خاکہ خنجر چچا کا / غضنفر

گلشنِ بے خار سے صبا چلی، خوشبو میں ڈھلی، درِ خنجر تک آئی۔ نامہء شاگردِ صرصر یعنی غضنفر دستِ خنجر پر دھر کر بولی،شاگرد خاص نے تمہارے واسطے کیسے کیسے گل بوٹے ٹانکے ہیں۔ پڑھو اور دیکھو رقعہ آئینہ شفاف ہے کہ تودہء حجر کا حجر ہے اور میاں شاگرد آزر زیرِ حجاب ہے۔
القصہ مختصر یہ کہ رخِ نامہ سحر خیز سے گھونگھٹ اُٹھایا، غضب چاند سا چہرہ نکل آیا۔ فرزند تابع دار نے خاکہ اُڑایا نہیں خاکہ جمایا ہے۔ شبدوں کا جادو جگایا ہے۔
خنجر حجرہء ہفت بلا میں عجب بے کلی کا شکار ہے، قلم کا تیر، نہ خیال کی تلوار ہے۔ میاں غضنفر بادِ صرصر کے حوالے دعائیں میری، ملجاوے تو قسمت تیری۔خنجر چچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیائے اردو میں کبھی یہ جاننے کی خواہش اتنی شدت سے نہیں جاگی کہ کسی فرضی نام سے لکھی گئی کسی اصلی تحریر کا محرر کون ہے ؟ مگر جب چہرہ ء کتاب یا کتاب چہرہ پر یکایک ہے بہ پے کچھ خوں چکاں تحریریں ابھریں تو تقریباً سارے ہی ادبی کان کھڑے ہو گئے یہ جاننے کے لیے کہ یہ خامہ ء خوں ریز والا خنجر کون ہے ۔اور کھڑے کانوں میں یہ تجسس بھی اٹھ بیٹھا کہ یہ راز بھی فاش ہو کہ خنجر کے سر پر کون ہے ؟

اس خواہش نے مجھ میں بھی انگڑائی لی کہ میرے ذہن کے پردے پر خنجر کے سکندر کا پرتو اُبھر آئے۔میرے ذہن سے زنگ ہٹ جائے کہ تصویر منعکس کرنے والا زنگار اور گاڑھا ہو جائے ۔

وہ جو دوسروں پر خنجر چلائے ہے ۔شخصیت پر چرکے لگائے ہے۔ کردار کے پر خچے اُڑائے ہے ، پرتوں کو اُدھیڑ کر سات پردوں سے مال و منال نکال لائے ہے۔ نہاں خانوں کی سیاہیوں سے ویران آنکھوں میں چراغ جلائے ہے ۔دلوں میں گل کھلائے ہے اور اداس چہروں کو بھی گلنار بنائے ہے۔

ذرا اس کے قریب جایا جائے ۔ اس کے اس خامہ ء خوں ریز اور رفتارِ خیال ِانگیز پر ذہن کو جمایا جائے۔نوکِ کلک کی دھار پر دیدہ گڑایا جائے اور یہ جانا جائے کہ خلقت ِخلاق کو خوں چکاں کرنے والے خامہ ء بے خوف اسلحے بے خوفی کی تاب و تب کیا ہے؟آتش ِدہر میں بے خطر کود پڑنے کا سبب کیا ہے ؟ اس حیرت انگیز ڈھب کا چھب کیا ہے ؟

یہ بھی جی میں آیا کہ جانا جائے کہ اس کے قلم میں برہنہ شمشیر والی براقّیاں کیوں کر آتی ہیں ؟ کڑے پہروں میں بھی اس کی بے باکیاں مانند ِمار ِسیاہ اپنے پھن کیسے پھیلانی ہیں ؟ جسم وجان میں دندان ِبے امان کیسے گڑوتی ہیں ؟ رگ و ریشے میں زہر ِہلاہل کیسے سموتی ہیں ۔ صحراؤں کو کیسے بھگوتی ہیں ۔ دریاؤں کو کیسےخشکیوں میں ڈوبوتی ہیں؟

خامہ ء خنجر میں وہ روشنائی کہاں سے آتی ہے جو سیاہیوں کے مرقعے بناتی ہے۔ سیاہ مرقعوں میں روشن رنگ دکھاتی ہے ۔گلہاے رنگا رنگ کھلاتی ہے ۔کسی کے دل و دماغ کو قہقہِ زار تو کسی کے قلب ونظر کو اشکبار بناتی ہے ۔

وہ لفظ کہاں سے آتے ہیں جو دریائے لطافت کے دریا بہاتے ہیں ۔بحرِ فصاحت کے گوہر لٹاتے ہیں ۔آئینہ ء بلاغت کے عکوس لہراتے ہیں ۔فسانہء عجائب سے لعل بدخشاں لاتے ہیں۔ باغ و بہار کے انوکھے پھول کھلا تے ہیں ۔طلسمِ ہوش ربا کے سامانِ ہوش ربائی سجاتے ہیں ۔ اہل ِدانش کے بھی ہوش اڑا تے ہیں ۔
بیان وبدیع کے کرشمے دکھاتے ہیں ۔سر سنگیت سناتے ہیں ۔سامع و قاری کو مست بناتے ہیں ۔انھیں عالم وجد میں پہنچاتے ہیں ۔ان سے رقص کراتے ہیں ۔

اس پردہ کشائی کی تمنا بھی جوش مارتی ہے کہ
پردہ ء خفا میں بیٹھا ہوا خنجر نام کا ایک شخص جلوتوں سے جلوہ ء صد رنگ کیوں کر لاتا ہے ۔اس کا ارژنگ ِقلم نیرنگِ زمانہ کیسے سجاتا ہے۔ دور پردوں میں پڑی نیرنگیوں کو کیسے پاتا ہے ؟

انھیں حرف و صوت کے کینوس پر کیسے اتارتا ہے ؟ ان کے خط وخال کو کیسے ابھارتا ہے ۔گیسوے تار تار کو کیسے سنوارتا ہے ۔ مواد بے سواد کو کیسے نکھارتا ہے ؟

جی چاہا کہ یہ بھی جانیں کہ وہ اپنے خلوت کدے میں بیٹھے بیٹھے خانہ ء خلقت میں کیسے پہنچتا ہے ؟ بند آنکھوں میں یک لخت نہاں خانے کھل جائیں ایسا اپنے مراقبے وہ کون سا چلہ کھینچتا ہے؟ آن کی آن میں شگوفے پھوٹ پڑیں وہ اپنے تخلیقی پودوں کو ایسے کیسے سینچتا ہے۔ وہ کیا کر تا ہے کہ بند کمروں کی سیاہیاں، پر دے کے پیچھے کی پرچھائیاں اور قبروں میں دفن کی گئیں رسوائیاں بھی اس کے ہاتھ آجاتی ہیں ۔

خنجر کا سراپا تو سراسر خنجری ہے مگر اس کے تیور میں میزائیلی عہد کی برق منظری بھی ہے ۔آلاتِ جدیدہ سے با خبری بھی ہے ۔ اور نئے انداز کا احساسِ برتری بھی ہے ۔ اس کے تیور میں وہ تیر ہے کہ چھوٹتا ہے تو سیدھے سینے میں پیوست ہوتا ہے ۔ دل میں زیر آلودہ نوک چھوتا ہے ۔ رگوں میں درد اور ٹیس بوتا ہے ۔

آنکھیں حیرت کناں ہیں کہ ساغرِ قدیمہ میں شرابِ جدیدہ ضو فشاں ہے۔ کلاسیکی اسلحے سے نئی بارودی چمک عیاں ہے ۔ نہ آگ ہے نہ دھواں ہے مگر سیل آتشِ رواں ہے ۔ اس کے لاوے سے ہر ایک دل ،ہر ایک دماغ میں آتش فشاں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ جامِ جم اس کے ہاتھ آ گیا ہے۔ بزرگوں کا اس پر کیا گیا دم اور دم پا گیا ہے۔ یہ اسی جام ِجم اور کرشماتی دم کا کرشمہ ہے کہ اندازِ خنجری جدید لسانی آلات ِحرب پر چھا گیا ہے ۔ طرز ِخنجر نے وہ کاٹ دکھائی ہے اور لہو کی ایسی بوندیں ٹپکائی ہیں کہ بہتوں کے دل انھیں دیکھ کر فرطِ مسرت سے اچھل پڑے ہیں اور بے شمار خامے انھیں چاٹنے نکل پڑے ہیں۔

مقام حیرت تو یہ ہے کہ جس کے کارناموں کی چار وں طرف ہوا ہے ۔ جس کے شور سے ہر گلی کوچے میں ہنگامہ خیز فضا ہے, وہ کارساز کارتوس جدیدہ کسی دبیز پردے میں چھپا ہے ۔

اعلیٰ  ظرفی میں وہ فاروقی سے سِوا ہے کہ سوار والے فاروقی زیادہ دنوں تک بینی پرساد ورما نہیں بنے رہ سکے ۔جب دیکھا کہ فسانے کا فسوں دنیا پر چل گیا ہے۔ قصہ زمین سے اوپر اچھل گیا ہے ، ان کی کہانیوں کے تئیں قارئین وسامعین کے ذوق وشوق کا سماں بدل گیا ہے تو وہ بینی پرساد ورما کے خول سے باہر نکل آئے اور شہرت وسند یافتہ کہانیوں پر اپنا دعویٰ ٹھوک دیا ،بینی پرساد ورما کے سینے میں چھرا گھونپ دیا مگر شہرت اور مقبولیت کی سند کے باوجود خنجر کے پیچھے چھپے فن کار نے ایسا نہیں کیا ۔اس نے ابھی تک کریڈٹ نہیں لیا۔ کسی کو بھی اپنے ہونے کا سُن گُن نہیں دیا ۔

میرے ذہن متجسس نے بہت چاہا کہ یہ راز کھل جائے کہ کون ہے اس پردہ ء زنگاری میں ۔ہاتھ کس کا ہے اس نوع کی فن کاری میں؟ کون ہے بر سرِ عمل اس ہشیاری میں ؟

کبھی ذہن الف کی طرف گیا تو کبھی خ کی جانب مڑا،کبھی ح کی سمت پلٹا تو کبھی آگے بڑھ کر ص کے پاس رکا مگر کسی کے خامے میں وہ روشنائی نظر نہیں آئی جس سے سیاہی روشن ہوتی ہے جو زمین صفحہ ء قرطاس پر رنگ و آہنگ بوتی ہے ۔ جو حرف و صوت میں خوشبو سموتی ہے۔جو ست رنگی دھنک تانتی ہے ۔ جس کا لوہا دنیا مانتی ہے ۔جسے نگاہِ نقد پہچانتی ہے ۔

مگر اتنا طے ہے کہ اس کار ِجنوں خیز کو کرنے والا اسی خطہ ء سر زمین زرخیز کا باسی ہے جس نے گوتم کو  گیان اور موکش کا سامان دیا ۔ دشمن کی چالوں کو چوپٹ کر دینے والی نیتی چانکیہ کو پردان کیا ۔ چتورائی سے بھری ایسی نیتی جس سے شہنشاہوں کے سنگھاسن ڈول گئے۔ کبھی نہ کھولنے اور ہمیشہ چپ رہنے والے جاسوس بھی اپنے لب کھول گئے۔بڑے بڑے گھاگھ اور ٹگڑمی بھی بول گئے۔

جس نے کلیم الدین احمد جیسے نڈر نقاد کو پیدا کیا جس نے اپنے نئے تنقیدی بولوں اور بم گولوں سے روایت کے کٹر پاس داروں کے ساتھ ٹکر لیا ۔ جس نے غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن اردو ادب کے تنقیدی سرمائے کو معشوق کی موہوم کمر بنا دیا ۔ جس سر زمین نے بھینس کی پیٹھ پر بیٹھا کر ایک گدی سے پرندہ پکڑنے والی گاڑی کا قصہ لکھوا دیا اور دوسرے گدی کے ہاتھوں کوئلے کی کان کے اندر سلگنے والے فائر کو باہرنکلوا دیا۔ جس نے صرف ایک انسان سے ایک نادر ونایاب کتابوں کا خزانہ جمع کرکے ساری دنیا میں ڈنکا پٹوا دیا۔

میرا جی چاہتا ہے کہ وہ انسانوں کے بخیے ادھیڑنے کے ساتھ ساتھ اس سسٹم کی بھی دھجیاں اڑا دے جو انسانوں کو کسی سانپ کی طرح اپنی کنڈلی میں کستا جا رہا ہے۔ انھیں لمحہ لمحہ ڈستا جا رہا ہے ۔ جس کا زہر رگ و ریشے میں بستا جا رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply