انسانیت کی عظیم چھلانگ۔محمد شاہزیب صدیقی/حصہ اول

بلاشبہ انسان کا چاند پر پہنچ جانا ایسا عظیم کارنامہ  ہے جسے بہت سے لوگ آج بھی تسلیم کرنے سے انکاری نظر آتے ہیں۔ امریکہ ، یورپ، آسٹریلیا الغرض ہر براعظم میں ایسے لوگ  اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو ناسا کے تمام اپولو مشنز کو انتہائی بے مروتی سے بغیر ٹھوس دلیل کے اسے جھوٹ کا شاخسانہ قرار دے دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے اور زندہ سلامت واپس بھی آچکا ہے ۔ 1961ء میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چاند پر جانے کے لئے جو خواب دیکھے جارہے ہیں وہ اتنے حَسین نہیں جتنے نظر آتے ہیں ۔1958ء سے 1963ء تک ناسا نے انسان کو خلاء میں بھیجنے کی خاطر”مرکری پراجیکٹ” لانچ کیا ۔جس کے لئے اُس وقت 28 کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہوئے جبکہ 2 لاکھ امریکی ایکسپرٹس نے دن رات محنت کی ۔ اس پراجیکٹ کے تحت  20 unmanned مشنز خلا میں بھیجے گئے جبکہ 6 manned مشنز خلاء میں بھیجے گئے۔

انسان کو خلاء میں بھیجنے کے بعد سائنسدانوں کا اگلا نشانہ زمین سے قریب ترین ٹھکانہ تھا۔ اس ضمن میں ناسا نے 1961ء میں اپالو جبکہ 1966ء میں سروئیر(Surveyor)نامی پراجیکٹس لانچ کیے ،اپالو تقریباً 12 مشنز پر مبنی تھا جبکہ سروئیر 7 مشنز پر مبنی پراجیکٹ تھا۔سروئیر پراجیکٹ کے تحت 1966ء سے 1968ء تک چاند کے مختلف علاقوں پر  مختلف خلائی گاڑیاں اتار کر جائزہ لیا گیا کہ کون سی جگہ انسانوں کے اترنے کے موزوں ہے کون سی نہیں ۔ یہ خلائی گاڑیاں آج بھی چاند پر ان جگہوں پر موجود ہیں۔1961ء سے1967ء تک اپالو پراجیکٹ پر کڑی محنت کی گئی۔6 سال کی محنت کے بعد اپالو 1 کی لانچنگ کے متعلق ناسا کے سائنسدان پُر اعتماد دِکھنا شروع ہوگئے ۔ 27 جنوری 1967ء کو اپالو 1 کی ٹیسٹنگ کی گئی۔ اس کے عملے میں گیریسم، ایڈ وائٹ اور راجر شامل تھے ۔ ابھی عملہ اندر داخل ہوکر مختلف آلات کی آزمائش میں مصروف  تھا کہ راکٹ کے اس حصے میں آگ بھڑک اٹھی، ناسا کے عملے کی کوششوں کے باوجود ان خلاء بازوں کو باہر نہ نکالا جاسکا اور تینوں جل کر ہلاک ہوگئے ۔ ان انتہائی تجربہ کار خلاء بازوں کی موت نے ناسا کے اپالو پراجیکٹ کو شدید دھچکا پہنچایا اورپراجیکٹ کو تقریباً د و سال کے لئے معطل کردیا گیا لیکن ناسا کے ماہرین نے راکٹ کو بہتر بنانے کے لئے کام جاری رکھا۔ پراجیکٹ کی معطلی کے دوران اپالو 4،5،6 کو ٹیسٹ کرکے ان پر تحقیق کی گئی اور خامیوں کو ختم کیا گیا۔

11 اکتوبر 1968ء کو اپالو 7 لانچ کیا گیا ۔ خلاباز ڈان ایسیلے، سکیرا اور  کنینگم اس مشن کاحصہ بنے۔اپالو 7 نے تقریباً  11 دن زمین کے مدار میں گزارے اور اس کے بعد کامیابی سے لوٹ آیا۔ اس کامیابی نے سائنسدانوں کو بے پناہ حوصلہ دیا اور چاند کو چھُونے کی بےتابی بڑھنے لگی۔21 دسمبر 1968ء کو ناسا نے اپالو 8 لانچ کیا ۔ بورمین، ویلیم اور لوول اس مشن کا حصہ بنے۔یہ پہلا واقعہ تھا جب انسان پر مشتمل کسی راکٹ نے زمین کے مدار سے نکل کر چاند کے مدار کا چکر لگایا چونکہ اس دوران چاند پر اترنے کے لئے کیپسول بننے کے مراحل میں تھا اسی خاطر یہ خلاء باز چاند پر اتر نہ سکے مگر اس کے مدار میں رہ کر  اس کا انتہائی قریبی جائزہ لیا اور واپس آگئے۔

3 مارچ 1969ء کو اپالو 9 لانچ کیا گیا جس کے تحت  جیمز، ڈیوڈ اور رسل کو خلاء کے سفر پر روانہ کیا گیا جنہوں نے زمین کے مدار میں رہتے ہوئے navigation system، backup life support system اور انجنز کے متعلق معلومات حاصل کیں۔18 مئی 1969ء کو اپالو 10 لانچ کیا گیا ۔یوگین، تھامس اور جان ینگ اس تاریخی سفر کا حصہ بنے۔ یہ پہلا مشن تھا جو چاند پر اترنے کے مکمل آلات سے لیس تھا ۔ اس مشن نے چاند کی سطح سے محض 14 کلومیٹر اوپر اڑان کرکے انتہائی باریکی سے چاند پر  انسان کے اترنے کےلئے جگہوں کا چناؤ کیا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے چاند کے تاریک حصے کا بھی دورہ کیا اور یہ تین سائنسدان اب تک دنیا کے واحد انسان ہیں جنہوں نے سب سے دُور کے علاقے کا سفر کیا۔

16 جولائی 1969ء کو آخر کار ناسا نے مشہورِزمانہ اپالو 11 مشن لانچ کیا جس کا مقصد چاند کی سطح پر اترنا تھا ۔ اس مشن میں تین خلاء باز شامل تھے ، نیل آرمسٹرانگ، بز الڈرن اور مائیکل کولن۔یہ راکٹ 2 حصوں پر مشتمل تھا ایک حصے کا نام کولمبیا اور دوسرے کا نام ایگل رکھا گیا۔ کولمبیا دراصل وہ حصہ تھا جو کہ چاند کے گرد چکر لگاتا رہا  اس میں مائیکل کولن سوار تھے جبکہ ایگل نے چاند کی سطح پر لینڈ کیااس میں نیل آرمسٹرانگ اور بز الڈرن سوار تھے۔ ایگل کو چاند پر اترتے وقت اسے تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کے علاوہ لینڈنگ کے وقت معلوم ہوا کہ ایگل میں صرف 25 سیکنڈز کی اڑان کے لئے فیول رہ گیا ہے ! ایگل کے لینڈنگ کے فوراً بعد بز الڈرن نے مذہبی کلمات پڑھے جس کے بعد ایگل کا دروازہ کھول کر نیل آرمسٹرانگ یہ تاریخی جملہ کہتے ہوئے اترے “انسان کا ایک چھوٹا سا قدم، انسانیت کے لئے لمبی چھلانگ!” اس منظر کو اُس وقت دنیا بھر میں تقریباً 60 لاکھ انسانوں  نے ٹی وی پر دیکھا۔اگلے ڈھائی گھنٹے تک دونوں سائنسدانوں نے چاند پر چہل قدمی کی ،تصاویر کھینچیں، امریکا کا جھنڈا لگایا، پتھر اور گرد جمع کی۔ اس کے بعد نیل آرمسٹرانگ اور بز الڈرن واپس ایگل میں آگئے اور 7 گھنٹے تک نیند پوری کی ۔ اس کے بعد انہوں نے واپسی کی تیاری پکڑی تو معلوم ہوا کہ انجن کو آن کرنے والا سرکٹ بریکر ٹوٹ چکا ہے ۔

نیل آرمسٹرانگ نے بال پین کی مدد سے سرکٹ مکمل کیا اور انجن سٹارٹ ہوگیا یوں نیل آرمسٹرانگ نے خود کو اور بزالڈرن کو ہمیشہ کےلئے چاند کی سطح پر قید ہوجانے سے بچا لیا ۔ بز الڈرن اور نیل آرمسٹرانگ چاند پر امریکی پرچم اور ایک صفحے پر اپنا پیغام بمعہ آٹو گراف چھوڑ کر آئے، پیغام کچھ یوں تھا “ہم سیارہ زمین کے انسان ہیں  اور پہلے انسان ہیں جس نے چاند پر قدم رکھا ،جولائی ، 1969 عیسوئی ۔ہم سب کے لئے امن کا پیغام لائے ہیں”۔ انجن نے اڑان بھری اور کولمبیا راکٹ کےساتھ منسلک ہوگیا جہاں مائیکل کولن ان کے منتظر تھے ۔ 24 جولائی 1969ء کو یہ ہیروز زمین پر پہنچے تو انہیں فوراً دنیا سے الگ 3 ہفتے تک تنہائی میں رکھا گیا اس خدشے کے باعث کہ چاند سے کوئی جان لیوا جراثیم اپنے ساتھ نہ لائے ہو۔ لیکن 3 ہفتے بعد انہیں باہر لایا گیا اور عام پبلک نے ان کا استقبال کیا ، امریکی صدر نے ان کے لئے ظہرانے کا بھی اہتمام کیا۔ ٹی وی چینلز نے ان کے انٹرویوز لیے۔

بعدازاں 14 نومبر 1969ء کو ناسا نے اپالو12 مشن لانچ کیا ۔ پیٹے کونارڈ، ایلن بین اور گورڈن جونئیر نامی تین خلاء باز اس مشن کا حصہ بنے اور انسانی تاریخ میں دوسرا واقعہ تھا جب انسان نے چاند پر قدم رکھا۔ اس موقع پر انہوں نے چاند پر سات گھنٹے گزارے ،  مختلف پتھر جمع کیے ،اسی دوران انہیں سروئیر پراجیکٹ کی سروئیر 3 نامی خلائی گاڑی بھی ملی جس نے اپریل 1967ء کو چاند پر لینڈ کیا تھا۔ اِس کے حصے یہ سائنسدان تحقیق کی غرض سے اپنے ساتھ لے آئے  جب زمین پر آکر اس خلائی گاڑی پر تحقیق کی گئی تو سائنسدانوں کا منہ حیرت سے کھُلا کا کھُلا رہ گیا کیونکہ سروئیر 3 پر موجود بیکٹیریا چاند کی سطح پر 2 سال گزارنے کے باوجود زندہ اور صحیح سلامت تھے۔

یہ  انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جب کسی ایسی مشین پر تحقیق کی گئی جو 2 سال زمین سے باہر کسی علاقے میں گزار کر آئی تھی۔ اس واقعہ سے سائنسدانوں کو سبق ملا کہ یہ جراثیم انتہائی سخت ماحول میں بھی زندہ رہ لیتےہیں۔ اسی خاطر اب سائنسدان کسی خلائی گاڑی کو  کسی بھی سیارے کے کسی ایسے علاقے میں لینڈ نہیں کرتے جہاں زندگی کا چانس موجود ہو۔ اسی خاطر 4 ماہ قبل کیسینی خلائی گاڑی کو زحل  سے ٹکرا کر تباہ کردیا گیا کہ کہیں یہ اس کے چاند انسلادس سے نہ ٹکرا جائے کیونکہ وہاں گرم پانی کے سمندروں کے باعث زندگی کی موجودگی کا بہت زیادہ چانس ہے ۔اسی خاطر مریخ کی سطح پر مشن اتارنے سے پہلے سائنسدان بہت سوچ بچار کرتے رہے کہ کہیں زمین کے جراثیم مریخ پر پھیل گئے تو بعد میں تحقیق سے معلوم نہیں ہوپائے گا کہ آیا کہ مریخ پر پہلے سے کوئی زندگی موجود تھی کہ نہیں۔

بہرحال اپالو 12 مشن بھی کامیابی سے زمین پر لوٹ آیا۔ 11 اپریل 1970ء کو ناسا نے اپالو 13 مشن لانچ کیا ۔ جِم لوول، جیک  اور فریڈ کو اس مشن کے لئے چُنا گیا۔ اس مشن کو زمین سے پرواز کے گئے جب 2 دن گزر گئے تو راکٹ میں شارٹ سرکٹ کے باعث اس کا ایک آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تب یہ چاند کے مدار میں داخل ہوچکا تھا ، زمین سے اس قدر دُوری کے باعث سائنسدانوں نے ان تینوں خلاء بازوں کی موت یقینی قرار دے دی، کیونکہ آکسیجن ٹینک پھٹ جانے کے بعد آکسیجن بہت ہی کم مقدار میں تھی ۔ خلائی جہاز میں آکسیجن کے ذریعے سانس لینے کے علاوہ، آکسیجن کو راکٹ کے ایندھن ، بجلی اور پانی بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انسانیت کی عظیم چھلانگ۔محمد شاہزیب صدیقی/حصہ اول

Leave a Reply