مانچسٹر سے مراکش تک(سوم،آخری حصّہ )-فرزانہ افضل

ایسویرا سے واپس آ کر ہمارا رات کا کھانا ریاد میں تھا۔ جو کہ ایک اچھی خاصی بار بی کیو دعوت تھی۔ کیونکہ یہ مراکش میں ہماری آخری رات تھی۔ اگلے روز یعنی پانچویں دن ہم اپنا سامان پیک کرکے اٹلس کے پہاڑوں میں موجود املیل وادی میں پہنچ گئے۔ وہاں بھی ہمارا قیام ریاد یعنی ایک چھوٹے ہوٹل میں تھا۔ سامان رکھ کر ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر چہل قدمی کے لیے گاؤں کی مقامی دکانوں پر گئے۔ ہمیں ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی لہذا وہاں سے دو عدد سکارف خریدے ۔ نومبر کے مہینے میں مراکش میں سردی شروع ہو جاتی ہے اور پہاڑوں میں تو شام کے وقت کافی ٹھنڈ ہوتی ہے اس کے علاوہ مزید جیولری اور ایک عدد مراکش دری خریدی۔ واپس آ کر آرام کیا، رات کا کھانا وہیں کھایا۔

اگلے دن ہماری گائیڈ سعیدہ نے اپنے گھر ہمیں کوکنگ کلاس کے لئے مدعو کیا تھا۔ سو ہم پہاڑی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے سعیدہ کے گھر پہنچے۔ جہاں اس کی والدہ ہماری منتظر تھیں۔ سبز چائے اور ڈرائی فروٹ سے تواضع کے بعد ہماری کوکنگ کلاس شروع ہوئی۔ جس میں ہمیں لیمب تاجین بنانا تھا۔ خیر ہم سب نے باری باری تھوڑی بہت سبزیاں کاٹیں اور تیاری کی شروعات دیکھیں ،سارا کام تو سعیدہ کی والدہ ہی کر رہی تھیں، ہم تو یوں ہی پوری ترکیب دیکھ رہے تھے۔ جب گوشت اور سبزیاں چولہے پر چڑھ گئیں تو سعیدہ نے کہا کہ اس کو تیار ہونے میں کم ازکم ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگے گا لہٰذا پروگرام کے مطابق اب ہم پہاڑوں پر چڑھائی کرنے جائیں گے۔

اب یہ مشکل ترین مرحلہ تھا ۔۔سیدھا سیدھا چلنے میں تو ہمیں کوئی دقت نہیں مگر پہاڑوں پر اونچے نیچے راستوں اور پتھروں پر سنبھل کر پیر رکھنا کہ ہم کہیں پھسل نہ جائیں ہماری جان جاتی تھی ۔ خیر ہمارے ایک نوجوان گائیڈ نے ہماری کافی مدد کی۔ پہاڑوں کی اونچائی میں واقع اورنج جوس کے سٹال سے تازہ اورنج جوس پیا۔ ان پتھریلے پہاڑی راستوں اور پگڈنڈیوں پر نہ تو موٹر سائیکل جاسکتی ہے نہ ہی کوئی اور سواری ، لہٰذا گاؤں میں سواری اور مال برداری کے لیے اکثر لوگوں نے گدھے پال رکھے ہیں۔ ہمارے گروپ نے باہمی مشورے کے تحت ایک گدھا اسکے مالک سمیت کرائے پر لے لیا تھا تاکہ اگر کسی کو چلنے میں مشکل ہو یا تھکن ہو جائے تو باری باری اس پر سوار ہو جائیں ۔ ہم نے تجربے کے طور پر گدھے کی سواری کی ، خوب انجوائے کیا۔

پہاڑوں میں بسنے والوں کی دنیا ہی الگ ہے ۔ سادہ دل ، معصوم ، محبت بھرے لوگ ہیں اور یوں لگا کہ دنیا کے جس ترقی یافتہ حصے سے ہم آئے ہیں یہ دنیا اس سے بالکل کٹی ہوئی اور الگ تھلگ ہے۔ گوکہ بجلی ، پانی، سلنڈر گیس اور انٹرنیٹ کی سہولیات موجود ہیں۔ خیر پہاڑ سے آ کر ہم سعیدہ کے گھر واپس پہنچے تو سہ پہر ہو چکی تھی اور گرما گرم لیمب تاجین تیار ہو چکا تھا۔ ہم کھانے سے خوب لطف اندوز ہوئے۔

یہ 18 نومبر اور جمعہ کا دن تھا۔ بچے باہر کھیل رہے تھے، ہم نے استفسار کیا کہ بچے سکول کیوں نہیں گئے تو بتایا گیا کہ آج مراکش کا یوم آزادی ہے مراکش 1955 میں فرانس سے آزاد ہوا تھا۔ مراکش کا آئین پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ کے ساتھ بادشاہت فراہم کرتا ہے 17 جون 2011 کو بادشاہ محمد ششم نے اصلاحات کا اعلان کیا جو مراکش کو ایک آئینی بادشاہت میں تبدیل کر دے گی۔اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ نے 2019 میں مراکش کو ہائبریڈ حکومت کا درجہ دے دیا ۔ مراکش کے موجودہ بادشاہ محمد ششم نے 1999 میں تخت سنبھالا تھا ۔ مراکش کے آئین میں خواتین کی مساوی حقوق کی شق شامل ہے۔ 2011 کے آئین کے آرٹیکل 19 میں کہا گیا ہے، ” مرد اور عورت برابری کے لحاظ سے شہری ، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی کردار کے حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔” یہ صنفی اور ازدواجی مساوات کی عمومی ضمانت ہے۔

خیر ہم نے کھانے کے بعد سعیدہ کی والدہ کو شکراً کہہ کر گلے مل کر ان سے رخصت لی۔ چونکہ ہم پہاڑوں پر ٹریکنگ سے بہت تھکے ہوئے تھے لہذا ہوٹل جاکر سو گئے۔ دوپہر کا کھانا دیر سے کھایا تھا تو رات کو زیادہ بھوک نہ تھی لہذا ہم نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اس میں ہریرہ سوپ شامل تھا۔ یہ مکس دالوں کا سوپ ہوتا ہے جسے بریڈ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اگلی صبح ہماری روانگی تھی۔ اور یہ ہمارا مراکش کی سرزمین پر آخری دن تھا۔

ہم صبح ناشتے کے بعد مراکش کی طرف روانہ ہوگئے۔ گروپ کی خواتین کی فرمائش تھی کہ راستے میں سوک یعنی مارکیٹ جو ایک طرح کا ہفتہ بازار لگا ہوا تھا وہاں پر رکا جائے۔ وہاں سے بہت سستے داموں چیزیں مل جاتی ہیں مگر پھر بھی بھاؤ تاؤ ضرور کرنا پڑتا ہے۔ پورے مراکش میں دکانداروں کا رویہ ٹورسٹ کے ساتھ ایسا ہی ہے یعنی وہ اصل قیمت سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر دام بتاتے ہیں۔ اور پھر بحث کرنے پر گھٹا بھی دیتے ہیں۔ بلکہ آدھی قیمت پر راضی ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں یہ فائدہ تھا کہ ہمارے گروپ میں ایک مراکش خاتون تھیں جو مراکش کی مقامی زبان عربی میں ان سے بحث مباحثہ کر لیتی تھیں۔ مراکش میں دوسری بولی جانے والی زبان فرانسیسی ہے۔ ایک خاتون بیلجیم سے آئی تھیں مگر ان کی پیدائش اور بچپن مراکش میں گزرا تھا۔ لہذا وہ عربی اور فرانسیسی دونوں زبانیں روانی سے بولتی تھیں۔

ہم سب نے وہاں سے ڈرائی فروٹ لیا جو مراکش کی ایک اسپیشلٹی ہے۔ سبزیوں کی دکانوں پر زمین پر کپڑا بچھا کر تازہ رنگا رنگ سبزیوں کے ڈھیر لگاۓ گئے تھے۔ جو بہت خوبصورت نظر آ رہے تھے ۔ اس قدر تازہ اور کھلے ہوئے ہرے رنگ کا دھنیا اور پودینہ ہم نے یو کے میں کبھی نہیں دیکھا۔ ساری سبزیاں اورگینک تھیں۔ تازہ مچھلی کے چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ بھی تھے ۔ جن میں تازہ مچھلیاں فرائی  اور گرل کی جا رہی تھیں۔ یہ نظارہ دیکھ کر بھوک لگنے لگی تھی۔ مارکیٹ کے ایک طرف بکریاں اور بھیڑیں بھی بک رہی تھیں۔ ایک دوکان میں ڈاکٹر صاحب کا کلینک نظر آیا اس پر وہ کسی کے پاؤں پر تیل مالش کرکے پٹی باندھ رہے تھے۔ میرے اندازے کے مطابق وہ کسی ہڈی یا جوڑ چڑھانے والے کا کلینک تھا ۔ گائیڈ نے ہم سب کو متنبہ کیا کہ یہاں پر انکی تصویریں نہ بنائی جائیں۔ کیونکہ لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔

خیر سوک سے شاپنگ کے بعد ہم جامعہ الفنا میں گئے وہاں کچھ دیر کے لیے ہم سب نے بگھی کی سواری کی۔ کچھ خواتین نے وہاں سے مہندی لگوائی۔ چونکہ وقت کم تھا اور ہمیں مینارہ مال جانے کی چاہ تھی لہذا ہم انار کا تازہ جوس لے کر وہاں سے نکل آئے اور مینارہ مال چلے گئے۔ وہاں پر ہم نے انگلش فاسٹ فوڈ لنچ کیا اور خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ چھ روز سے تاجین کھا کھا کر ہمارا دل بھر چکا تھا۔ کیونکہ یہ گروپ ہالیڈے تھی اور اس میں پورا پروگرام طے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال اس کے بعد ہم نے جلدی جلدی ہلکی پھلکی شاپنگ کی اور ہمارے گائڈز کا شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہا اور مینارہ ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہماری فلائٹ رات 8 بجے کی تھی۔ ہم سب مراکش کی حسین یادوں سمیت خدا کے فضل سے زات کے بارہ بجے مانچسٹر پہنچ گئے۔ کہتے ہیں زندگی میں کوئی خوش گوار واقعہ رونما ہو اس کی خوشی منانے کے لئے سفر کیجیے ۔ اور اگر کوئی دکھی یا بدنما واقعہ پیش آ جائے تو اس کو بھلانے کے لئے سفر کیجیے ۔ اور اگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہو تو کچھ نیا کرنے کے لیے سفر کیجیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply