کیا تم گے(gay)ہو/ڈاکٹر راحیل احمد

جس چیز سے مجھے سب سے زیادہ مسئلہ آ رہا تھا وہ تھا گوری لڑکیوں سے بات کرنا۔ ایک دفعہ میں آرام سے بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا میری میز پر پھینکا گیا۔ میں نے اسے کھولا تو اس میں لکھا تھا، “کیا تم میرے ساتھ باہر چلو گے؟”

میں نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ یہ کاغذ کا ایٹم بم میرے ڈیسک پر کہاں سے اُڑ کر آیا ہے۔ میرے آگے بیٹھی کچھ لڑکیاں اشارہ کر رہی تھیں ایک ایسی لڑکی کی طرف جو شہر بدل کر اسی ہفتے ہمارے اسکول میں آئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پوری کلاس نے مل کر ہم دو نئے سٹوڈنٹس کا جوڑا بنانے کی سازش کی ہو۔ میں اب یہ سیکھ چکا  تھا کہ گورے teenagers اندر باہر سے کھلے ڈلے ہوتے ہیں۔ مجھے پسینہ آ رہا تھا اور جیسے ہی دن کے اختتام کی گھنٹی بجی، میں سکول سے باہر بھاگ گیا۔

اگلے دن مجھے چار پانچ لڑکیوں نے سکول کے کوریڈور میں گھیر لیا۔ ’’تم اس کے ساتھ باہر کیوں نہیں گئے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ وہ جواب ڈھونڈ رہی تھی۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

انہوں نے فالو اپ سوال پوچھا، “کیا تم gay ہو؟” میرے پاکستانی اسکول نے مجھے تحریری گرائمر، ریاضی کے سوالات کے جوابات دینے اور رٹا مارنے کی بہترین تربیت دی تھی۔ برطانوی اساتذہ میری انہی  صلاحیتوں کی وجہ سے حیران اور پریشان ہونے کے بعد مجھے ایک سال آگے پروموٹ کر چکے تھے۔ لیکن جو پاکستانی سکول نے مجھے نہیں سکھایا تھا وہ یہ تھا کہ gay کون ہوتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں 1 فیصد بھی gay نہیں ہوں۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق اس وقت برطانیہ کی %3 آبادی ہم جنس پرست ہے۔ میں یقیناً ان میں سے نہیں ہوں۔ تاہم، ہم پاکستانی اپنے مسائل سے نکلنے کے لیے جگاڑ  کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہم ایک ملک سے قرض لے کر دوسرے ملک کا قرض اُتارتے ہیں۔

اب مجھے نصف درجن گوری لڑکیوں نے گھیرا ہوا تھا اور وہ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ کیا میں ہم جنس پرست ہوں اور کیا اس وجہ سے مجھے لڑکیوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے سوچا یہ لفظ gay کا جو بھی مطلب ہو، لگتا ہے کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے یہ صحیح جواب ہے۔ جگاڑ کا وقت تھا۔ میں نے کہا ہاں میں gay ہوں۔ لڑکیاں ہنس کر چلی گئیں۔ میں نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ اچانک یہ خبر اسکول میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، نیا پاکستانی ذہین بچہ جس کی ایک سال آگے پروموشن ہوئی ہے وہ لڑکیوں سے بات نہیں کرتا کیونکہ وہ gay ہے۔ آسمان سے گِرا کَھجُور میں اَٹکا۔

اب چند لڑکے میرا دوست بننا چاہتے تھے۔ اس سے مجھے اب ایک اور بات سمجھ لگی۔ گورے نوجوانوں کے نزدیک آپ کبھی بھی سنگل نہیں رہ سکتے۔ آپ یا تو straight تعلقات میں ہیں یا ہم جنس۔ اگر آپ relationship میں نہیں ہیں، تو آپ ان کے لیے نارمل نہیں ہیں۔

دیکھے میرا چھوٹا بھائی سجیل خوش قسمت تھا۔ وہ مجھ سے ڈھائی سال   اور نبیل سے ساڑھے تین سال چھوٹا تھا۔ اس نے برطانیہ میں چھٹی جماعت شروع کی تھی جو پرائمری اسکول کا آخری سال ہے۔ سیکنڈری اسکول ساتویں سے شروع ہوتا ہے۔ ہر روز سجیل گھر آتا اور اپنے تکیہ کلام سے بات کا آعاز کرتا، “ابو آج پھر سے بات چھڑ گئی۔”
ابو: اب کیا ہوا چینے کاکے؟
سجیل (چینہ کاکا): ابو آج ہمیں گھوڑے کا بچہ پیدا ہونے کی ویڈیو دکھائی سکول میں۔ اوئے ہوئے ہوئے ۔
ابو اور گھر والے (ہنستے ہوئے): پھر۔۔
سجیل (چینہ کاکا): ابو آپ کو پتا ہے گھوڑے کا بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی چل پڑتا ہے؟

سجیل ایسی واحیات کہانیاں روز سناتا۔ گھوڑے کا بچہ پیدا ہوتے ہی چل پڑتا ہے۔۔اور ابو کے ساتھ یہ سب بحث کرتے کرتے ہمیں بھی یوکے کے اسکول میں چلنا آ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں اب جنسی تعلیم دی جاتی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر آپ کے بچے برطانیہ میں بڑے ہو رہے ہیں، تو انہیں بہت چھوٹی عمر سے ہی سب کچھ سکھایا جائے گا اور ایک کاغذ کا پرزہ اڑتا ہوا ان کے پاس بھی آۓ گا۔ تیار رہیے اور ان سے گفتگو کرتے رہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply