سامنے تاحدِ نگاہ پھیلی برف کی اس سفید چادرکو اُلٹ سکوں تو نیچے کئی موسموں کے رنگ چُھپے ملیں گے۔ ابھی ابھی تو میری نگاہ رنگوں کے ایک طوفان سے نبرد آزما تھی ۔
یوں تو سرکاری اعلان کے مطابق کینیڈا میں موسمِ خزاں ستمبرسے کے اواخر میں آغاز ہوا تھا مگر کیا کریں کہ قدرت یا فطرت ان سرکاری فیصلوں کی پابند نہیں۔ سوموسم اپنی سی موج میں بدلتے بدلتے ہی بدلا تھا اور بہت دنوں بعد کہیں جا کر پٹ جھڑ کی اصل صورت نکلی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے درختوں کے سبز پتّے بھورے، سُرخ اور زرد رنگوں میں ڈھلنے لگے تھے۔ بارش کی بوچھار کے بعد کھلنے والی دودھیا دھوپ رنگوں کی اس آتش کو کچھ اور بھی بھڑکائے دے رہی تھی۔۔
یورپ ہو یا کینیڈا شمالی امریکا خزاں یہاں اداسی کا نہیں بلکہ ایک امنگ کا اور ترنگ کا موسم لگتا ہے۔ موسمی میلوں کا موسم، فن کاروں کو تخلیق کاری پر ابھارتا، کینوس پر عکس اتارنے کی دعوت دیتا اور خیال کو لفظوں میں ڈھالنے پر اصرار کرتا موسم۔ میں برس ہا برس سے دیکھ رہا ہوں پٹ جھڑ کے اگلے پڑاو میں تند و تیز ہوائیں آغاز ہوتی ہیں۔ برف باری سے پہلے وفادار پتّے بجھتے بجھتے بھی درخت سے ملنے والی اپنی تمام توانا ئیاں واپس درخت کو سونپ دیتے ہیں کہ وہ انہیں زمیں کی تہہ میں پھیلی اپنی گہری جڑوں میں محفوظ کر لے۔ آنے والے موسموں میں پھر سے کھلنے کے لیے۔ نئے پھولوں اور نئے پھلوں کے امکان کے لیے۔ پرندے قافلہ در قافلہ جنوبی خطے کا عزم کرتے ہیں۔ چہکار معدوم ہو جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وادی کا رنگا رنگ مکالمہ خود کلامی میں بدل جاتا ہے۔ ہواوں کے تیز تھپیڑے سہہ کر تھکے ماندے درخت سو جاتے ہیں برف کی سفید شال اوڑھ کر۔ ہاں، زرد رُو چاند گاہے گاہے بھٹکتا رہتا ہے ادھر ادھر کسی چشم گم کردہ خواب کی طرح۔ اجنبی اجنبی دھوپ کی پتیوں میں بھی برفیلا انجماد سرایت کرجاتا ہے۔ لیکن جناب یہ انسان بھی بہت ڈھیٹ مخلوق ہے۔ ٹک کر بیٹھنا تو گویا اس نے سیکھا ہی نہیں۔ مدِ مقابل کو دعوتِ مبارزت دینا اس کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ سو، موسم کی شدت کو بھی للکارتا رہتا ہے۔ تنگ نائے حالات میں بھی وسعتِ امکان کی منزل کھوج لیتا ہے۔ نیند کے صحرا کو خواب کا نخلستان دے دیتا ہے۔ جی کی خاموش اداسی کو شاعری سے اظہار عطا کر دیتا ہے، برف سے ڈھکے میدان اور چٹان کو تفریح گاہ بنا دیتا ہے۔ آئس سکیٹنگ اور اسکئینگ سے موسم کے اعلانِ انجماد کو چیلنج کرتا ہے۔ پھراسی دل چسپ اور با ہمت کشا کش کے دوران ایک روز پرندوں کی چہکتی ڈاریں جنوبی سفر سے لوٹنے لگتی ہیں اور آمدِ بہار کے سُرفضا میں بکھرنے لگتے ہیں۔ برف کی سفید چادر اُلٹ کر دھیرے دھیرے پیڑ بیدار ہو نے لگتے ہیں، جڑوں میں پس اندازکی ہوئی اپنی توانائی کو رفتہ رفتہ بروئے کارلانے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بھوری بھوری بے جان سی ٹہنیاں نمُو کے سر سبزپیغام سے آشنا ہونے لگتی ہیں۔ گہری گھنی وادی میں سورج کی تاب ناک کرن کُنجِ خواب میں دبکے تنہا پنچھی کوصبح بخیر کہتی ہے تو وہ بھی میری طرح سراپا حیرت بن کر پوچھتا ہے: ”کیا ہوا ؟
کیا بہار آگئی؟
کِھل اٹھا زخمِ خوابِ ہنر۔
پھر دہکنے لگی ہے نظر۔
یاد روشن ہوئی۔
اب کے کچھ اس طرح یاد روشن ہوئی۔
گھر کے تاریک کونے چمکنے لگے۔
میرے البم میں ٹھہرے ہوئے موسموں کو خبر ہو گئی۔
تیری مہکی ہوئی سرخ تصویر پر۔
پھول کس نے سجایا۔
بجھے خواب سے پھوٹتی۔
مرمرین کارنس سے اترتی ہوئی بیل۔
روشن انگیٹھی سے ہویی ہوئی۔
کیوں بھلا میز تک آگئی ہے۔
گلابی کہانی میں رکھا ہوا خواب کس نے چرایا؟
۔ مِرے حرف کے آئنے کو خزاں رنگ کس نے بنایا؟۔
نظر میں مہکتے ہوئے۔
میرے البم میں ٹھہرے ہوئے موسموں کو خبر ہو گئی۔
سبز شاخوں میں دبکا ہوا وقت خاموش ہے۔
اک پرندہ مگر پوچھتا ہے ابھی۔
کیا ہوا؟۔
کیا بہار آگئی؟
کِھل اٹھا زخمِ خوابِ ہنر۔
پھر دہکنے لگی ہے نظر۔
کیا بہار آگئی؟“۔
موسم بدلتے جاتے ہیں، کیلنڈر کے اوراق کی طرح پلٹتے جاتے ہیں۔ زندگی کے روپ بھی اسی طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سفر جاری رہتا ہے۔ ہر پڑاو منزل لگتی ہے اور ہر منزل ایک نئے سفر کے آغاز کا اعلان۔ زندگی ہے یا کوئی ہمہ رنگ طیف کہ میری نگاہ رنگوں کے ایک طوفان سے نبرد آزما رہتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں