سماج (15) ۔ تنزانیہ کی جنگ/وہاراامباکر

تنزانیہ میں 1974 میں شروع ہونے والی جنگ چار سال تک رہی تھی۔ چند سال امن رہا تھا لیکن پھر خونریزی کا یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ جنگ یکطرفہ رہی تھی۔ یہ انسانوں کے درمیان نہیں بلکہ چمپنزی کے دو قبیلوں کے درمیان تھی جو گومبے نیشل پارک میں لڑی گئی تھی۔ ایک گروہ نے دوسرے کو ایک ایک کر کے ختم کر دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چمپینزیوں میں مہارت رکھنے والی جین گوڈ آل کے سامنے یہ جنگ ہوئی تھی۔ ایک سوسائٹی کے ممبران اکٹھے ہو کر اس چمپینزی پر حملہ کرتے تھے جس کو وہ جانتے بھی نہیں تھے۔ حملہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنوں میں سے نہیں تھا۔
وولٹئیر نے لکھا تھا، “اچھا محبِ وطن ہونے کا تاریک پہلو یہ ہے کہ آپ باقی تمام دنیا کے دشمن ہو جاتے ہیں”۔ وولٹئیر کا یہ فقرہ انسانوں کے بارے تھوڑی سی سچائی تو رکھتا ہے لیکن بڑی حد تک غلط ہے۔ کیونکہ انسان اپنے رائے میں لچک اور برداشت دکھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ چمپینزیوں کے بارے میں یہ کچھ زیادہ درست ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک سوال پیدا کرتا ہے۔ کیا معاشروں کی مسلسل جنگ و جدل کی حالت ہماری فطرت کا حصہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گومبے میں اس جنگ کا مشاہدہ کرنے سے پہلے، ایک سوسائٹی کے اندر چمپینزیوں کے آپس میں ایک دوسرے کے تشدد کے بارے میں علم تھا۔ نر چمپینزیوں کی لڑائیاں، جو کہ مادہ پر یا سماجی پوزیشن پر ہوتی تھیں، معلوم تھیں۔ یہ بھی کہ مادہ اپنی حریف ماداؤں کے بچے قتل کر دیتی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے یہ علم نہیں تھا کہ ان کے گروہ آپس میں جنگ بھی کرتے ہیں۔
عام خیال یہ تھا کہ چمپینزیوں کی سوسائٹی نہیں پائی جاتی۔ یہ سخت سرحدوں کے اندر نہیں رہتے۔ اور نہ ہی سرحدوں کا دفاع جارحانہ طریقے سے کرتے ہیں۔
یہ ویسے ہی تھا جیسا کہ بظاہر پرامن ارجنٹائن چیونٹیوں میں اسی طرح کی جنگ و جدل کی دریافت ہوئی تھی۔
چونکہ سوسائٹی کی ممبرشپ واضح اور نمایاں نہیں ہوتی تو اس کو miss کر جانا آسان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشدد اپنی سوسائٹی کے اندر بھی ہوتا ہے لیکن جو سلوک دوسری سوسائٹی کے ممبر کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، وہ اس کے آگے ماند پڑ جاتا ہے۔ چمپینزی گروہوں کے اندر انفرادی لڑائیاں ہوتی ہیں لیکن ملکر حملہ کرنے کا کام باہر والوں پر ہی کیا جاتا ہے۔
اس میں ہمسائیوں پر ہلہ بولا جاتا ہے۔ اگر ہمسائیوں کا گروپ بڑا ہو تو پھر باز رہا جاتا ہے لیکن اگر کوئی اکیلا مل جائے تو پھر اس کی شامت آ جاتی ہے۔ حملہ کرنے والے جتھے میں نر ہی ہوتے ہیں۔ جبکہ حملہ کسی پر بھی ہو سکتا ہے۔
موقع ملنے پر باہر والوں کو قتل کرنے سے مخالف گروپ کمزور پڑ سکتا ہے۔ گومبے میں ایسا ہی کیا گیا تھا۔ جارحیت میں کامیابی سے ایک گروپ نے دوسرے کے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔
یہ جنگی طریقے دیگر جانوروں میں بھی ملتے ہں۔ لیمور اور میرکاٹ بھی ایسا کرتے ہیں۔ شکست کھانے والا زخمی ہو جاتا ہے یا مارا جاتا ہے۔ جبکہ جنگوں میں خونخواری دکھانے میں چمپینزی کے مقابلے کے دوسرے جانور بھی ہیں۔ لگڑ بگڑ کے قبیلوں میں یا naked mole rats کی کالونیوں کی لڑائیوں میں کشتوں کے پشتے لگ سکتے ہیں۔ جبکہ حکمتِ عملی بنا کر حملہ کرنے والوں میں سپائیڈر منکی (spider monkey) شاطر جنگجو ہیں۔ عام طور پر درختوں میں رہنے والے یہ بندر حملہ کرتے وقت بڑی خاموشی سے زمین پر ایک قطار بنا کر ہمسائے پر حملہ کرنے پہنچتے ہیں۔ جبکہ زمین پر قبضہ کرنے کیلئے خونخوار جنگوں میں بھیڑیے چمپینزی کے ہم پلہ ہیں۔
اور بھیڑیے دوسرے کو آرام سے نہیں مارتے۔ اذہت پہنچا کر مارتے ہیں۔ ییلوسٹون پارک میں ایک ایسے حملہ میں دوسرے گروہ کی بوڑھی مادہ اور اس کے ساتھی کو مارا گیا۔ ان کے معائنے پر پیٹ اور سینے پر دانتوں سے بھنبھوڑے جانے کے نشان بتاتے تھے کہ ان پر گھنٹوں تک تشدد کیا گیا تھا۔
گومبے کی جنگ میں کی گئی سفاکی غیرمعمولی تھی۔ بھیڑیے اور چمپینزی اپنے شکار کرتے ہوئے ایسے خونخوار حربے استعمال نہیں کرتے جو دشمن کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوڈآل کے لئے گومبے کی جنگ غیرمتوقع تھی۔ وہ لکھتی ہیں۔
“کئی سال تک مجھے اس نئی معلومات کو ہضم کرنا مشکل رہا۔ کئی بار وہ خوفناک مناظر یاد کر کے رات کو آنکھ کھل جاتی تھی۔ ساٹان (ایک چمپنزی) سنف کے تھوڑی کے نیچے پنجے گاڑ کر اس کے چہرے پر لگے بڑے زخم سے ابلتے خون کو پی رہا تھا۔ بوڑھا روڈولف، جو عام طور پر اتنا بے ضرر ہوتا ہے، کھڑا ہو کر دو کلو وزنی پتھر سے گوڈی کا جھکا ہوا جسم کچل رہا تھا۔ جومیو اپنے مخالف ڈی کی ران سے کھال چیر رہا تھا۔ فیگان بار بار بھاگ کر اور بڑھ کر، گولیاتھ کے کانپتے ہوئے جسم پر ضربیں لگا رہا تھا۔ فیگان کے بچپن میں گولیاتھ اس کا ہیرو تھا”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply