ولادتِ نبی ﷺ کے وقت دنیا کے حالات(2،آخری حصّہ)-عمیر فاروق

عرب کے عہد عتیق کا خاتمہ بہت قبل ہی ہوچکا تھا جس کی متعدد وجوہات تھیں۔
یہودی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی شمال کی اسرائیل اور جنوب کی یہودیہ جن کی آپسی لڑائیاں رہتی تھیں لیکن جب بابل کے حکمران بخت نصر نے حملہ کرکے ہیکل سلیمانی کو تباہ کیا اور یہودیوں کو غلام بنا کر لے گیا تو یہ ریاست تباہ ہوگئی۔ ادھر لبنان میں فونیقیوں کو شمال کے حطیوں کی مسلسل یلغار کا سامنا تھا اور بالآخر لبنان کی ریاست دم توڑ گئی اور جن فونیقیوں نے غلام بننے سے انکار کیا وہ اپنی ملکہ کے ساتھ تیونس شمالی افریقہ میں واقع انکی کالونی قرطاجنہ یا کارتھیج کی طرف منتقل ہوگئے۔

جزیرہ نمائے عرب کے شمال یعنی عریبیہ پیٹرا کے زوال کی اب تک معلوم وجہ بائیبل کے مطابق لوط علیہ السلام کے دور میں اس کے شہروں بشمول سدوم و گمراہ پہ پتھروں کی بارش ہے۔ غالب امکان کسی زلزلے کا ہے جس نے پیٹرا کے واٹر چینلز اور شہر تباہ کر دیے تو باقی ماندہ آبادی خشک سالی کے باعث صحرانوردی پہ مجبور ہوئی اور پیٹرا کے بدوؤں کے نام سے اس علاقہ میں اب بھی خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہی ہے۔

جہاں تک عریبیہ  فیلکس یعنی یمن کے زوال کا تعلق ہے، یاد رہے کہ یمن، عریبیہ  فیلکس کی طرح مکمل زوال کا شکار کبھی نہ ہوا ،اس کی تاریخ کا تسلسل جاری رہا البتہ اجڑ ضرور گیا۔

ایک وجہ تو سد مآرب کا ٹوٹنا ہے جس کا ذکر قحطانی بدو عرب بھی اپنی زبانی روایت میں کرتے آئے اور مسلم تاریخ دان بھی۔ لیکن ایک اور وجہ اس کی تجارت کا زوال پذیر ہونا بھی ہے جو زراعت کے ساتھ ساتھ اسکی خوش حالی کا بڑا ذریعہ تھی۔ اس کی برآمدات کے بڑے خریدار اسرائیل اور لبنان تھے۔ حطیوں کے قبضہ کے بعد فونیقی یا تو ہجرت کر گئے یا انکے غلام تو انکی تجارت بھی دم توڑ گئی۔ اسی طرح یہودی  غلام بن کر بابل منتقل ہوگئے۔ یوں یمن کی بڑی مارکیٹ ختم ہوگئی دوسری وجہ عریبیہ پیٹرا کی بربادی تھی جب جب تجارتی قافلے طائف سے شمال کا صحرا عبور کرتے تھے تو عریبیہ  پیٹرا کے شہروں میں بالآخر انکو خوراک پانی اور آرام میسر ہوتا تھا لیکن اس کی بربادی کے بعد پڑاؤ کی یہ جگہ باقی نہ رہی۔ سائرس کی آمد کے بعد یہودی اپنے وطن کو واپس تو ہو گئے لیکن تب ایرانی یونانی اور بعد میں ایرانی رومن سلطنتوں کی محاذ آرائی نے اس خطے کو دو متحارب علاقوں میں بانٹ دیا اور پہلے کی طرح آزادانہ تجارت اور آمد و رفت باقی نہ رہی۔

خود عریبیہ  فیلکس کی آبادی اتنی زیادہ تھی کہ نیا سسٹم اس کا بوجھ نہ سنبھال سکتا تھا یوں بہت سے یمنی قبائل ہجرت پہ مجبور ہوئے اوس و خزرج شمال میں یثرب کے نخلستان میں زراعت کرنے لگے لیکن زیادہ تر قحطانی عرب بھی صحرائے عرب میں عرب باقیہ اور عرب مستعربہ( اسماعیلی عرب وغیرہ) کی طرح خانہ بدوشی کرنے لگے۔

یمنی تجارت میں رکاوٹ کی ایک وجہ چشمہ زمزم کے معدوم ہونے کی وجہ سے مکہ کا اجڑ جانا بھی تھی ۔ عہد عتیق میں طائف سے نکل کر شمال میں پیٹرا تک کے صحرا کے درمیان مکہ ایک اہم تجارتی پڑاؤ تھا جہاں پانی دستیاب ہونے کے باعث قافلے پڑاؤ کیا کرتے تھے۔ یوں مکہ کے مقام پہ صرف حجر اسود باقی رہ گیا وہ ایک ویران بیابان جگہ پہ پڑا ہوا تھا جہاں عرب قبائل سال میں ایک بار طواف کے لئے جمع ہوتے تھے اور انکا سالانہ میلہ منعقد ہوتا تھا۔ اس کے بعد سارا سال یہ ویران ہی رہتا تھا یہاں سے قافلے گزرنا بھی بند تھے اور یمن مشرق وسطی یورپ شمالی افریقہ سے کٹ چکا تھا۔
یہ دور کتنا عرصے پہ محیط رہا ؟ یقین سے نہیں کہا جا سکتا شاید  پانچ سو سال سے ایک ہزار سال تک ، یہ تحقیق کا ہی محتاج ہے البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ کی ویرانی عرب تاریک دور کا علامتی اظہار ہے جسے عرب مورخ زمانہ جاہلیت سے عنوان کرتے آئے۔

البتہ بالآخر مکہ کی یہ ویرانی عبدالمطلب کے دور میں ٹوٹنا شروع ہوئی جن سے کچھ قبل چشمہ زمزم کو دوبارہ سے دریافت کیا گیا اور اس کے آس پاس قریش کا قبیلہ آباد ہوا۔

تب باقی مشرق وسطی روم اور ایران کی محاربت کا شکار اور تقسیم تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالمطلب بیحد دوررس اور مدبر شخص تھے وہ بنی صلعم کے دادا نہ بھی ہوتے تو عرب تاریخ میں انکا اہم مقام ضرور تھا۔ انہیں یمن میں آنے والی بحر ہند کی تجارت کا بھی علم تھا کہ وہاں نہ صرف افریقہ بلکہ ہند ، ہند چینی اور چین سے آنے والے مصالحہ جات، عود و لوبان، ریشمی کپڑے اور ہندی فولاد پہنچتا ہے بلکہ مشرق وسطی اور مغرب میں انکی مارکیٹ کا بھی اندازہ تھا۔ اسی لیے قسطنطنیہ میں رومن سلطنت اور ایرانی سلطنت سے مکہ کے لئے تجارت کا خصوصی پروانہ حاصل کیا کہ مکہ سے آنے والے تجارتی قافلے بلا روک ٹوک ایران اور روم کی سرحدوں میں داخل ہوکر تجارت کر سکیں۔

اس کے ساتھ ہی مکہ نئے سرے سے آباد اور خوش حال ہونا شروع ہوگیا جہاں مشرق سے یمن آنے والا مال مکہ کے راستے مغرب کو جاتا تھا اور افریقہ کے غلام ، ہاتھی دانت، شیر چیتے زیبروں کی کھالیں براستہ جدہ کی بندرگاہ ایران کو برآمد ہوتی تھیں۔ یوں مکہ شہر اور اس کے تاجر خوش حالی کی طرف گامزن ہونے لگے۔ اور یہ شہر پھر سے بارونق ہونے لگا جہاں تجارتی قافلوں کی ریل پیل تھی البتہ مکہ کی معیشت کا تمام تر انحصار تجارت اور گلہ بانی پہ تھا زراعت یہاں کبھی نہ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ جہاں نبی صلعم کی آمد ، اسلام کے آغاز، عرب ریاست کے قیام اور مدینہ کے اس کا دارلحکومت بننا عرب تاریخ کے دور جدید کا آغاز تھا وہیں جب یہ عرب ریاست اسلامی یا عرب سلطنت میں تبدیل ہوئی اور مصر سے لیکر ایران و شام تک کا علاقہ فتح ہوا اس نے مکہ کو پھر سے غیر اہم کرنا شروع کردیا کیونکہ بحر ہند کی تجارت پہ روم و ایران کی پرانی مخاصمت کی وجہ سے حائل پابندیاں دور ہوگئیں تو یمن اور عدن کی بجائے بصرہ مشرقی تجارت کی اہم ترین بندرگاہ بنتا گیا اور مغرب سے تجارت میں مصر اہمیت اختیار کرتا گیا۔ اس کے بعد مکہ کی حیثیت مذہبی مرکز کے طور پہ رہ گئی۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply