خطبہ جمعہ اور ہیپی نیو ائیر/شاکر ظہیر

جمعہ کا خطبہ بھی مولوی کےلیے دل کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ کوئی خاص دن قریب ہو تو موضوع خطبہ ہی وہ ہوتا ہے ۔ جیسے رمضان سے پہلے زکوٰۃ سے حصہ لینے کی کوشش پہلے تو خرچ کرنے پر ابھارنا ہے پھر اس خرچ کا رخ اپنی طرف موڑنا ہے ۔ لوگ بھی اب اس کے عادی ہو گئے ہیں ۔ بڑا مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ویلنٹائن ڈے یا نیو ائیر قریب ہوتا ہے ۔ ویسے مصروف زندگی میں ان کی آمد کی اطلاع کا ذریعہ بھی مولوی صاحب ہی ہوتے ہیں ۔ ویلنٹائن ڈے کے خطبے پر ایڈورٹائزنگ اتنی کمال کی ہوتی ہےکہ ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ دسمبر کے مہینے میں پہلے پھول ڈھونڈنے ہیں یا پہلے محبوبہ ڈھونڈنی ہے ۔ ویسے ویلنٹائن ڈے پر پھول محبوبہ ہی کو دیے جاتے ہیں یہ فتویٰ بھی جمعے کے خطبے سے ملا ورنہ ہم تو سمجھے تھے محبت کا اظہار بہن بھائی ماں باپ دوست احباب سب سے کیا جا سکتا ہے سوائے بیوی کے ۔۔ کیونکہ بیوی سے اظہار کرنے کے بعد نیا کٹا کھل جاتا ہے کہ پھر ڈنر پر باہر بھی لے کر جاؤ اور کوئی سونے کی انگوٹھی بھی بطور نشانی محبت دے دو اور بندہ سوچتا ہی رہتا ہے یہ جو دو چار بچے جیتے جاگتے بطور ثبوت موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے بھی اور نشانی چاہیے ۔ پھر تو ہم جھک ہی مارتے رہے ہیں۔

یہ جمعہ نیو ائیر کے سرے پر موجود تھا ۔ مولوی صاحب کا بے بسی سے بُرا حال کہ سپیکر کی ضرورت نہیں چھت پھاڑ قسم کی حالت ، لیکن ایڈورٹائزنگ تو کرنی تھی ۔ ویسے مولوی کا ایڈورٹائزنگ کا اپنا طریقہ ہوتا ہے پہلے اس کی خرابیاں بیان کرنی ہیں، کہ مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق کون سا ہمارا سال ہے یعنی ہم مسلمان تو مریخ پر رہتے ہیں جہاں سال 365 دنوں کا نہیں ہوتا ۔ پھر جب قمر کو مسلمان بنایا اپنے قمری سال کی ابتداء ہی رونے دھونے سے کر دی ۔ خدا نے شمس کو ہمارے مسلمان ہونے سے بچایا کہ چلو کوئی تو خوشی کا دن ہو ۔ مولوی اس میں روڑے اٹکانے آ گیا ۔ خیر سارا غصہ نکالنے کے بعد پھر آخر میں مولوی صاحب نے کہنا ہے تم لوگوں نے کہاں میری بات ماننی ہے نیو ائیر پر اپنی سہیلیوں کو میسج بھیجو گے ۔ شور شرابا کرو گے ۔ اور جو تمہارے بس میں خوشی منانے کا طریقہ ہے وہ کرو گے جیسے یورپ والے کرتے ہیں ۔ میں نے واپس آ کر دیکھا جب مولوی صاحب مغرب والوں کی مثال دے رہے تو دیکھیں تو سہی وہ یورپ والےکیا کرتے ہیں ۔ معلوم ہونے پر بے بسی ہی محسوس ہوئی کہ یہ پاکستان میں ممکن نہیں ۔

پھر ہم تو جل کر رہ گئے کہ جب ہم انیس بیس کے تھے تو اس وقت سائنس کو کیا موت پڑی تھی کہ موبائل اور انٹرنیٹ ایجاد نہ کیا کہ ہم بھی کوئی پیغام نیو ائیر کسی کو بھیج دیتے ۔ اس زمانے کی عیاشی زیادہ سے زیادہ تو یہ تھی کہ ہمارے علاقے میں ایک ماسی ریشماں ہوتی تھی جس کے ذمہ دو کام تھے ۔ ایک محلے بھر کی لڑکیوں کو صبح سویرے اکٹھا کر کے علاقے میں موجود واحد گورنمنٹ گرلز ہائی سکول پیدل لے کر جانا ۔ سارے راستے میں لڑکیوں نے بھی وہ وہ صلواتیں سننی کہ ان صلواتوں نے بعد میں ہمارے علاقے کی علاقائی ضرب لمثل بن جانا ۔ اور راستے میں لڑکا کسی کام سے جا رہا ہو تو حفظ ما تقدم اسے بھی دو چار ہوائی فائر کر کے ڈرا دینا ۔ اور اگر ان دو چار ہوائی فائروں کے بعد بھی پھر کبھی نظر آئے تو اس کے گھر پہنچ جانا ۔ اب پھول کیا دینا پاس سے گزر جانا ہی عیاشی ہوتا تھا ۔ اور دوسرا ماسی ریشماں کے ذمہ کام تھا کہ کسی کی بھی وفات پر اس کے گھر جا کر بین کرنا ۔ بلکہ بین کرنے کےلیے سپیشل ماسی کو بلایا جاتا تھا ۔ اور بین میں بھی وہ وہ کمالات ہوتے تھے کہ ناصر مدنی کا پروگرام سمجھ لیں ۔ موجود خواتین کو اکثر باتوں پر یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ماسی کے اس شعر پر رونا ہے کہ ہنسنا ۔ لیکن پکی بات ہے کہ محلے میں کسی کے مرنے سے ماسی کی روزی لگ جاتی تھی ۔
مولوی صاحب بھی اسی دور کے تھے ان کا جوانوں پر کڑھنا ہماری سمجھ میں آتا چلا گیا ، کہ ہم جب محروم رہے تو یہ کیوں مزے کریں ۔

دوستو سہیلیوں ہماری آپ سب کےلیے دعا ہے کہ اللہ آپ سب کی شادیاں کرانے تاکہ جب نیو ائیر منانے کا سوچیں تو اس سے پہلے پہلے آپ کی سابقہ محبوبہ جو موجودہ زوجہ کا رجہ حاصل کر چکی ہوگی آپ کے ہاتھ میں دال ، چینی سبزی آٹے کی لسٹ پکڑا دے اور آپ یہی گنگنا کر نیو ائیر منائیں کہ
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

Advertisements
julia rana solicitors london

اور آپ ہمارے لیے دعا کریں کہ اللہ ہمیں بھی ایک ٹوٹی پھوٹی ، سیدھی ٹیڑھی محبوبہ عطا کرے ۔ سودا سلف کی لسٹ کے ڈر سے تو ہم ویسے ہی نکل آئے بس کمی یہی ہے کہ ہم اسے پیپی نیو ائیر کہہ کر اپنے ارمان نکال سکیں ۔ ورنہ ہم سے بھی اچھی امید نہ رکھیے گا ہم بھی آدھے مولوی ہی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply