وہ بچھڑ گیا ،ہم مل گئے/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

365 دن اچھی اور بُری یادوں کے ساتھ غروب ہو چکے ہیں۔دنیا میں ہر سُو شور اور ہنگامہ ہے۔جشن کا سماں اور پروگرامز کی بھرمار ہے۔مذہبی جوش و خروش بامِ عروج پر ہے۔ تعمیر و ترقی کے میدان کا بازار سج چکا ہے۔ ماہرین معاشیات سرجوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیاں کر رہے ہیں۔آبادی میں مسلسل اضافہ معاشی حالات پر سوالیہ نشان بن رہا ہے۔اقوام ِ عالم ایک دوسرے کو زیر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔دنیا میں کہیں دریافتوں کا جشن ہے ، کہیں سیاست کا بول بالا ہے ، الغرض لوگ نئے ارادوں اور جذبوں کے ساتھ سال ِ نوء  میں داخل ہو رہے ہیں۔ان کے چہروں پر خوشیاں ، دِلوں میں مسرت ، آنکھوں میں امید ، زبان پر اَمن و محبت ، کانوں میں خوشخبری کی سرگوشیاں ، ہاتھوں میں برکت کا پیالہ اور پاؤں میں صُلح کی خوشخبری کے جوتے ہیں۔

اس کے ساتھ میں کچھ اداس چہروں ، بجھے دلو ں ، حلق میں غم کا نوالہ،چہروں پر افسردگی کی شکنوں ، کپکپاتے ہاتھوں ، لڑکھڑاتی چال ، زبانوں پر زہر افعی ، ذہنی الجھنوں، گلے شکوؤں ، نفرت و فرق کے آثار و کیفیات، اور دلوں میں پت جھڑ کے موسم آباد کیے ہوئے منظر نامہ کو مشاہداتی آئینے سے دیکھ رہا ہوں۔ میری آنکھوں میں دو طرح کی حقیقتوں کا عکس بنتا اور غائب ہو جاتا ہے۔میں تنہائی کے عالم میں بیٹھا ہوں۔میرے ذہن پر خیالات کا ہجوم ہے ، دل پر فکروں کا بوجھ ہے ، آنکھوں میں آنسووں کی ریل پیل ہے۔میری روح گزشتہ سالوں پر غور و خوض کرتی ہے، میری روح ہر سال کے زخموں، ارادوں ، جذبوں ، امیدوں ، امنگوں ، وفاؤں ، محبتوں ، خوشیوں ، سمتوں ، نسلوں ، گروہوں ، قبیلوں ، قوموں اور اقوام عالم کی تعمیروترقی کا جائزہ لیتی ہے۔میں تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتا ہوں ۔مجھے خون ریزیاں ، جنگیں ، دشمنیاں ، قتل و غارت ، اختیار کی ہوس ، مال و دولت کی طلب ، بغاوت ، عشق و محبت کی داستانیں، دریافتوں کے انبار ، علم و ادب کے چراغ نظر آتے ہیں ۔

میری روح مسلسل فکر و تردد کے عالم میں ان ساری باتوں کو ایک چارٹ پر فکری لباس میں پڑا دیکھتی ہے۔میری ہمکلامی مجھے دین و دنیا کے فکری ماحول میں لے جاتی ہے۔میں اس سارے ماحول میں الجھنوں ، فکروں ، آزمائشوں ، دکھوں اور مصیبتوں کو دیکھتا ہوں۔ان سارے مناظر کو دیکھ کر میری آنکھیں اشک بار ہوتی اور ان میں غم کے بادلوں کی گھٹائیں رقص کرتی ہیں۔اس سارے ماجرے سے میری آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔میری آنکھوں میں فطری طور پر شرم و حیا کا سرمہ ہے جس کے باعث بلکہ میں اپنی پلکوں کو اوپر اٹھانے کی جسارت نہیں کرتا۔میرا ضمیر مجھے بار بار جھنجھوڑتا اور ملامت کرتا ہے۔نصیحت کے کچھ کلمات میرے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔میرے ارد گرد پندونصاح پَر پھیلائے بیٹھے ہیں۔ماضی حال اور مستقبل کے واقعات کا منظر میری آنکھوں کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے۔ماضی مجھے کوستا اور پچھتانے پر مجبور کرتا ہے ۔حال میرے کانوں میں رس گھولتا ہے۔حالات و واقعات کی تصویر کشی کرتا ہے۔سب اعدادوشمار میرے سامنے رکھتا ہے۔فطری اور غیر فطری خوبیاں کھل کر میرے سامنے آجاتی ہیں۔دن بہ دن گناہ کا زور و شور مجھے سماعت سے محروم کرتا ہے۔میری زبان کچھ کہنے سے ڈرتی ہے۔میں اوندھے منہ گر پڑتا ہوں۔مستقبل مجھے ہولناک واقعات کی تصویر دکھاتا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسا ہونے والا ہے۔جہاں انسانیت، بشریت اور آدمیت شرمندگی کا لباس پہنے مجبور و بے بس کھڑی ہے۔میں پھر الجھ جاتا ہوں۔غم سے نڈھال ہوتا ہوں۔فکروں کے آنسو پیتا ہوں۔میری سوچ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔

میرا ذہن سوچتا ہے کہ نئے سال کا تو ہندسہ تبدیل ہوگا۔ پھر میرے ذہن پر ایک سوال دستک دیتا ہے۔کیا تُو تبدیل ہوگیا ہے؟ کیا تیرے ارادے اور جذبات ان چیزوں کی پیروی کرتے ہیں؟ کیا تو نے کبھی ان باتوں اور چیزوں کے بارے میں سوچا ہے؟اپنے دین و دنیا کے بارے میں فرق معلوم کیا ہے؟ میرے کانوں میں ایسے پہاڑوں کی آواز آتی ہے جس میں دوسروں کو تبدیل کرنے کی آوازیں شامل ہیں۔ وہ آوازیں میرے کانوں پر زور زور سے دستک دیتی ہیں ۔میں فوراً  اس کہاوت پر غور وخوض کرتا ہوں۔” اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت  ۔”
اس ٹھٹھرتی رات میں مجھے ایک غیبی آواز آتی ہے۔

اے میرے بیٹے! تُو کیا سوچ رہا ہے؟ تُو اپنی آنکھوں میں کن چیزوں کے مناظر دیکھ رہا ہے۔تُو نے دنیا کی تاریخ کے اوراق پلٹے ، تبدیلی کے نغمے سنے ، لوگوں کو عہد وفا کرتے دیکھا ، تبدیلی کی خوشگوار بانسری نے تجھے محصور کیا ، تیرے کانوں نے محبتوں اور خوشیوں کے کلمات سنے ، عبادات میں مصروف لوگوں کو دیکھا ، علم و ادب کی بہتات دیکھی، دکھی لوگوں کی آہ و زاری سنی ، اب تو بتا تیرے قلب و ذہن کی زمین کیسی ہے؟ تیرے محسوسات ، تجربات ، مشاہدات اور حاصلات کا جائزہ کیا ہے؟ کیا تو نے کبھی اپنی سانس کی ڈوریوں سے ان باتوں کو باندھ کر دیکھا ہے۔ان کی تپش اور سایہ محسوس کیا ہے۔کیا تیری روح خوش ہے یا زخمی ؟ لیکن یہ میں تجھے مشورہ دیتا ہوں۔تو ان باتوں کو اپنے دل کی تختی پر لکھ۔تب تجھے عزت ، شہرت اور کامیابی کا تاج ملے گا۔ لیکن پہلے تجھے توبہ اور گناہوں کی معافی کا غسل لینا ہوگا۔ تاکہ تیری فطرت اور نیت فتور  کا شکار نہ ہوں۔تیری زندگی کا سفر خوشگوار گزرے۔تجھے ارمانوں کی دولت اکٹھی کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔تیرے آس پاس رشتوں کا ہجوم ہو۔تیری صحبت کا دائرہ کار برائی سے پاک ہو، تُو جس چیز کو ہاتھ لگائے وہ پھل دار بن جائے ، تُو عمر کی درازی اور زندگی کی برکتوں سے لطف اندوز ہونا۔تُو اپنی بشری کمزوریوں کو روح القدس کی طاقت سے بدلنا، تیری فطرت کا بناؤ سنگھار اس قدر سندر ہو کہ وہ منزہ جذبوں کا عکاس بن جائے۔ تیرے پاؤں کا جہاں بھی تلوا ٹکے وہ جگہ خداوند تجھے دے دے۔ تو جو بھی خواب دیکھے ان کی تعبیر ہو، تیرے کردار میں مقناطیس جیسی طاقت ہو جو لوگوں کو اپنی طرف راغب کر لے، تیری مسکراہٹ اور خوشی میں اعصابی دلکشی کے مناظر ہوں۔میرا زور تیری طاقت ثابت ہو۔

ان باتوں کے بعد میں نے اپنی ذات کے ساتھ مصمم ارادہ باندھا۔اپنی زندگی میں نئے ارادوں اور منصوبوں کو خوش آمدید کہا۔میں اپنی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھ میں ایک عصا تھامتا ہوں۔جو میرا نگہبان اور محافظ بن کر میری مدد کرے گا جو مجھے ہر بلا اور دکھ سے محفوظ رکھے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری آنکھیں ہمیشہ آسمان کی طرف اٹھیں گئی۔میرا ایمان یہاں تک کامل ہو جائے گا کہ میں جو کچھ خدا سے مانگوں گا وہ فیاضی کے ساتھ مجھے دے گا۔میں جس چیز کو ہاتھ لگاؤں گا وہ بابرکت بن جائے گی۔میں دوسروں پر نکتہ چینی کرنا چھوڑ دوں گا۔کیونکہ میں نے اپنے گریبان میں جھانک لیا ہے۔میری فطرت میری بہترین دوست ہو گئی۔میرا کردار میری طاقت بن کر میرا ساتھ دے گا۔میں دوسروں کی فلاح و بہبود کے  منصوبے تیار کروں گا تاکہ وہ بھی اپنی پرانی انسانیت ختم کر کے نئے مخلوق بن جائیں۔ایسا تب ہی ہوگا جب میری سوچ کے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔میرا دل خدا کی محبت سے سرشار ہوگا۔میری فطرت پاکیزہ اور نیت صاف ہو گی۔
میں سمجھتا ہوں وقت نے مجھے تنبیہ اور خدا نے مجھے ملامت کی ہے۔اب میں خدا کی مرضی سے بڑھنا اور پھلنا چاہتا ہوں۔میری روح کی غذا دعا اور محنت میری تقدیر ہوگی۔میں دوسروں کو تبدیل کرنے کے قصیدے نہیں پڑھو گا کیونکہ اب میں خود تبدیل ہوگیا ہوں۔2022 تو مجھ سے بچھڑ گیا لیکن خرستس مجھے مل گیا۔جس چیز کو میں برسوں سے کر نہیں پایا اسے ٹھٹھرتی رات نے پل بھر میں تبدیل کر دیا۔میں خوشی سے اس بات کا اعلان کرتا ہوں
” وہ بچھڑ گیا ہم مل گئے۔” نٹ

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply