سایہ/جمیل آصف

بلاشبہ گھروں میں بزرگوں کی موجودگی باعث برکت رحمت اور سعادت ہوتی ہے ۔اولاد کے لیے طاقت کا باعث، معاشرے میں عزت کی پہچان اور مشیر کی حیثیت رکھتی ہے
کیونکہ عمر کا ایک حصہ انہوں نے دنیا کے نشیب و فراز دیکھتے گزارا ہوتا ہے اور چھوٹے بچوں کے لیے ایک دوست کی طرح جو انکی معصوم شرارتوں پر ان کا لیڈر بن کے ماحول خوب گرمائے ہوتا ہے دادا پوتے اور دادی پوتی کا پیار ہمیں جا بجا نظر آتا ہے ۔

یہاں تک تو بات واضح اور ایک مثالی گھر کی روشن مثال کی حد تک نظر آتی ہے ۔ لیکن بزرگوں سے نالاں رہنے والی نسل بزرگوں کے اولاد سے شکوے، گھروں میں موجود بے چینی اور پھر اس سے گھریلو نظام میں تناؤ جو پھر بدگمانی سے نفرت تک منتقل ہو جاتا ہے ۔

وجوہات پر بہت ہی کم افراد بات کرتے نظر آتے ہیں ۔دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے پہلے سوشل میڈیا میسر نہیں تھا تو یہ گھٹن اور  لاوا سینے  میں ہی پکتا رہتا اور کسی سے ان پر بات کرنے پر یہی جواب ملتا کہ” بزرگ سایہ ہوتے ہیں ۔ گھر میں جب نہیں ہو ں گے تو معلوم پڑے گا۔ ”

بات تو درست ہے، لیکن زندگی کے نئے بدلتے تقاضوں کے مطابق معاشرے  کی ضرورت سے نبرد آزما ہونے کے لیے نئی نسل کو موجودہ حالات کے مطابق کچھ فیصلے لینے  ہوتے ہیں ۔جن میں انہیں مشاورت کے ساتھ آزادانہ عمل کا اختیار چاہیے ہوتا ہے ۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ جب آپ اپنی عمر کی بہترین اننگ کھیل چکے تو صرف آپ بہت سی ذمہ داریاں اپنے بڑے بچوں پر چھوڑ کر بس ان کے لیے راہنما اور مشیر کی حیثیت سے زندگی میں آسانیاں پیدا کریں، ہمارے ہاں بزرگ  اختیار دینے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔زندگی میں کسی بھی کام کے لیے فطرت نے ذہنی اور جسمانی برداشت کی حد طے کی ہوئی ہے جسے ایک مدت یا اپنی صحت کے مطابق ریٹائرڈ ہو جانا چاہیے جیسے ملازمتوں میں طے شدہ ہے تاکہ نئے آنے والے خون سے نظام حکومت کو چلا جا سکے ۔
مگر ہمارے ہاں نجی زندگی میں کوئی بھی بزرگ گھریلو نظام میں ریٹائرڈ ہونے سے معذوری ظاہر کرتا ہے جس کی بنا پر بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے ۔

بہت سے اہم فیصلے جو معاشی معاملات کے ساتھ خانگی امور سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے زندگی میں بہتری کی امید ہوتی ہے بزرگوں کی جانب سے ویٹو کر دئیے جاتے ہیں ۔

اسی حاکمانہ سوچ کی بنا پر بچوں کی حقیقی خوشیوں اور انکی صلاحیتوں کو دیمک لگ جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جن گھروں میں بھی والدین نے اپنی اولاد کو وقت کے ساتھ ساتھ انہیں اعتماد بخشا اور ذمہ داری اٹھانے کی تربیت دی وہ لوگ پچھلی عمر میں بہترین صحت مند بڑھاپا گزار گئے۔
لیکن جن لوگوں نے اس خوف کے ساتھ زندگی گزاری کہ بچے بہتر فیصلہ نہیں کر پائیں گے یا اگر سب کچھ ان کے پاس چلا گیا تو وہ ہمارا خیال نہیں رکھیں گے۔۔ ان کی زندگی کے ایام بیماریوں، پریشانیوں کے ساتھ معاشی تنگدستی اور اولاد کے  بگاڑ کی صورت نظر آتے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply