نیا سال نئی توقعات/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

یہ بات سچی اور کھری ہے کہ جب     نیا سال شروع ہوتا ہے  ہم اپنے خدا کے ساتھ کچھ عہد و پیماں  کرتے نظر آتے ہیں ۔پتا نہیں اس عہد و پیماں میں ہمارے  ارادے اور جذبات عارضی یا مستقل بنیاد رکھتے ہیں یا نہیں ،اگر ارادے کچے ہوں گے تو بنیاد ریت پر ہو گی برعکس اگر وہ مضبوط ہیں تو خوابوں کی تعبیر ممکن ہے۔بحیثیت بشر ہوتے   غلطی اور گناہ ہر کسی سے سرزد ہوتا ہے۔ہم اس بات کا اقرار کریں یا انکار ،معاملہ ضمیر کی عدالت کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔ انسان سچا اور کھوٹا الگ الگ نظر آتا ہے۔2022 کا سورج غروب ہو نے والا ہے۔سال بھر کے دن اور شامیں اپنا سفر مکمل کر کے نئے سال کی تیاری میں مصروف ہیں ۔وہ اپنا آغاز و ارتقاء  اپنی شفقت و محبت اور تمام تر رعنائیوں کے ساتھ   کریں گے  ۔ شب و روز کائنات کے خالق و مالک اور پروردگار کی مکمل وفاداری کرتے ہوئے اس بات کا احساس اور ذمہ داری ایسے نبھاتے ہیں جیسے ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اجرام فلکی کا   نہ ٹوٹنے والا سلسلہ ہے ۔ہر کوئی خدا کی مرضی کے مطابق محو سفر ہے۔ ان کے اندر رتی بھر بھی حکم عدولی کا تصور نہیں۔ان کی وفاداری اور ایمانداری کا چرچا صدیوں سے کائنات کو اس بات کا ثبوت پیش کر رہا ہے اور بنی آدم کو اس بات کا شعور و آگاہی فراہم کر رہا ہے کہ اپنی راہ درست کرو۔اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرو ۔ ہوش کے ناخن لو ۔ قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرو ۔اپنے اندر اعلی ظرفی پیدا کرو ۔آزمائش پر غالب آؤ ۔خودغرضی کی اینٹیں چنو۔ احساسات و جذبات کا دیا جلاؤ ۔گناہ پر غالب آؤ ۔

اگر ہم وقتی اور موسمی عہد و پیماں کے عادی ہیں تو ہم اس کی مرضی بجا نہیں لا سکتے ۔ہمیں اپنی ناکامیوں پر نوحہ کرنا چاہیے اور کامیابیوں کے لئے خدا سے دعا گو ہونا چاہیے تاکہ خدا ہمیں اپنی ناکامیوں پر غالب آنے کا فضل عطا کرے ۔کوئی بھی انسان اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے فوق الفطرت قوت نصیب نہ ہو ۔اس کے ارادے نیک اور سرگرم نہ ہوں تو کامیابی کا عمل رک جاتا ہے اور شیطان کا ردِ  عمل ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے ۔ہمارے ارادے ناکامی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ہماری توقعات زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔پھر ناکامیوں پر شور شرابہ اور پچھتاوا۔۔اپنے آپ کو کوسنا اور قدرت کو برا بھلا کہنا ہمیں خدا سے مزید بیزار کر دیتا ہے۔آج علم و ادب اور روشنی کا زمانہ ہے ۔ہر کوئی صاحب ادراک ہے۔ہر کسی کے پاس خدا کے ارشادات ، فرمودات ، احکامات ، آئین و قوانین ، شریعت و فضل اور عبادت و پرستش کا ڈھنگ موجود ہے۔کوئی اس کے سامنے نہ ہونے کا عذر پیش نہیں کرسکتا ۔باقی باغیانہ فطرت اور سرکشی ہمارے اندر ہے۔وہ ہمیں احمق اور گنہگار بناتی ہے جو اس وقت تک ہماری فطرت کے ساتھ نتھی رہتی ہے جب تک اسے ترک کرنے کا مصمم ارادہ نہ کیا جائے ۔اس سرکشی کے باعث نہ ہم خدا کے لائق ٹھہرتے ہیں اور نہ انسان کے نزدیک مقبول۔

جب آسائشیں اور آزمائشیں گناہ پر اکسانے کا سبب بنیں تو مشکلات کی بیڑیاں انسان کا چلنا محال کر دیتی ہیں اور جب زندگی مشکلات میں گر جائے تو خوشحالی کا کنارہ پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے ۔انسان گناہ کی ایسی دلدل میں پھنس جاتا ہے جو اسے باہر نہیں نکلنے دیتیں۔گناہوں کی زنجیریں توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس فوق الفطرت قوت موجود ہو اور یہ اس وقت تک انسان کے ہاتھ نہیں آتیں جب تک اس کی خدا کے ساتھ رفاقت و شراکت نہ ہو۔یہ اصول فطرت ہے جو ان اصول و ضوابط میں ڈھل جاتا ہے وہ کامیابی کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔

آپ قدرت سے لڑ نہیں سکتے بلکہ رحم اور فضل کی اپیل کر سکتے ہیں تاکہ اس کی شفقت و محبت ہمارا سہارا بن کر ساتھ دے ۔خدا خدا کرکے یہ سال اپنا سفر مکمل کر چکا ہے۔ہم نئے سال کا آغاز کرنے والے ہیں۔نیا سال شروع ہوتے ہی اپنے ایمان کا بیج بونا شروع کر دیں گے۔وہ اگر صحت مند ہوا تو بڑھوتری کا عمل شروع ہو جائے گا برعکس اگر غیر صحت مند ہوا نہ تو وہ اگے گا اور نہ پھل دے گا ۔اس سال کے آخر پر اپنی زندگی کا موازنہ ضرور کریں ۔اگر ممکن ہو تو اپنی نیکیوں اور گناہوں کا چاٹ بنائیں ۔اس پر اپنی کامیابی کا تناسب معلوم کریں ۔نتیجہ نکل کر ہمارے سامنے آجائے گا کہ آیا ہم پاس ہیں یا فیل ۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا ۔آپ کو زندگی کے آئینے میں اپنے تلخ و ترش تجربات اور مشاہدات نظر آئیں گے ۔حاصلات و ثمرات کا خلاصہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگا ۔

رواں برس ہمارے بہت سے عزیز و اقارب ہم سے بچھڑ گئے ۔انہیں ایک نئے سال کی مہلت نہ ملی لیکن ہم جو زندہ ہیں ہمارے پاس وقت و مہلت موجود ہے۔ہم خدا کے سامنے تائب دل ہو سکتے ہیں۔خدا سے معافی کی درخواست کر سکتے ہیں ۔کامیابی کیلئے اس سے دعا کر سکتے ہیں ۔اپنے تعلقات و روابط کو مضبوط بناسکتے ہیں ۔ رشتے ناطوں کو نئے سرے سے استحکام بخش سکتے ہیں۔نئے ارادوں اور مصمم جذبوں کو فروغ دے سکتے ہیں ۔اپنے خدا سے توبہ اور گناہوں کی معافی طلب کرسکتے ہیں ۔

آج ہر انسان تبدیلی کی بانسری بجا رہا ہے۔انسان روز اول سے یہ پہاڑہ ازبر کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسے ازبر ہو نہیں پاتا شاید جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے توقعات کا خواں ہے۔وہ پہلے خود کرنا نہیں چاہتا۔یاد رکھیں !

جب کسی کام کو یا عمل کو پہلے خود نہ کیا جائے اس وقت تک وہ معاشرے میں تبدیلی کا سبب نہیں بنتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید یہی وجہ ہے کہ ہم عملی طور پر ناکارہ ہیں جو چیزیں ہمیں خدا کی رفاقت و شراکت سے محروم کرتی ہیں۔ہم نے انہیں اپنی سرشت سے باندھ رکھا ہے۔
آج رات خود کا احتساب کیجئے ۔اپنے دلوں میں نئے سال کا گوشوارہ بنائیں ۔اپنے اغراض و مقاصد کا احاطہ کریں ۔ان کے تعمیری راستے تیار کریں ۔اپنی عقل پر ناز نہ کریں بلکہ اپنا سب کچھ اس کے ہاتھ میں دے دیں ۔اس سے ان باتوں کے لئے دعا مانگیں تاکہ ہمیں نئی زندگی ، نئی فطرت، نئے تقاضے ، نئی منزل ، نیا جذبہ ، نئی تروتازگی ، نئے جذبات ، نئی عقل ، نئی سوچ ، اور نیا مخلوق بننے کی توفیق دے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply