سماج (16) ۔ جنگجو/وہاراامباکر

شمالی سوڈان میں جبل الصحابہ کے مقام پر قدیم مدفن میں قدیم انسانوں کے متشدد رویے کی گواہی دیتا ہے۔ تیرہ سے چودہ ہزار سال پہلے کئے گئے قتلِ عام میں 58 مرد، خواتین اور بچے مارے گئے تھے۔ اور ان کے جسم میں پیوست گئے پندرہ سے تیس تیروں اور بھالوں سے پتا لگتا تھا کہ یہ ظالمانہ طریقے سے آبادی کا صفایا کیا گیا تھا۔
آسٹریلیا کے قدیم ایبوریجنز میں بھی ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جنگ میں کی گئی تین سو ہلاکتیں تھیں۔ ایک یورپی سیاح نے لکھا تھا کہ “جنگوں میں مرد اور خواتین دونوں حصہ لیتی تھیں اور یہ بڑے جوش سے لڑی جاتی تھیں۔ گھنٹوں جاری رہنے والی اس لڑائی میں میں نے خون سے بھرے اجسام دیکھے۔ آخر میں ایک گروپ نے ہتھیار ڈال دئے۔ جیتنے والے انہیں اپنے کیمپ لے گئے۔ وہاں پر انہیں معاف نہیں کیا گیا۔ مار مار کر ان کی جان لے لی گئی۔ ان کے بازو اور ٹانگیں ہتھیاروں سے کاٹ دی گئیں”۔ دشمن کے جسمانی اعضا کو کاٹ کر ٹرافی کے طور پر رکھنے کا رواج بھی قدیم ہے۔ اور یہ کام صرف اس کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ “اپنا” نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ انسانوں میں ہمیشہ حالتِ جنگ رہی ہے۔ گروہ طویل عرصے تک پرامن ساتھ ساتھ بھی رہتے رہے ہیں۔ جتھے بنا کر حملے کرنے کا جواز کسی چیز کا بدلہ لینے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جادو کا الزام، یا ہمسائیوں کی اپنے علاقے میں آ کر چوری۔ اور اس کا بدلہ گروہ سے لیا جاتا ہے۔ مخالف سے بدلہ لینے میں اس خاص قصوروار فرد کا ہونا ضروری نہیں۔ پرائیوں سے بدلہ لیتے وقت اس چیز کا لحاظ نہیں کیا جاتا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑتے وقت پھوڑی جانے والی آنکھ کس کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قدیم طرزِ زندگی رکھنے والوں میں تنازعہ کس پر ہو سکتا تھا؟ کسی ایک قبیلے کے پاس قیمتی اشیا ء تو تھیں  نہیں جو لوٹ مار کی ضرورت ہو۔ ایک چیز زمین تھی اور دوسری خواتین۔
اچھی زمین جس قبیلے کے پاس تھی، اسے باقیوں سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ موقع ملتے اور کمزوری دکھائی دینے پر ہمسائیوں کی طرف سے حملے کا خوف رہتا تھا۔ بڑے گروپ بنا لینا حفاظت کے لئے اہم تھا۔ اس نے بڑے گروہوں کی ضرورت پیدا کی اور بڑے معاشروں کا بیج بنا۔
اور طاقت کے ذریعے امن قائم رکھنے کی حکمتِ عملی بھی پرانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جنگ وہ غذا ہے جس سے قوم کی پرورش ہوتی ہے”۔ یہ فقرہ انقلابِ فرانس کے بعد مارکو دی ساڈے نے لکھا تھا۔ جب سوسائٹی کے ممبران کا غصہ اور نفرت باہر والوں کی سمت میں ہوتی ہے تو یہ اندرونی طور پر شناخت کو مضبوط کرتا ہے۔
رالف والڈو ایمرسن لکھتے ہیں، “سِول وار سے قبل ہمارا حب الوطنی کا جذبہ پھسپھسا سا تھا۔ ہزاروں لوگوں کی اموات نے دسیوں لاکھوں مردوں اور خواتین کو آپس میں متحد ہو جانے کا جذبہ دیا”۔
یہ بات تو شاید درست نہیں کہ سوسائٹی کو قائم رکھنے کے لئے جنگ ہی ضروری ہے لیکن یہ درست ہے کہ مضبوط شناخت میں دشمن یا ولن کا اہم کردار ہوتا ہے۔ امریکہ کے لئے روس، شمالی کوریا یا ایران ہوں، انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے ۔۔۔ یا پھر دوسرے ولن ۔۔ دہشت گرد، غیرقانونی تارکینِ وطن، یا پھر کسی بھی طرح کے “بھٹکے ہوئے گروہ”، اپنے غصے کو کوئی سمت دینا اپنی شناخت کو مضبوط تر کرنے کا حربہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اپنے مخالف گروہ کے بارے میں رائے میں مزید خرابی ہمارے ایک اور خاصیت سے ہوتی ہے۔ ہم خطرے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور انفارمیشن کے ڈھیر میں سے مخالف کے بارے میں منفی چیزیں چن لینا آسان کام ہے۔ قومی یا نسلی تعلقات کے لئے یہ اچھا نہیں۔ (اور عام تاثر کے برعکس مخالف کے بارے میں انفارمیشن کا زیادہ ہونا اس سے تعلق کو مزید خراب کر سکتا ہے)۔ خطرے کے بارے میں زیادہ حساسیت رکھنا جہاں زندگی کے لئے مفید رہا ہے، وہاں ہماری اس خاصیت کا جنگ و جدل میں بڑا کردار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سب سے اہم بات یہ کہ جنگ اور ہمارے جارحانہ رویے کو سمجھنے کے لئے صرف خوف ہی کافی نہیں۔ خوف سے زیادہ کردار شناخت کا ہے۔ اجنبی کے بارے میں ناپسندیدگی اور مشکوک ہونا اس کی وجہ ہے۔
ہم شعوری اور غیرشعوری طور پر بہت سی علامات کا احترام کرتے ہیں۔ یہ نظریات، نشانات، اشارات، واقعات، شخصیات، بولیوں، عادات سمیت بہت سی ہیں۔ ایسی علامات جو ہماری گروہی شناخت ہوں، گروہ کے لئے حساس ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ گروہی یکجہتی کی بنیاد ہیں۔
اگر اجنبی ہماری شناخت کی علامات کا احترام کریں تو ان پر بھروسہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ہمارے لچکدار سماجی رویوں کا مطلب یہ ہے کہ اجنبیوں سے اچھا تعلق بنا لینا ہمارے لئے زیادہ مشکل نہیں۔
لیکن دوسری طرف ۔۔۔ اگر کوئی ایسی چیزوں کی بے حرمتی کرے جو ہماری شناخت کی بنیاد ہیں تو یہ ہمارے جارحانہ ترین رویے کو چھیڑ دیتا ہے۔ تاریخ میں ہماری خوفناک ترین جنگیں اور جھگڑے وسائل پر نہیں ہوئے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply