معمورہ احساس میں /رضوانہ سیّد

اپنی پیاری سہیلی نعیم فاطمہ کی پوسٹ دیکھی کہ کس طرح طبقہ امرا ء محل نما گھر بنا رہا ہے ، تقریبات منعقد کر رہا ہے ۔ ان کے غم کچھ اور ہیں، مسائل کچھ اور ۔
ملک میں کیا ہا ہا کار مچی ہے ۔ عوام مسائل کے کن انباروں تلے دبے ہیں ۔ذ لت اور پستیوں کی کیسی دلدلوں میں دھنستے چلے جا رہے ہیں ۔ اس سے ان طبقہ بالا والوں کو کوئی سروکار نہیں ۔

بہت بھاری دل کے ساتھ وٹس ایپ کھولا اسلام آباد سے میری ایک اور بہن جیسی سہیلی اور پڑوسن نے میری مزاج پُرسی کے لئے پیغام بھیجا تھا ۔ ساتھ ہی اس نے اطلاع دی کہ شاہدہ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ ابھی اس کا بیٹا صرف چھ ماہ کا تھا ۔ اسکے لئے دعا کرنا۔ ساری عمر سے میرا یہ حال رہا ہے کہ چھوٹی سی خوشی مجھے بہت خوش اور چھوٹا سا غم بہت اداس کر دیتا ہے اور اب بیماری نے تو میرا دل بہت ہی نرم کر دیا ہے ۔ بات بے بات آنسو نکلے چلے آ تے ہیں ۔اس بات نے مجھے شرمندہ کر دیا کہ میں شاہدہ کے لئے دعا کروں ۔

میں پہلے یہ بتا دوں کہ شاہدہ کون تھی ۔ ہمارے محلے کے ایک نو تعمیر گھر کے تہہ خانے میں ایسے بہت سے خاندان رہتے تھے جو سرائیکی علاقے سے اسلام آباد روز گار کی تلاش میں آ ئے تھے ۔ مرد محنت مزدوری کرتے تھے ۔ عورتیں گھروں میں کام کرتی تھیں ۔ کچھ عرصہ شاہدہ نے میرے پاس کام کیا ۔ اچھی سادہ سی عورت تھی ۔ اسکی ایک ہی سات آ ٹھ سال کی بچی تھی جو اس نے ایک ڈاکٹر کو دے دی تھی ۔ ہفتے میں ایک دن بچی اپنے والدین کے پاس آ تی تھی ۔ وہ نیک دل ڈاکٹر بچی کو پڑھا بھی رہی تھی ۔ شاہدہ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی کمائی سے پیسے جمع کر کے تعویذ گنڈے کرواتی ہے تاکہ اللّٰہ اسے بیٹا عطا کرے مگر تین بیٹے پیدا ہوتے ہی مر چکے ہیں ۔ میں نے اسے سمجھایا کہ تم صاحب اولاد ہو ۔ اپنی محنت سے کمائی رقم ان چکروں میں نہ اجاڑو مگر اسے خدشہ تھا کہ بیٹے کی خاطر شوہر کے گھر والے اسکی دوسری شادی کر دیں گے ۔ جب وہ میرے پاس کام کر رہی تھی تب وہ امید سے تھی اور پھر اللہ نے اسے ایک بیٹی سے نواز دیا ۔ وہ صرف ایک ماہ کی بچی کو لا کر فرش پہ ڈال دیتی اور خود صفائی میں لگ جاتی۔ میرے لیے یہی بہت بڑی اذیت تھی کہ اس نے اپنی ایک بہن کو بھی ساتھ لانا شروع کر دیا ۔ یہ ایک بہت ہی کائیاں اور تیز طرار عورت تھی نا  صرف خود کام میں ڈنڈیاں مارتی تھی بلکہ شاہدہ کو بھی نئے نئے گُر سکھا رہی تھی ۔ میں نے شاہدہ کو سمجھایا کہ   بہن کو کہو کہ وہ گھر میں رہ کر بچی کو سنبھالے اور تم جیسے پہلے کام کرتی تھیں کرتی رہو ۔ مگر اسے یہ مشورہ پسند نہ آ یا اور وہ کام چھوڑ گئی ۔ کافی دن بعد میں نے اسے اپنی سہیلی کے گھر کام کرتے دیکھا ۔ وہ بھی عزت سے پیش آ ئی اور میں نے بھی ہمیشہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا ۔

وہ نجانے کتنے گھروں میں کام کرتی تھی ۔ مگر مفلوک الحال اور خرابی صحت کا شکار نظر آ تی تھی ۔ وجہ تو مجھے معلوم تھی مگر سمجھانا بیکار تھا اور اب معلوم ہوا کہ اس دھن کی پکی نے رب سے بیٹا حاصل کر ہی لیا مگر خود زندگی ہار بیٹھی ۔

مجھے رونا اس بات پہ آ یا کہ ہو سکتا ہے میں نے ہی کبھی زیادتی کر دی ہو کہ جب وہ اپنی چالاک بہن کو لانے لگی تھی ۔ مجھے اس پہ بہت غصہ آنے لگا تھا ۔مگر میں دل سے یہ یقین رکھتی ہوں کہ جس طرح اس ملک میں عوام کی اکثریت کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر عرصہ حیات ان پہ تنگ کیا گیا ہے ۔ جاں توڑ محنت کے عوض انہیں بھوک، ننگ اور جہالت عطا کی گئی ہے تو اللّٰہ کے ہاں ان کا ہاتھ ہو گا اور ذمہ داروں کے گریبان ہوں گے ۔

سچ پوچھیے تو عدم نے اپنے اس شعر میں ان اسّی فی صد عوام کی ترجمانی کی ہے جن کالہو نچوڑ کر باقی کا بیس فی صد طبقہ بالا اس پاک سر زمین پہ محلات تعمیر کر کے عیش و نشاط میں مصروف ہے ۔
اے خدا اب تیری فردوس پہ حق ہے میرا
تو نے اس دور کے دوزخ میں جلایا ہے مجھے

Advertisements
julia rana solicitors

سو دعا کی ضرورت ان معصوموں کو نہیں ہمیں ہے اور ہم سے زیادہ ان بدقسمتوں کو جو آ نے والی سات نسلوں کے لئے دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply