مریم نواز : وراثت یا حقیقت؟/محمد اسد شاہ

ہنگامہ خیز زندگی اور ہر دم بدلتی دنیا میں کالم لکھنے کے لیے موضوعات کی کوئی کمی نہیں ۔ نئے سال کا پہلا کالم لکھنے کے لیے بھی ذہن میں بہت سی خبریں اور خیالات گردش کرتی  رہیں    لیکن اچانک ایک خبر نے ساری توجہ اپنی طرف مبذول کر دی ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر کی حیثیت سے ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے جماعت کی نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کو سینئر نائب صدر، اور مرکزی چیف آرگنائزر مقرر کر دیا ہے ۔ یوں جماعت کو ہر سطح پر نئے سرے سے منظم کرنے کی ذمہ داری انھیں سونپ دی گئی ہے ۔ اس طرح مستقبل میں جماعت کی صدر بننے کے لیے بھی ان کا راستہ ہموار ہو گیا ہے ۔ کیوں کہ اس جماعت میں قائم مقام یا باقاعدہ صدر بننے سے پہلے سینئر نائب صدر بننا لازمی ہے ۔ ملک میں ایک مخصوص، محفوظ اور لاڈلی سیاسی جماعت کی طرف سے کئی سالوں سے جاری مسلسل سیاسی کشیدگی کے تناظر میں یہ خبر انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔

نواز لیگ میں بہت سے ایسے سیاست دان موجود ہیں جن کی جمہوری جدوجہد، قربانیوں اور قابلیت کو دیگر جماعتیں بھی سراہتی ہیں ۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سردار محمد یعقوب ناصر، پیر صابر شاہ، سرتاج عزیز، محمد برجیس طاہر، خرم دست گیر خان، میاں جاوید لطیف، نہال ہاشمی، سردار ماہ تاب احمد عباسی، چودھری عابد شیر علی، پروفیسر احسن اقبال، محمد اسحاق ڈار، رانا ثناء اللّٰہ خان، طلال بدر چودھری، کپتان محمد صفدر اعوان، خواجہ سلمان رفیق، عمران نذیر، عظمیٰ بخاری اور حمزہ شہباز جیسے بہت سے لوگ ان میں شامل ہیں ۔ لیکن محترمہ مریم نواز کا تشخص منفرد ہے ۔

مخالفین “موروثی سیاست” کی روایتی گھسی پٹی طعنہ بازی کر سکتے ہیں ۔ کیوں کہ محترمہ کو نواز لیگ کے قائد کی بیٹی ہونے کی وجہ سے بھی ایک اہمیت حاصل ہے ۔ عوام اور کارکنوں میں محترمہ مریم نواز نے بہت جلد مقبولیت اور عزت حاصل کر لی ۔ اس کے باوجود انھیں جماعت میں موجود پرانے تجربہ کار اور بزرگ سیاست دانوں کے مقابلے میں اپنا آپ منوانے کے لیے بہت سخت جد وجہد کرنا پڑی ۔ محترمہ مریم نواز سیاست میں اچانک اس وقت آئیں جب ان کے والد میاں محمد نواز شریف 2013 میں تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کی وجہ سے مقتدر قوتوں کے عتاب کا شکار تھے ۔ ان کے، اور نواز لیگ کے خلاف خفیہ سازشیں تو بہت پہلے سے جاری تھیں، لیکن 2013 کے بعد کھلم کھلا کارروائیاں شروع ہو گئیں ۔ بہت سے لوگ آئینی و دستوری ضوابط کی صریح خلاف ورزیاں کرتے ہوئے، اپنے اختیارات کو ان کے خلاف استعمال کر رہے تھے ۔ بعض سرکاری دفاتر تک میں “بھرپور کام ہوتا” نظر آ رہا تھا ۔ ثاقب نثار اور ان کے بعض دوستوں نے تو جیسے ہر لحاظ سے “زبردست کارکردگی” دکھائی ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بے شمار لوگوں کو نواز لیگ کے خاتمے، خصوصاً “پنجاب چھیننے” کے مشن پر لگا دیا گیا۔ بہت سے نام ور صحافیوں، تجزیہ کاروں، اینکرز اور کالم نگاروں نے اپنی ظاہری غیر جانب داری کے لبادے اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیئے ۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کے لیے پورے پورے لشکر بھرتی کئے گئے، انھیں بے بنیاد تصاویر بنانے، لاکھوں کی تعداد میں جھوٹے اکاؤنٹس بنانے، جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے، صریح جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز ٹرینڈز چلانے اور چلاتے رہنے، ننگی گالیاں لکھنے اور پھیلانے کی باقاعدہ تربیت دی گئی۔ نواز شریف کی حمایت میں بولنے والے ہر شخص کو “طلب” کر کے باقاعدہ ذلیل کرنے اور کسی نہ کسی بہانے سزا دینے کی روایت قائم کر دی گئی ۔ نواز لیگ کے بہت سے مضبوط ترین امیدواروں کو آزاد امیدوار بننے پر مجبور کیا گیا۔

ایسے کٹھن حالات میں محترمہ مریم نواز اپنے والد کی وکالت کے لیے عوام کے سامنے آئیں ۔ یہ ایک یادگار لمحہ تھا ۔ جعلی مقدمات میں اس شخص کو پھنسایا جا رہا تھا کہ جسے اس ملک کے عوام نے تین بار اپنا سربراہ منتخب کیا ۔ نہ صرف اس شخص کو، بل کہ اس کی والدہ، بیوی، بیٹیوں، بیٹوں، سمدھیوں، قریبی رشتے داروں اور سیاسی ساتھیوں تک کو مقدمات میں ملوث کیا جا رہا تھا ۔ نواز شریف کے مرحوم والد تک کے خلاف جلسوں اور نیوز چینلز میں گھٹیا الزامات شروع کیے گئے۔ ان دنوں محترمہ مریم نواز، اپنے وزیراعظم باپ کے ساتھ ان سرکاری ملازمین کے سامنے پیشیاں بھگتنے جایا کرتی تھیں، جن کا تقرر ان کے ماضی اور ذاتی تعلقات کو دیکھتے ہوئے، نامعلوم مقامات پر نامعلوم افراد نے کیا تھا ۔ ہر پیشی پر باپ کے ساتھ جاتے اور واپس آتے ہوئے محترمہ مریم نواز نہایت دلیری کے ساتھ طاقت ور قوتوں کو للکارتی تھیں ۔ ان کی دلیری اور بلند لہجے کو دیکھ کر بہت سے لوگ خوف زدہ ہو جاتے تھے ۔ محترمہ کو اس لہجے اور حق گوئی کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی ۔ وہ قید و بند، صعوبتیں، ہتھ کڑیاں، سازشیں، گالیاں، فائرنگ اور منظم تضحیک تک برداشت کرتی رہیں ۔ وہ اپنے والد کے ساتھ برطانیہ میں اپنی دم توڑتی والدہ کی تیمارداری پر تھیں جب یہاں انھیں اور ان کے والد کو قید کی سزا سنائی گئی۔ باپ بیٹی نے آخری سانسیں لیتی عورت کو اللّہ کی امان میں دیا اور خود جیل بھگتنے کے لیے پاکستان آ گئے ۔ نامعلوم خوف میں مبتلا مقتدر حلقے اس دلیری اور بہادری سے مزید خوف زدہ ہو گئے ۔ سرکاری ملازمین خاص طور پر برطانیہ جا کر ان کے جہاز میں سوار ہوئے اور لاہور کے ہوائی اڈے پر اترنے سے پہلے ہی ان باپ بیٹی کو گرفتار کر لیا جو خود گرفتار ہونے کے لیے ہی آ رہے تھے ۔ مخصوص حلقوں کے پروردہ شخص اور اس کی جماعت نے محترمہ مریم نواز کے لیے ہمیشہ بدترین الفاظ اور لہجہ استعمال کیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوس، کہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں والے 70 ، 70 سال کے بڈھے بھی ایک بیٹی اور ایک ماں کے متعلق گھٹیا زبان استعمال کرتے، اور نئی نسل کو بدزبانی سکھاتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔ خود مسلم لیگ نواز کے اندر موجود بعض لوگ محترمہ مریم نواز کی دلیری، جرات، کردار اور گفتار سے خوف زدہ ہو گئے ۔ بہت کوششیں کی گئیں کہ ان کا سیاسی راستہ روکا جائے ۔ لیکن جس طرح دریا اپنا راستہ خود بناتے ہیں ، محترمہ مریم نواز نے بھی اپنا مقام خود طے کیا ہے ۔ اس سب کے باوجود محترمہ کی سیاسی تربیت میں ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے ۔ ان کی تقاریر میں روانی اور تسلسل کا بعض اوقات فقدان محسوس ہوتا ہے ۔ عوام سے ان کا رابطہ کبھی مسلسل نہیں رہا ۔ چند دن تند و تیز تقاریر اور بیانات کے بعد کئی کئی ماہ کی خاموشی پر سوال اٹھتے ہیں ۔ ان کی حالیہ سیاسی ترقی کو بھی مخالفین وراثت کا نام دیں گے ۔ لیکن ایک غیر جانب دار تجزیہ کار کی حیثیت سے ، میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ مریم نواز شریف پاکستان کے قومی سیاسی منظر پر ایک جان دار حقیقت ہیں ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply