سماج (22) ۔ تنظیم/وہاراامباکر

قبائل اور ریاست جیسی جدتیں بڑی آبادی کو رہائش اور خوراک فراہم کرنے کے لئے بھی لازم تھیں اور معاشروں کے قیام کیلئے بھی۔ اور جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ان نظاموں کا قیام انسان کی فطرت کا لازم نتیجہ ہے۔ چھوٹے جتھے سے قبیلے، قبیلوں سے قومیں۔ اقوام کی مشترک شناخت، جس کی بنیاد پر معاشرے کے اندر انفارمیشن کا بہاؤ ٹھیک طور پر ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان کا طرزِ بود و باش لچکدار ہے۔ ڈھاکہ اور منیلا جیسے شہروں میں اوسطاً بیس مربع میٹر پر ایک شخص ہے۔ ہم دوسروں کے ساتھ بڑی گنجان آباد بستیوں میں رہ سکتے ہیں۔ (قدیم طرزِ زندگی رکھنے والوں کے پاس اس سے دس لاکھ گنا زیادہ جگہ تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوریشیا میں گھوڑوں کا سدھائے جانا، میسوپوٹیمیا میں لکھائی کی ایجاد، فونیشیا میں سمندری جہازوں کی۔ اِنکا اور روم میں طویل شاہراہیں، یورپ میں چھاپہ خانہ ۔۔ ایسی جدتیں بڑی سے بڑی سوسائٹی کا قیام ممکن کرتی تھیں۔ مرکزی اتھارٹی کا دائرہ وسیع کر سکتی تھیں۔ ایک بار گھوڑے آ گئے تو منگول تاتاری یا ایزٹک کے شوشونی اپنی شناخت کو طویل فاصلے تک پھیلا سکتے تھے اور برقرار رکھ سکتے تھے۔
رومی سلطنت جب عروج پر تھی تو لباس سے لے کر بالوں کے سٹائل تک، برتنوں اور فرشوں کے ڈیزائن، روایات اور رواج، مذہبی رسوم، پکوان، گھروں کے نقشے اور سہولیات۔ شہروں، سڑکوں اور پانی کے نالوں کے ڈیزائن ۔۔ ان سب میں رومی شناخت واضح تھی۔ اور اس کو یکجا رکھنے کیلئے رابطوں کے اچھے نظام درکار تھے۔
ایسا کرنا قبائلی معاشرے میں ممکن نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاست کی لیڈرشپ کئی شکلوں میں رہی ہے۔ ایک شخص کی حکومت یا کمیٹی کی حکومت یا کسی ادارے کی یا پھر قیادت کو تبدیل کئے جانا والا کوئی طریقہ ہو ۔۔۔ بالآخر لیڈر سماجی شناخت اور علامات کو شکل دیتے ہیں۔ کیا کہا جا سکتا ہے، کیا حلیہ اختیار کیا جا سکتا ہے، ان کے معیار اور حدود کو بھی۔ ان سے مشترک شناخت اور پھر مشترک قسمت بنتی ہے۔ لوگوں کے آپس کے bond بنتے ہیں۔
ریاست کے آہنی ہاتھ تلے قوم بنتی ہے۔ اگر طرزِ حکومت میں جبر بہت زیادہ نہ ہو تو اس سے ہونے والے فوائد بہت سے ہیں۔ یہ ادارہ لوگوں کو ویسے اکٹھا کر سکتا ہے جیسے شہد کی مکھیاں چھتے میں مشترک مقصد کیلئے اکٹھی ہوتی ہیں۔ اطلاعات اور معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جدتیں آتی ہیں اور اپنائی جاتی ہیں۔ اور جب قسم قسم کے لوگ آپس میں میل ملاپ کرتے ہیں تو نئے نقطہ نظر ابھرتے ہیں۔ اور سماجی ارتقا کا پہیہ چل پڑتا ہے۔ نسل در نسل معاشرہ بدلتا ہے۔ ہر نسل جو دنیا چھوڑ کر جاتی ہے، وہ اس سے مختلف ہوتی ہے جس میں وہ پیدا ہوئی تھی۔ اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ بڑی ریاست میں (لیڈروں سمیت) کوئی بھی یہ زیادہ نہیں جانتا کہ یہ کام کیسے کرتی ہے۔ (یا پھر یہ کہ اسے کام کرنا کیسے چاہیے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی آبادی والی ریاستوں کا ایک اور عنصر پیشہ ور افواج رہی ہیں۔ بغاوتیں کچلنا، علاقوں کو اپنے دسترس میں کرنا معاشروں کے لئے اہم رہا ہے۔ جنگ قدیم طرزِ زندگی رکھنے والے اور قبائل بھی کرتے رہے ہیں لیکن مقاصد کا فرق ہے۔ چھوٹے معاشروں کی صورت میں غیرمنظم حملے کئے جاتے ہیں جن میں چیف خود عسکری قیادت کرتا ہے۔
جب کہ ریاست میں جنگ پلان کرنے والا میدانِ جنگ سے بہت دور دارالحکومت میں یہ کام کر سکتا ہے۔ لڑنے والے تربیت یافتہ پیشہ ور لوگ ہو سکتے ہیں۔ اور یہ حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے کہ جیتنے کے بعد کیا کیا جائے گا۔ افرادی قوت ہی نہیں بلکہ بہتر ہتھیار، حکمتِ عملی اور کمیونیکیشن سے اپنے حریفوں کو زیر کیا جا سکتا ہے۔
عسکری تربیت میں ہمیشہ مضبوط شناخت اور اس کے ساتھ وفاداری کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ نوجوان فوجی کو کم عمری میں حب الوطنی کی علامات میں بھگو دیا جاتا ہے۔ انفرادیت کو ختم کیا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے بڑی ریاستوں کے درمیان جنگ اس طرز کی ہے جیسے چیونٹیاں کرتی ہیں۔ بڑے مقصد کے لئے جان کو قربان کرنے پر تیار افراد یہ کام پوری جانفشانی سے کرتے ہیں۔
ریاستوں کی توسیع اور انہیں برقرار رکھنے کے لئے یہ ایک بڑی جدت رہی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply