نظم کی خوشبو کا حوالہ/پروین طاہر

فرخ یار میرا بیٹا میرا بھائی”اگر وہ شاعر نہ بھی ہوتا تو میرے لئےآُس کا یہ حوالہ ہی کافی تھا کیونکہ میں ہمیشہ اس کو ان ناموں سے پکارتی ہوں لیکن ان سب رشتوں سے بڑا رشتہ وہ ہے جو دو تخلیق کاروں کے بیچ ہو سکتا ہے درد کا رشتہ, مٹی کی خوشبوکا رشتہ فریکوئنسی کا رشتہ ہم نفسی اورنظم کا رشتہ!
میں نے کبھی اُس کی نظموں پر ہاتھ نہیں ڈالا ڈرتی ہوں کہ اس کی نظم کےمعلوم منظروں کے علاوہ نا معلوم اور نا دید کے ایسے منطقے ہیں جہاں قدم رکھنا ایسا بھی آسان نہیں. اوراگر اُس سے انصاف نہ کر پائی تو ؟
فرخ یار ہم تمام دوستوں میں عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹا ہے مگر اس کا تخلیقی مرتبہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ ہے.اس کی نئی کتاب آئی ہوئی ہے جو دھرتی سے پھوٹتے رشتوں کی ایک شعری بوطیقا ہے وہ ایک علیحدہ نظر ایک انفرادی مطالعے کا تقاضہ کرتی ہے آج ان کی کچھ دیگر نظموں کا تعارف نئے لکھنے والوں کے نام.. …
جدید نظم نگاروں کے یاں وجود existence یاپھر وجودی کرب ایک نمایاں قضیہ ہے اگرچہ فنون لطیفہ کی کسی شاخ سے وجود کو منہا نہیں کیا جا سکتا مگر نظم کا میدان اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں رہا ہر نظم نگار کے پاس اس کرب کے اپنے اپنے شیڈز ہیں کہیں شوخ کہیں دھیمے . فرخ کے ہاں یہ ایک دھیمی مگر تیز اثر آواز کی مانند ہے دیکھئے اُس کی ایک نظم ‘اک موت بھری خاموشی میں کا ایک اقتباس
اک موت بھری خاموشی میں
دل گھڑی گھڑی گھڑی گھبراتا ہے
اس رنگ برنگی دنیا میں
تکرار ہے اپنے ہونے کی
سب جھگڑا ہے آوازوں کا
ان مِلی جُلی آوازوں میں
ہم ایک وجودی قصہ ہیں
ہم اپنی اپنی بولی ہیں
ہم اپنا اپنا حصہ ہیں
اس رنگ برنگی دنیا میں
اِک خواب کے اندر پنجرے میں
یہ دل بھی ایک تماشا ہے
جو کبھی کبھی گھبراتا تھا
اب گھڑی گھڑی گھبراتا ہے
اُس شب کے پہرے داروں سے
جو گرتے بھاگتے رہتے ہیں
اک دبی دبی مدہوشی میں
اس نظم کا آہنگ شاعر کے دل کی دھڑکن کے ساتھ دھڑکتا ایک خاص مجنونانہ کیفیت پیدا کرتا ہے جو نہ صرف شاعر تک محدود رہتی ہے بلکہ قاری کےدل تک سمندر کی کسی لہر کی طرح پہنچ کر اسے سر تا پا بھگو دیتی ہے اور قاری نظم کے ساحل پر بیٹھا اپنی بھیگی کیفیت سے حظ اٹھاتا رہتا ہے
رومان اور محبت فرخ یار کے ہاں ایک پے چیدہ عمل ہے وہ اپنی محبت سے معاملہ کرتا ہے مگر ایک غیرت مند انسان کی طرح کسی کو اپنے دل تک, گھر تک رسائی نہیں دیتا اور ایک اعلیٰ فنکار کی طرح معاملات دل رقم کرتا ہے اور ہم محض چند glimpses کی بنیاد پر اس کے دل کے بس دروازے تک ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں معاملے کی خوشبو سونگھ سکتے ہیں اسے دیکھ نہیں سکتے فرخ نے علامتوں اور استعاروں ایسی دوستی کر رکھی ہے جو اس کے کتھارسس کا بھرم رکھتے ہیں اور دل کو لہو ہونے سے بچانے رکھتے ہیں
اس کی ایک نظم’ کیسےکر لوں’ سے سے اقتباس د یکھیے
تم نے کل بھی گرما کی ڈھلوان پہ
تیز ہوا سے مل کر روشن دن کا ماتھا پھوڑا
کچا بور گرا کر سوئے
میں نے کل بھی
ورق ورق رشتوں کو دیکھا
جو زندہ تھے انھیں حدیثِ دل بھجوائی
اور تمہاری کھڑکی کے تختے پر کچھ مہندی کے پتے رکھے
کچھ زیرے کے پھول
یہ جو سوزِ نمو سے خالی دل ہے
اک بے لطف محبت کی شہ سرخی ہے
حیرت کا بحران ہے
جو فتنے میں ڈھل جائے گا
بستر اور بستر کی شکنیں
اس بے لطف محبت کی سرگوشی سے اکتا جائیں گی
تم کیسی سنگت ہو
خود نقطہ نقطہ جاری ہو لیکن
میری قنات کا پرزہ پرزہ
کانٹے دار درختوں کی شاخوں پہ پھینک کے کہتے ہو
جتنا جلدی ہو سکتا ہے اپنا آپ برابر کر لو ۔
فرخ یار کی شاعری کی خوشبوؤں میں ایک بھینی بھینی خوشبو مٹی کی خوشبو ہے جو حب الوطنی کے روایتی تصور سے کہیں بلند کہیں زیادہ ہے اُس کی ایک نظم راولپنڈی ہے جو نہ صرف شاعر کی جذباتی وابستگی بلکہ اس کے جغرافیے, تاریخ اور شہر کے تہذیبی حوالوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے میں اس نظم کو بار بار پڑھتی ہوں ہر دفعہ ایک طلسم مجھے گھیر لیتا ہے اور اسے پڑھتے ہوئے میں اس شہر بے مثال کے حسن اس شہر کی فیاض باہوں اور ہریل راستوں میں کھو کر فرخ کی ہم نوا بن جاتی ہوں اس نظم کا اقتباس نہیں بلکہ یہ ساری کی ساری نظم quote کئے جانے کے قابل ہے
راولپنڈی
۔
بدن کے مضافات کو
بے قراری کی بیلوں نے گھیرا ہوا تھا
جنم پھیر کی خود کلامی کے اندر
ہمہ وقت بے چین آنکھوں میں مستی کا سرمہ لگا تو
عراق _ عجم کے پلوں سے گزر کر
دمشق اور کوفہ کی خونی دلیلوں ، سبیلوں سے بچتا بچاتا
زمانوں کی دوری پہ دریا کے اس پار آباد
باغوں بھرے شہر کی سیڑھیوں پر
دمکتے ہوئے نقش کو بند کرتے کئی سال سے اب
خراسان کے دستکاروں کی شوریٰ میں بیٹھا ہوا ہوں
‍‍
سواروں کے جتھے
اترتے گزرتے چلے جا رہے ہیں
سواروں کی شکلوں پہ
شب کی لکیریں
ملامت کی کالی سیاہ چادریں اوڑھ کر ان کا ہونا
کسی ناگہانی میں بھٹکا ہوا ہے
ہوا رک گئی ہے مگر میرا دل جیسے
راول کی پنڈی میں اٹکا ہوا ہے
وہ راول کی پنڈی
جسے خلق نے گرد اور خشک جاڑے سے نکلی ہوئی
دھند کی پیچ تالی میں دیکھا
کہاں سب کو ملنا تھی
پلکوں کی چھایا
کہاں سب پہ کھلنا تھا کار _تمنا
محلوں ، فصیلوں ، دکانوں کے پہلو میں بہتے
زمانوں کے اندر ،
لرزتی دھڑکتی ہوئی زندگی آخری متن تک
خط کشیدہ عبارت میں لکھی ہوئی تھی
وہ راول کی پنڈی کہ جس میں
زمیں کو بدلنے کا سپنا سناتے ہوئے قصہ خواں
موسموں کی نہایت سے بچ کر
پرانے مکانوں کی جانب پلٹتے رہے
اور اب نارسائی کے مجہول کونوں میں ان
قصہ خوانوں کو نیند آ گئی ہے
مرادوں کی بھٹی سے اس سال بھی
اپنی مرضی کے چاند اور ستارے نہیں ڈھل سکیں گے
خبر بھیڑ کو چیرتی جا رہی ہے
سخن خشک سالی کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہے
مگر میرا دل …..
فرخ یار کی شاعری کے باقی شیڈز اسی بنیادی نیوکلیس یعنی وجودی کرب سے پھوٹتے ہیں جومسلسل اسےاضطراب میں رکھتا ہے اور اس سے محبت کرنے والے قارئین کو بھی
خاموشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے
دیا جلے تو جانے والے
لوٹ آتے ہیں
چار قدم امید کا جادہ
رات کی جھولی بھر دیتا ہے
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے
شوق کا محمل جستہ جستہ رک جاتا ہے
در بدری سے جڑی ہوئی
آوازوں کے رنگیں دروازے گر پڑتے ہیں
اک دوجے کی خاطر جینے مرنے والے دھیرے دھیرے
ٹھنڈے دل کا سایہ اوڑھ کے
سو جاتے ہیں
یہ چند نظموں کا جائزہ فرخ یار کی اُسبے لوث محبت کا بدل کبھی نہیں ہو سکتے جو وہ غیر مشروط طور پر اپنے تعلق داروں سے رکھتا ہے اور نہ ہی اس بے مثل شاعری کا مکمل تعارف. بس جی چاہا کہ اعتراف کروں کہ
ُ’فرخ یارصرف تم نہیں ہم سب بھی تم سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہ کہ تم نے نظم کو وقار بخشا اپنے وفور سے, ریاضت سے, فنی تکمیلیت سے…. اور یہ بھی کہ تمہاری شاعری کسی توصیف کسی اعتراف کر محتاج نہیں یہ کسی مضمون کسی نقد سے بہت بلند ہے تم آئندہ آنے والوں کے لئے ایک آئیڈیل یو اور ان کے لئے ایک creative genius کا درجہ رکھتے ہو’

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply