میں تو چلی چین/دیوارِ چین- ڈاکٹر تھانگ منگ شنگ سے ملاقات(قسط6 ) -سلمیٰ اعوان

بیجنگ میں مجھے کِس ادیب اور کِس شخصیت سے ملنے کی ضرورت ہے؟شعیب بن عزیز سے بہتر بھلا میرا کون صلاح کار ہوسکتا ہے ؟ شعیب کے لیے چین تو بس گھر آنگن والی بات تھی۔ وہ صلاح کار بھی بڑا اچھا ہے اور بیوروکریسی والے نخرے ٹخروں سے بھی ذرا دور دور ہی ہے۔فون کھڑ کھڑایا۔ مدعا گوش گزار کیا۔
‘‘ظفر محمود سے بات کرو۔ چین پر اتھارٹی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔’’
ظاہر ہے اب ظفر محمودکو ہی آواز دینی تھی۔ سو دی۔۔انہوں نے ایک فون نمبر لکھوایا۔ ڈاکٹرتھانگ منگ شنگ کا نام بتایا۔یہ بھی کہا کہ موصوف شعبہ پاک چین سٹڈیز پیکنگ یونیورسٹی کے سربراہ ہیں۔اُن سے ملنا آپ کے لیے ضروری بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔

عمران نے سفارت خانے کے پریس آتاشی سے بات چیت کے بعد بتایا کہ ایمبیسی ان کی صلاحیتوں کی بہت معترف ہے۔وہ پاک چین دوستی کے حوالے سے بہت اہم اور متحرک شخصیت ہیں۔
پس تو آج ڈاکٹر تھانگ منگ شنگ سے ملنے جانا تھا۔ کل شام عمران نے بات کی تھی۔وقت مانگا تھا۔ اپنا حوالہ دیا تو تصدیق مانگی جو اس نے فوراً دی اوردس بجے صبح کا وقت طے ہوگیا تھا۔
پیکنگ یونیورسٹی کہیں اللہ میاں کے پچھواڑے ہی تو تھی۔عمران نے اِسے بیجنگ کا جنوب کہا تھا۔میرے حسابوں سمت خواہ مشرقی ہو یا مغربی ،شمالی ہو یا جنوبی ،سین ہرجا ایک سے ہوں گے سو فی صد درست تھی۔وہی نظر نواز عمارتیں،کہیں آسمان کو چھوتی اور کہیں درمیان میں لٹکتی مٹکتی،وہی اور ہیڈ برجوں پر چڑھتے اترتے لوگ ،وہی کناروں پر سائیکلوں اور سکوٹیوں پر بیٹھی عورتیں اور لڑکیاں،وہی ٹریفک کا اژدھام،گاڑیوں کی ریل پیل اوروہی میرے حاسدی دل سے اُٹھتی ہوکیں۔
یونیورسٹی بارونق جگہ پر تھی۔شاندار عمارتوں کے سلسلے ،سرسبز لان اور طلبہ کی دائیں بائیں آنیاں جانیاں۔

اپنا وقت یاد آیا تھا۔ڈھاکہ یونیورسٹی یاد آئی تھی۔جہاں کہیں چین نواز اور کہیں روس نواز لڑکیاں ماؤ اور لینن کے نعرے لگاتی تھیں۔تب سوچا کرتی تھی یہ ماؤ اور لینن کتنے بڑے لیڈر ہیں؟کوئی بیٹھا چین میں اور کوئی روس میں ہے۔پر اجنبی ملکوں کے لڑکے لڑکیاں ان کے لیے جنونی اور پاگل ہورہے ہیں۔
اورتب کیا میں نے لمحہ بھر کے لیے بھی کبھی سوچا تھا کہ میں عمر کے کسی حصّے میں اِن دونوں بڑے لوگوں کے دیس جاؤں گی۔یقیناً نہیں۔تب اڑان اتنی اونچی نہ تھی۔

گاڑی جب پارکنگ ایریا میں پارک کی تو وقت یہی کوئی پونے دس کا تھا۔ ایک دو لوگوں سے پوچھا۔توجہ سے سمجھایا۔کچھ صحیح چلے کچھ غلط۔ڈپارٹمنٹ تو دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔سامنے ایک سہ منزلہ عمارت تھی۔سوچا چلو ذرا گھومتے پھرتے ہیں۔ایک جانب قدرے ویرانے میں اُترتی سڑک پر ہولیے۔
پھر کال کی۔تھوڑی سی راہنمائی اور جھیل کی طرف آنے کی ہدایت ملی۔راستے پتھریلے تھے۔باڑیں خوبصورت اور گردونواح حسن و رعنائی سے بھرا ہوا تھا۔خصوصی طور پر وہ بلندوبالا منفرد ٹائپ کا پگوڈا جس کے عین سامنے انتظار کا کہا گیا تھا۔
سامنے ایک وسیع و عریض جھیل پھیلی ہوئی تھی۔مگر کشتیاں کہیں نہیں تھیں؟بھلا یونیورسٹی کی جھیل ہو اور کشتیوں کے بغیر۔رومانس کہاں ہوتا ہوگا؟چینی کیا اتنے روکھے پھیکے سے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی کی نہر اور اس میں چلتی من چلوں کی کشتیاں بھلا کیوں نہ یاد آتیں۔آئیں مگر دکھی بھی کرگئیں۔کہیں مذہبی انتہا پسندی ،کہیں دہشت گردی کے خوف، اس کے حُسن کا بیڑہ غرق ہوا پڑا تھا۔

اب تصویر کشی بھی شروع کردی۔
ساس اور داماد تصویر کشی میں مصروف تھے جب وہ تشریف لائے۔درمیانی قامت پر قدرے فربہی مائل جسم۔محبت سے ملے ۔‘‘روس کی ایک جھلک’’ اپنا سفرنامہ پیش کیا۔ چند تصاویر اُن کے ساتھ بھی بنوائیں۔

اب آفس کی طرف بڑھے جو قریب ہی ایک مختصر سی دو منزلہ عمارت میں تھا۔عمارت میں سناٹا تھا۔نائب قاصد یا چپڑاسی نام کا کوئی بندہ نہ بندے کی ذات کا یہاں وجود نہ تھا۔ کمرہ اوپر کی منزل میں تھا مگر خدا کا شکر کہ سیڑھیاں انتہائی آرام دہ تھیں۔

حیرت ہوئی اتنی بڑی پوسٹ کے بندے کا کمرہ چھوٹا ہی نہ تھا بلکہ سادگی میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔میزکمپیوٹر ،پرنٹر اور ریسرچ کے پیپروں سے بھری کچھ کہانیاں سناتی تھی۔
اب خود سے کہتی ہوں میرے حسابوں ان کی پوسٹ یا عہدہ اکیسویں گریڈ سے کیا کم ہوگا؟ پاکستان جیسے غریب ملک میں اِس عہدے کے بندے کی دفتری شان و شوکت اور کروفرّ کا دیکھنے سے تعلق ہوتا ہے۔
اور یہاں کمرے کے کسی کونے میں کسی چھوٹی موٹی میز پر کوئی الیکٹرک کیٹل، چائے یا قہوے کے کپ ،کوئی ٹی بیگز کا ڈبہ کچھ نہ تھا۔کمرے کے جائزے سے فارغ نگاہیں اب ان پر جم گئی تھیں۔
‘‘کچھ پاکستان بارے اپنے تاثرات بتائیے۔اتنا آنا جانا لگا رہتا ہے آپ کا۔’’
کچھ بتانے کچھ کہنے کی بجائے سب سے پہلے انہوں نے ایک پاکستانی ادیبہ بارے پوچھتے ہوئے کہا۔

‘‘اب نام یاد نہیں آرہا ہے۔پر بقیہ بہت سے حوالے یاد ہیں مجھے ۔ بڑی غصیلی ہے۔ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی ہے۔بحث بہت کرتی ہے۔کالم نگاری کمال کی ہے ۔ شاعرہ بھی ہے۔عورتوں کے حقوق بارے بھی بڑی متحرک ہے۔’’
بڑی معصومیت سی تھی لہجے میں۔
‘‘کشور ناہید کی بات کرتے ہیں یقیناً   آپ۔’’
‘‘ہاں ہاں’’ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

میری یادوں میں اپنا پہلی بار پاکستان جانا یاد ہے۔ اس وقت چینی لوگوں میں پاکستان جانے کا ایک کریز تھا۔ میرے جانے کی خبر جب میرے قریبی عزیزوں کو ملی تو اُن کی فرمائشیں شروع ہوگئیں۔ہمارے لیے گھڑی لانی ہے۔کوئی جوتوں کی بات کرتا تھا۔1980ء سے 1987 ء تک کے دوران مجھے یاد ہے چینیوں کی پاکستان جانے والوں سے کچھ ایسی ہی فرمائشیں اور مطالبات ہوتے تھے۔
اس وقت 240فی کس آمدنی ایک پاکستانی کی اور چینی کی 140 تھی ۔مگر اب معاملات کی صورت یکسر فرق ہوچکی ہے۔آج پاکستانی فی کس 1600 اور چینی 4000ہزار اور یہ بھی کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ یہی وہ پاکستان ہے جس کو ہم 1970ء میں اپنا استاد مانا کرتے تھے۔1960ء میں اس کے کراچی جیسے شہر کو دیکھ کر حسرت سے کہتے تھے کہ کاش ایسا ایک شہرہمارے پاس بھی ہو جہاں اتنی فلک بوس عمارتیں ہیں۔
ایک دو پل کی خاموشی کے بعد پھر گویا ہوئے ۔

چینی لیڈروں نے اپنے لوگوں کو ایک خواب دکھایا تھا۔چین کی نشاۃ ثانیہ کے حصول کا خواب۔چین کی پرانی اور نئی نسل کی امنگوں کا ترجمان جس میں اقتصادی ،سیاسی ، ثقافتی ،سماجی اور ماحولیاتی ترقی جیسے اہم عناصر شامل تھے۔ترقی کے اوائل1987کے دن جب دنیا سے کٹی ہوئی اس قوم کو صرف چھ انڈے اور آدھ کلو چینی پورے ماہ کے لیے ملتی تھی۔
اگر آج ہم دنیا کی دوسری اکنامک پاور ہیں تو تعاقب میں جدوجہد بھی بے مثال ہے۔ محض چالیس سال میں اس قوم اور ملک نے اپنے اہداف حاصل کیے اور مزید کے لیئے سرگرم ہے۔ ایسے ہی خواب ہماری حکومتوں نے پاکستانیوں کو بھی دکھائے۔ان کی طرف بڑھنے اور اُن کی تکمیل کرنے کو کہا اور دل سے چاہا کہ وہ کامیاب ہوں۔مگر مجھے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستانی حکومتیں سنجیدہ نہیں ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی ترقی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

اب میرے دل کی دنیاکااُن کی ایسی محبت بھری دکھی باتیں سن کر اُتھل پتھل ہونا تو لازمی امر تھا۔ کیسی بد نصیب قوم ہیں ہم۔ اس تنزلی اور زوال کی وجوہات سے میں اپنے حسابوں آگاہ توتھی مگر ڈاکٹر تھانگ کا نقطہ نظر کیا تھا؟ یہ جاننا بھی تو ضروری تھا۔تو سوال ہوا اور جواب کچھ یوں تھا۔

میرے حسابوں آپ کی قوم میں چند چیزوں کا فقدان ہے۔ یہ ذہین ہیں۔مگر پتہ مارکر کام کرنے کی عادت نہیں۔شارٹ کٹ راستوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں۔ویسے اثاثوں اور پیسوں کی تقسیم تو 5فی صد کے ہاتھوں میں ہے۔امیر غریب کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہے۔سیاسی استحکام نہیں اور اِسے پیدا ہونے بھی نہیں دیا جاتا۔قابض لوگ نظام کی بہتری کو متاثرکرتے ہیں۔

وہ خاموش ہوگئے۔اُن کی چھوٹی چھوٹی ذہین آنکھیں جیسے کسی گہری سوچ میں غرق سی تھیں۔دیر بعد بولے تھے۔
دراصل اچھی مخلص،سمجھ دار اور ایماندار لیڈر شپ کا بھی بحران رہا۔کچھ مخلص اور کرشماتی شخصیت کے لیڈر ملے بھی ۔وہ آئے بھی۔ انہیں کام کرنے کا موقع دینے کی ضرورت تھی ۔مگر سازشوں اور غیرجمہوری ہتھکنڈوں سے بساط سیاست ہی لپیٹ دی گئی۔بھئی ٹانگیں نہ کھینچو۔اس بات کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی نوعیت کے پروگرام کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے ۔ان پروگراموں کا تسلسل حکومتوں کے آنے جانے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

ہماری حکومتوں نے سختی سے اِس اصول پر عمل کیا۔ہر ایک نے اپنا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں پچھلی حکومت نے اسے چھوڑا تھا۔اب اپنے کلیجے کی سٹرانڈ کو باہر کیا نکالتی کہ اِس پیارے ملک کو تو ہر ایک نے اپنی جاگیر جانا۔اول تو جانے والے نے کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں کیا اور اگر کہیں کچھ ہوگیا تو آنے والا اُسے مٹانے کے درپے ہوگئے۔
خیالوں سے نکلی۔

ڈاکٹر تھنگ بول رہے تھے۔آئیڈیل لوگ اور آئیڈیل نظام کہیں نہیں ملتا۔ہمارے ہاں ماؤ جیسے فکری لیڈر کے ہاں بھی غلطیوں کے ڈھیر ہیں۔مل کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کہیں خود پیچھے ہٹیں ۔کہیں انہیں ہٹائیں۔ایک دوسرے کوspace دیں تاکہ انہیں بھی آسمان نظر آئے۔
میں پندرہ بیس سال سے پاکستان مسلسل آجارہا ہوں۔پاکستان کو ٹھوس اقدام اٹھانے ہوں گے۔گذشتہ پانچ سالوں سے سی پیک پر جس رفتار سے ترقی ہونی چاہیے ۔نہیں ہوئی۔

اگر میں صرف 2018کی پاکستان جانے کی تفصیلات کا ذکرکروں تو یہی صرف دس کے قریب ہوتی ہیں۔کہیں مختلف سمیناروں میں اور کہیں انڈسٹریل زون کارپوریشنوں پر بات چیت کے لیے۔مگر مجھے بہت دکھ سے کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں کوئی 110کے قریب زون ہیں لیکن ان کی پالیسیاں ہی واضح نہیں۔سمینار وں کا رواج زیادہ بڑھ گیا ہے میری تمنا عملی طور پر سمیناروں کی ہے نہ کہ روٹین کی خانہ پریاں۔نششتندوبرخاستند والی بات نہیں ہونی چاہیے۔

وہ خاموش ہوگئے تھے۔سامنے دیوار کو تکتے رہے پھر گویا ہوئے۔دراصل باشعور ہنر مند لوگوں کو اِن سمیناروں میں پورا لائحہ عمل دیں۔وقت کا تعین،ٹھوس اقدامات اور عمل ہو۔پاکستان میں ترقی کی رفتار بہت تیز ہونی چاہیے ۔اب چین میں تین چھٹیاں بھی وارے میں ہیں، پہلے بہت کم تھیں۔

پاکستانیوں کی ایک عادت سے بھی مجھے بہت شکایت ہے کہ ابھی دفاتر میں کام پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا کہ چائے کے لیے گھنٹیاں بجنی شروع ہوجاتی ہیں۔چائے اور وہ بھی ماشاء اللہ سے دودھ والی۔اکثر تو کڑک والی پیتے ہیں۔پھر یہ سلسلہ ہر میل ملاقاتی کی آمد پر جاری رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کو اپنے اندر کی بات بتاؤں۔میرا دلی تعلق اس ملک سے ہے۔میں سمجھتا ہوں اگر آپ چائنا سے محبت کرتے ہیں تو پاکستان سے بھی محبت کریں۔ جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply