ڈپریشن ڈائری : عابد میر/تبصرہ-نسرین غوری

ڈپریشن ڈائری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مصنف اور پبلشر عابد میر کی ڈپریشن کے دوران لکھے گئے احساسات پر مشتمل تحاریر ہیں۔ ایسی تحاریر جنہیں عام انسان شاید اپنی پرسنل ڈائری میں بھی احاطہ تحریر میں لانے سے گھبراتا ہے کہ وہ کہیں کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ کہیں کوئی اور نہ پڑھ لے اور اس کی ذات کے نیچ ترین پہلوؤں سے آگاہ نہ ہوجائے ،جن کا اعتراف وہ خود سے بھی کبھی نہیں کرتا کہ اس نے کچھ غلط کیا تھا۔

عابد میر سے ہمارا تعارف اللہ جانے کیوں اور کہاں سے شروع ہوا تھا ۔ ہمارا ان سے ابتدائی تعارف ان کی کتاب کے پہلے آرٹیکل ” میں نے ایک خاتون کو ہراس کیا” والی فیس بک پوسٹ سے ہوا تھا۔ شاید کسی مشترکہ دوست یا بلوچستان سے کسی سوشل میڈیا پبلک پرسنالٹی( جسے ہم فالوکرتے ہوں)   نے ان کی اس پوسٹ پر کمنٹ کیا تھا یا ری شیئر کیا تھا۔ اور بلوچستان سے ہمارا اور ہماری فیملی کا دِلی تعلق ہے۔ یو نو غریب لوگ جو شمال کی تفریحات افورڈ نہیں کرپاتے وہ جنوب کی طرف نکل جاتے ہیں ، تو بچپن سے ہی جنوب میں دائیں بائیں آوارہ گردیاں کرتے قدم بہ قدم ہم بلوچستان کی ساری ساحلی پٹی چاٹ چکے ہیں۔ جہاں جہاں جاسکتے ہیں کوئی کونا چھوڑا نہیں ۔ جو رہ گیا ہے وہ بھی ایک دن ناپ لیں گے ۔

خیر  ، تو یہ بہت چونکا دینے والا آرٹیکل تھا، جیسے شروع میں تذکرہ کیا کہ ایسا اعتراف جسے ہم خود سے بھی نہیں کرتے وہ سب کے سامنے پبلک  میں  کرنا ، بہت ہمت کا کام ہے۔ وہ بھی ایک مرد کا ، انسانوں میں سے “اشرف المخلوقات” کے درجے پر فائز اسپیشیز کا اعتراف کہ اس نے ایک’ سب ہیومن اسپشیز ‘کو ہراساں کیا تھا اور وہ اس پر شرمندہ بھی تھا۔ یہ دوسرا جھٹکا تھا کہ ایک تو اعتراف کرنا دوسرے اس پر شرمندگی کا اظہار بھی کرنا، ہم یعنی ہمارا معاشرہ تو اس کا عادی ہی نہیں۔ ایک مرد کبھی اپنے ایڈونچرز پر شرمندہ ہو، بھلا وہ بھی کوئی مرد ہوا۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کتاب ایسے ہی جھٹکوں سے بھری ہوئی ہے۔کتاب کا پہلا حصہ اعترافات پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ مصنف کے ڈپریشن کے دوران خود پر بیتے عذابوں کی کہانی ہے، یہ تیسرا جھٹکا ہے کہ کوئی مرد اپنی کمزوری کا(نفسیاتی بیماری یا عارضے)   اعتراف کرلے، اپنے ٹوٹ جانے، رو دینے، کھو دینے کا اعتراف کرلے۔ یہ سب مردانگی کی شان کے منافی رویے ہیں۔
لیکن کتاب پڑھ کر احساس ہوا کہ جو اعترافات مصنف نے اس مختصر لیکن پُر اثر کتاب میں کیے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہیرو بن گئے ہیں۔ اگر وہی اعتراف ایک عورت کرے کہ اس نے زندگی میں کس کس قسم کے ایڈونچرز کیے ہیں ریلیشن شپس کے حوالے سے ، یا ایڈونچرز کے بجائے صرف ایسا ہی تذکرہ کردے کہ ریلیشن شپس کے حوالے سے اس نے مردوں کے کیسے کیسے رنگ دیکھے ہیں یا کیسے کیسے احساسات سے روشناس ہوئی ہے۔ اسی قاری نے جو ایک مرد کی ہمت کی داد دے رہا ہے اس عورت کو ججمنٹ کی سولی پر چڑھا دینا ہے کہ کیسی آوارہ عورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply