گجرات کی انتہا پسندی اور بلاول/سیّد محسن علی

بھارت میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے متعلق دیے گئے بیان پر احتجاج کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ آپ بلاول بھٹو سے لاکھ سیاسی اختلاف رکھتے ہوں لیکن بحیثیت وزیر خارجہ اس نے یو این اسمبلی میں جس طرح بھارتی الزامات کے جواب میں جرات مندی سے بھارت کو آئینہ دکھایا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ہمیشہ کی طرح جب پاکستان پر دہشت گردی کے حوالے سے بے بنیاد الزامات لگا کر ہرزاہ سرائی شروع کی تو بلاول نے بھی نریندر مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا حوالہ دے کر انہیں قصاب سے تشبیہ  دیدی، جس پر بھارت میں خاصہ واویلہ ہوا ۔ خاص کر بھارتی نیوز میڈیا جو مسلسل پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف زہر گھولتا رہتا ہے اب بلاول بھٹو پر تلملایا ہوا ہے۔

ویسے بلاول کے لہجے کی سختی پر تنقید کربھی لی جائے، تو بھی اس تلخ حقیقت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی برسراقتدار جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی سیاست کا محور ہندوتوا کے انتہا پسند نظریے کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ امریکہ نے 2005میں مودی کوویزا دینے سے ہی انکار کردیا تھا اور اسی طرح کے نظریات برطانیہ کے بھی تھے ۔

لیکن افسوس کہ  بھارت میں ہندو توا اور پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وہی شخص بھارت کا پردھان منتری منتخب ہوگیا اوربھارت میں اسلام مخالف انتہا پسند حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے۔

اس کے بعد سے آج تک بھارت میں ہندومسلم تنازعات ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں۔ کبھی مسلمان خواتین کو حجاب کی پابندی پر پریشان کیا جاتا ہے تو کبھی مساجد سے اذان کی آواز پر اعتراض اٹھایا جاتا ہے۔ کبھی مسلمانوں کے مذہبی تہواروں سے تکلیف کا اظہار کیا جارہا ہے تو کبھی مساجد کی تعمیرات کو ناجائز ثابت کیا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کے معروف کرکٹر عرفان پٹھان نے سوشل میڈیا پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی جس میں ان کی اہلیہ حجاب لیے ہوئے تھیں تو اس پر بھی انہیں خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اتنے عرصے میں دوبار دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جن میں مسلمان آبادی کو سرکاری سرپرستی میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیااور بلوائیوں کو پولیس کی سپورٹ جاری رہی ۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ ثابت کرکے تدریسی کتابوں میں بھی تبدیلی کی جارہی ہے تو پاکستان یا اسلام مخالف فلموں کو خوب سپورٹ کیا جارہا ہے جس کی بڑی مثال کشمیر فائلز نامی فلم بھی ہے جس میں کشمیر میں ہندوپنڈتوں کو مظلوم اور مسلمانوں کو ان کا قاتل دکھایا گیا اور اسے حکومت کی طرف سے خصوصی ٹیکس چھوٹ بھی ملی۔

اس کے ساتھ بھارتی نیوز میڈیا مسلمانوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کے بجائے انتہا پسندوں کے دفاع میں ایسے ایسے بھونڈے دلائل پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ ان کی منفی صحافت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ  سواارب سے بھی زائد آبادی رکھنے والے بھارت کی عام جتنا کے بے شمار مسائل ہیں لیکن انہیں نظر انداز کرکے  میڈیا سارا سارا دن اپنے آقا مودی جی کی مالاجپتے ہوئے پاکستان یا پھر مسلمانوں کے خلاف وہ زہر گھولتا ہے جس کے اثرات اب ہمیں آئے روز کسی نہ کسی شکل میں نظر آتے ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومت پاکستان نے کئی بار بھارت سے مذاکرات کرنے کی پیشکش کی تاکہ  دہشت گردی اور کشمیر کے مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکالا جائے یا افہام و تفہیم سے دیگر معاملات بھی طے کیے جائیں لیکن بھارتی حکومت نے کبھی بھی ان معاملا ت کے سنجیدہ حل کے لیے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ کیونکہ اگر پاکستان سے امن و سلامتی کے معاملات طے پا جاتے تو بھارتی جنتا پارٹی کس منہ سے بھارت میں پاکستان دشمنی کی سیاست کا پرچار کرتی جو سلسلہ ابھی بھی تواتر سے جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوس ہمیں بھارت کی اس حکومت سے تو کوئی امید نہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں موجود کچھ صحافی اور یوٹیوبرحضرات ان تمام حقائق کو نظر انداز کرکے بلاول بھٹو کو ہی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply