تھا کہ وہ پانچ سے پندرہ منٹ میں ایک سے دس پاونڈ وزن کم کروا دیتے ہیں۔
کاونٹر پر بیٹھی بی بی نے اپنی تین پیشکشیں بتائیں۔
نمبر ایک
دس ڈالر میں ایک پاونڈ وزن کم۔۔
نمبر دو
پچاس ڈالر میں پانچ پاونڈ وزن کم
نمبر تین
سو ڈالر میں دس پاونڈ وزن کم۔
محترم سوچ میں پڑ گئے، پھر ڈانوں ڈول ہو کر پہلی پیشکش قبول کی۔ انھیں دروازہ نمبر ون سے گزار کر نیا نیکر شرٹ پہنایا گیا اور ایک دروازے سے باہر جانے کا اشارہ کیا گیا جہاں ایک بے حد خوبصورت حسینہ نیم برہنہ کھڑی تھی۔ انھیں دیکھتے ہی اس نے آنکھ ماری اور بھاگ کھڑی ہوئ۔۔۔ محترم پیچھے بھاگے مگر لاکھ کوشش کے باوجود اسے پکڑ نہ پائے۔ دس منٹ کے بعد انھیں ہانپتے کانپتے، پسینہ پانی ہوتے ہوئے کو تولا گیا تو واقعی وزن ایک پونڈ کم تھا۔
اب وہ صاحب سوچنے لگے۔۔۔
بھئ واہ۔ دس ڈالر والی حسینہ اتنی خوبصورت تھی تو پچاس ڈالر والی تو کیا پری کا بچہ نہ ہو گی؟
دس پندرہ منٹ ریسٹ کرنے کے بعد انھوں نے پچاس ڈالر ادا کیے اور دروازہ نمبر دو پر پہنچ گئے۔ اس بار انھیں صرف انڈر ویر پہننے کو عطا ہوا۔۔۔
وہ کم سن آبرو باختہ، قاتل روش، بے باک و خطرناک حسینہ بھی قیامت کا نقشہ رکھتی تھی۔ شرابی شربتی و بادامی آنکھیں، نورانی چہرہ، دہکتا پنڈا اور اوپر کے حصے سے بالکل برہنہ۔۔۔۔
وہ پری رو بھی انھیں آنکھ مار کر اڑنچھو ہوئ۔ بھاگتے بھاگتے رک جاتی اور انھیں اپنی ادائیں دکھا کر پاس بلاتی۔ وہ اپنی جان توڑ کر ہلکان ہوتے، تیز تیز بھاگے مگر بی بی تھی کہ چھلاوہ!
شلنگے بھرتی،پارہ صفت، شرارہ، انگارہ بنی ہاتھ لگتے لگتے بھی ہاتھ نہ آئ۔ آخری دروازے پر پھر انھیں تولا گیا تو وزن سچ مچ پانچ پاونڈ کم تھا۔
اب وہ صاحب سچ مچ چکرائے، گہری سوچ میں غلطان ہوئے۔ بار پر جا کر جوس پیا۔ ہوش میں ہوش اور سانس میں سانس آئ تو ٹھان لیا کہ سو ڈالر والی حسینہ بھی ضرور دیکھ کر دم لیں گے۔
ارے جس کی دس پاونڈ وزن کم کرنے کی گارنٹی ہے، وہ کیا چیز$$$ ہووے گی؟
تیسرے دروازے پر ان کا انڈروئیر بھی اتروا لیا گیا۔ بدمست خیالوں میں مست، مخمور جذبات سے معمور گویا نشے سے چور وہ دروازہ کھول کر باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک موٹا مشٹنڈا برہنہ حبشی وہاں کھڑا ہے۔ اس نے انھیں دیکھتے ہی آنکھ ماری اور ان کے پیچھے دوڑ پڑا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply