• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • منشیات کی روک تھام کیلئے اربابِ اختیار و سماج کی ذمہ داری/معاویہ یاسین نفیس

منشیات کی روک تھام کیلئے اربابِ اختیار و سماج کی ذمہ داری/معاویہ یاسین نفیس

منشیات یا ڈرگز ایک ایسا موذی مرض اور عفریت ہے جس نے لاتعداد خاندانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کردی ہیں

نئی نسل کسی بھی ملک کی معاشی،تعلیمی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقی میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔
جوانی وہ عرصہٴ حیات ہے جس میں اِنسان کے اعصاب مضبوط اور حوصلے بُلند ہوتے ہیں ایک باہمت جوان پہاڑوں سے ٹکرانے،طوفانوں کا رخ موڑنے اور آندھیوں سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے آج نئی نسل جس تیزی سے منشیات کی طرف راغب ہورہی ہے یہ سوسائٹی کی تربیت گاہوں اور تربیت کنندہ ہر فرد کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ ان میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔

یہ لوگ شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کرسٹل، آئس، صمد بانڈ اور سکون بخش ادویات سبھی کچھ استعمال کرتے ہیں۔

تعلیمی ادارہ ایک ایسی معتبر اور مقدس جگہ اور عمارت ہوتی ہے جہاں پرقسمت نوع بشر کو تبدیل کرنے کا فن اور فرض پروان چڑھایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے آج تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہےغضب خدا کا کہ نجی جامعات میں تو اب باقاعدہ اسموکنگ کیفے تک بنائے جارہے ہیں اور باقاعدہ اسموکنگ بریکس تک دی جارہی ہیں۔
اکثر تعلیمی اداروں میں تو طلبا اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر نشہ آور اشیاء کااستعمال کر رہے ہیں۔طلباء میں آئس نامی نشہ بہت مقبول ہورہاہے اس قاتل نشے کا بڑھتا ہوا رجحان حد درجہ تشویشناک ہے
اسکے علاوہ کئی اورنئے نئے نشے اب پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تفریح کا حصہ بن چکے ہیں۔

نشے کے عادی نوجوانوں میں لڑکیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جو ایک انتہائی تشویش ناک رجحان ہے۔
صرف چند تعلیمی ادارے ایسےہیں جہاں نشہ آور اشیاء کی روک تھام کی گئی ہے۔ اس سے بڑے کرب کی بات کیا ہو گی کہ وہ ادارے، جنہیں ہماری نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا، وہی اُنہیں نشے کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ اساتذہ کے کردار سے جو شرم یا جھجک بچوں میں ہو سکتی تھی اب اساتذہ کا ان کے سامنے نشہ کرنے سے وہ جھجک اور رعب بھی ختم ہوتاجارہاہے۔
منشیات کے اسباب بے روزگاری، گھریلو پریشانیاں، زندگی میں ناکامیاں اور بری صحبت وغیرہ ہیں۔

شروع شروع میں غلط سوسائٹی، زندگی کی مشکلات، بے چینی اور بے سکونی کے باعث اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر اسکی لت لگنے کے بعد اس سے نجات پانا ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ جتنے بھی ممالک ترقی یافتہ بنے ہیں، ان میں سے اکثر نے اس لعنت کا سختی سے مقابلہ کیا ہے۔ یہ انسان کے جسمانی سسٹم کو مکمل درہم برہم کر دیتا ہے۔ ایسے افراد ہمیشہ خوف کی حالت میں ہوتے ہیں وہ اپنے نشے کو پورا کرنے کے لئے بہت سارے دوسرے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔چوری ڈاکہ مکر و فریب کے ذریعے لوگوں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ یوں یہ موذی مرض بہت ساری دوسری معاشرتی بیماریوں کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ نشے میں شدت آنے کے بعد یہی نئی نسل گٹر نالوں اور کچرہ کنڈیوں کی زینت بن جاتی ہے۔ انھیں گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ کی مانند پڑے رہنا پڑتا ہے۔
معاشرہ کا بدنما داغ سمجھاجاتاہے اور پھر انکے اہل و عیال بھی انکی فکر سے مبراء ہوجاتے ہیں۔

انسداد منشیات کے جو مراکز قائم ہیں وہ بھی محض فنڈنگ بٹورنے کے لئے چند ایک مریض رکھ کر اپنا چورن بیچتے رہتے ہیں یا چند مراکز ایسے ہیں جن کے اخراجات عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں
لیکن یہ سب بعد کا مرحلہ ہے اس سے پہلے ہم اس اصول سے کہ”احتیاط علاج سے بہتر ہے” اس سے روگردانی کرتے ہیں
اگر اس مرحلہ سے پہلے ہی والدین  اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر توجہ دیں کہ ان کی اولاد کیا کررہی ہے ۔بیٹا بیٹی دروازہ بند کیے کس سے بات کررہے ہیں ، انکے رویوں میں بدلاؤ تو نہیں آرہا؟، انکی صحبت کیسی ہے ؟سکول بیگ شاپنگ بیگ چیک کرنا کہیں کسی غلط چیز میں تو نہیں پڑ گئے ۔کہیں کچھ غلط تو نہیں کھا رہے کسی نشہ آور چیز میں تو نہیں پڑ گئے۔ تو یہاں تک پہنچنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 700افراد نشے کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جو دہشت گردی سے مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔بعض افراد کے مطابق منشیات فروش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو نشانہ بنا کر نشے کی لت لگا رہے ہیں جب کہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ڈرگ مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

پولیس ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے منشیات فروشوں کو پکڑ کر اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مقدمات درج کر لیتی ہے لیکن ان کےپس پشت کار فرما بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ یہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
وطن عزیز کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے منشیات کے خلاف آگاہی مہم اور کارروائی میں طلبہ تنظیمیں اور اساتذہ حکومت کا ساتھ دیں اور حکومت کو چاہیے کہ منشیات کی لعنت کو عام کرنے والے ان عناصر کے خلاف سخت قانون سازی کرکے کاروائیاں تیز کریں

Advertisements
julia rana solicitors london

منشیات فروشی کی سزاء کم از کم سزائے موت رکھی جائے
اینٹی نارکوٹکس فورس ، ڈرگ کنٹرولر فورس کے یونٹس تعلیمی اداروں میں قائم کئے جائیں۔
جامعات کے طلباء کی ڈگریوں کو ایسے ٹیسٹوں کے کلئیر ہونے سے مشروط کیاجائے جوکہ اس بات کی نشاندہی کریں کہ یہ طالبعلم ڈرگ کی لعنت سے محفوظ ہے۔تاکہ یہ ناسور  وطن عزیز سے ختم ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply