شمال کی جانب ہجرت کا موسم/مبصر؛حمزہ یعقوب

 مصنف: طیب صالح  
مترجم: ارجمند آرا  
آدمی کو زندہ رہنے کے لیے ہوا پانی اور خوراک کے علاوہ شناخت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سننے میں بظاہر بہت سادہ سے سوال “آپ کون ہیں” کا جواب دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ کے پاس کوئی ایبسولیوٹ فریم آف ریفرنس موجود نہ ہو۔ اپنی جائے پیدائش سے یورپ یا کسی ایسے خطہ ء ارض کی طرف ہجرت کرنا جہاں بیشمار جغرافیائی اور ثقافتی خطوں سے آئے ہوئے لوگ موجود ہوں، ایک خاص قسم کے شناختی بحران کو جنم دیتا ہے جسے قومیت، پاسپورٹ، زبان، نسل، رنگ یا کسی اور ریلیٹو فریم آف ریفرنس سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں برادر عزیز قاسم یعقوب اکثر ایک بڑی دلچسپ بات کہتے ہیں “ہم دیہات سے نکل آتے ہیں لیکن دیہات ہمارے اندر سے نہیں نکلتا”۔ یورپ آ کر میں بھی اس تجربے سے گزرا اور شاید اسی لیے محض چھ ماہ کے قیام کے بعد ہی پاکستان لوٹ آیا تھا۔ شناختی بحران کے اس مسئلے میں دیگر سماجی حقائق بھی پیچیدگی کا باعث بنتے ہیں، مثلاً استعماری معاشروں اور اپنے آبائی معاشروں کا تقابل، لسانی رکاوٹیں اور انفرادی زندگی کی آزادی کا تجربہ۔ اسی شناختی بحران، عشق/محبت/نفرت کی مختلف تعریفوں، اور رد استعماریت کے تحت جنم لینے والے  رویوں کی کہانی طیب صالح نے دو اشخاص کی زندگی کے پلاٹ سے ترتیب دی ہے جنہوں نے کئی سال یورپ میں گزارے اور اس کے بعد دریائے نیل کے کنارے بسے ایک قدیم دیہات میں منتقل ہو گئے۔ تعیشاتِ زمانہ کو ترک کرنا ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے، یورپین طرز زندگی کا عادی ہونے کے بعد پاکستان واپس آ کر پاکستانی طرز معاشرت اختیار کرنے میں مجھے بھی بہت دِقت ہوئی لیکن اس کے باوجود میں خوش تھا کہ میں اس شناختی بحران سے بچ نکلا جس نے یورپ میں مجھے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا، تاہم شمال کی جانب ہجرت کا موسم کے دو مرکزی کردار کردار مصطفیٰ سعید اور ناول کے راوی اس شناختی بحران کا مقابلہ الگ الگ انداز میں کرتے ہیں۔

مصطفی سعید یورپ سے واپس آ کر اس گاؤں میں بھی چین سے نہیں رہ پاتا کیونکہ محض کسی جگہ پیدا ہونے کا عمل شناخت کا جواز نہیں پاتا۔ اسی طرح ناول کے راوی کی شناختی کشمکش بھی خرطوم اور آبائی گاؤں کے درمیان بھٹکتی رہتی ہے۔ وہ خود میں مصطفی سعید سے مماثلت تلاش کرتا ہے اور مصطفی سعید بھی راوی کو اپنا قائم مقام مقرر کر جاتا ہے۔ ناول کسی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے شناختی بحران کی کشمکش کے ایک موڑ پر ختم ہو جاتا ہے اور قاری کے ذہن میں بیشمار سوال باقی رہ جاتے ہیں جن کا جواب مصنف نے متن کے بجائے قاری کی ذاتی استبداد پر چھوڑ دیا ہے۔ ناول کا ترجمہ بے حد عمدہ ہے۔ ٹائپنگ کی اغلاط حسبِ معمول موجود ہیں جن کا ازالہ صرف  پروف ریڈنگ سے ہی ممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ارجمند آرا معروف مترجم ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے عالمی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی جو سعی جاری رکھی ہوئی ہے، وہ مجھ سمیت عالمی ادب کے بہت سے شائقین کی سرشاری کا باعث بنی ہوئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply