نیا سال ‘ نئی سوچ اور نئی امنگ/عاصمہ حسن

وقت بہت بدل گیا ہے اور ہمیں کامیاب ہونے کے لئے نئے دور کے رنگ ڈھنگ اپنانے ہوں گے۔ ـ

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ اور سوچنے کے زاویے کو بدلیں۔ ـاگر ہم وقت کی رفتار کے ساتھ نہ چل پائے تو یہ ہمیں بے وقعت کر دے گا اور اپنے پیروں تلے روندتا ہوا چلا جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت کبھی کسی کے لئے نہ رُکتا ہے اور نہ ہی کسی کا انتظار کرتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو نئے سال میں صرف ایک ہندسہ ہی بدلتا ہے، ـ تقدیر تو ان کی بدلتی ہے جو اسے بدلنا چاہتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ،ہم اسلامی کیلنڈر جسے ہجری یا عربی کیلنڈر بھی کہتے ہیں جو محرم میں شروع ہوتا ہے کی پیروی کرتے ہیں لیکن ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے اور مرتے دم تک انگریزوں کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلنا ہے اور چونکہ دنیا کے سارے امور انگریزی کیلنڈر کے مطابق چلتے ہیں اس لئے ہمیں بھی اسی کے مطابق اپنی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ تاکہ دنیا میں اپنی جگہ بناتے ہوئے کامیابیاں سمیٹ سکیں۔

سال کے شروع ہونے سے قبل اپنے پورے سال کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوتا ہے یعنی اپنے اہداف کو تعین کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے لئے اہم یہ ہے کہ ہم اپنے مقاصد کو پہچانیں اور ان کو اہمیت و افادیت کے مطابق ترجیح دیں۔ اگر مقصد مقررہ وقت میں حاصل نہیں ہو پاتا تو اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے دیکھیں کہ کہاں بھول چوک ہوئی ہے پھر مناسب حکمت ِ عملی اپناتے ہوئے نئے سرے سے منصوبہ بندی کریں۔نئے سال کے آغاز پر جو کام پورا نہیں ہوا اسے بیچ راستے میں نہ چھوڑیں ۔ بلکہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی سانس لیں۔

نیا سال ایک طرح سے تجدید عہد کا دن ہوتا ہے اور ہم نے ہی اپنے مقصد کی اہمیت کے مطابق محنت کرنی ہوتی ہے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک وقت میں ایک ہی مقصد پر کام کریں اگر ہم ایک ساتھ بہت ساری کشتیوں کے سوار بن جائیں گے تو کسی بھی کام کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔

کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنے اندر سے ناکامی کا خوف نکال دیں ۔ جب ہم اپنے مقصد کے حصول کے لئے پہلا قدم اٹھاتے ہیں دراصل اسی وقت ہم کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم اپنے اندر کے ڈر کو مات دیتے ہیں۔ اگر مقصد کو پورا کرنے میں ناکام ہو بھی جاتے ہیں تب بھی یہ ناکامی نہیں ہوتی کیونکہ ہم اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

کبھی بھی ہمت ہار کر ‘ پریشان ہو کر نہ بیٹھیں اور یہ نہ سوچیں کہ ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے ۔ ایسی صورت میں اپنی سوچ کو بدلیں اور اس کو مختلف زاویہ دیں۔ کیونکہ ہماری مثبت سوچ ہی ہمیں مثبت نتائج دے سکتی ہے۔

نیلسن منڈیلا کے بقول: ” زندگی کی سب سے بڑی شان کبھی نہ گرنے میں نہیں ‘ بلکہ گِر کر اُٹھنے میں ہے ” ـ

جب ایک دروازہ بند دیکھیں تو دوسرا کھٹکھٹائیں۔ اگر وہ نہ کھلے تو تیسرے دروازے پر دستک دیں۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ  ایک در بند کرتے ہیں، تو دوسرا اور بہتر ہمارے لئے کھول دیتے ہیں ـ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالی سے بہت تھوڑا مانگتے ہیں ،جبکہ اللہ تعالیٰ  نے ہمارے لئے کہیں زیادہ اور اچھا سوچا ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہوئے ہمیشہ بڑا خواب دیکھیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ صرف سوچنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ـ اپنے اس خواب کو حاصل کرنے کے لئے دن و رات محنت کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ  کبھی محنت ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اپنے کمفرٹ زون سے باہر آئیں تاکہ اپنی منزل کو پا سکیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھ سکیں۔

ہمیشہ اپنے حوصلے اور امیدیں بلند رکھیں’ خود پر یقین رکھیں اور اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے منزلیں طے کرتے جائیں ۔ نئے سال کے آغاز پر نئے عزم سے شروعات کریں اور مستقل مزاجی کو اپنائیں ‘ اپنا احتساب خود کریں تاکہ مناسب حکمت عملی اپناتے ہوئے نئے لائحہ عمل سے اپنی زندگی بدلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ہم سب کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں۔ آمین ثم آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply