ویسے تو یہ سوال کرنے والا راندہ درگاہ ہی تصور ہوتا ہے ، بے دین ، مذہب بیزار ، علما ومدارس کا دشمن وغیرہ وغیرہ جیسے القابات کا مستحق قرار پاتا ہے۔لیکن کیا ان مدارس سے منسلک کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس سوال بارے غور کر سکے ؟
دکان پر بیٹھے ہوئے تقریباً روازنہ ہی کوئی نہ کوئی مدرسے والا چندہ مانگنے کے لیے آیا ہوتا ہے ، ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی فائل ہوتی ہے جس میں کچھ کاغذی اسناد ہوتی ہیں ، وزیٹنگ کارڈ ہوتا ہے جو کہ تمام چیزیں کسی بھی پرنٹنگ پریس سے با آسانی چھپوائی جا سکتی ہیں اور سب سے بڑھ کر حلیہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا کہ بھائی جب مدرسہ چلا نہیں سکتے تو پھر کھولتے کیوں ہو ؟
گاؤں دیہات میں ایسا مدرسہ بناتے کیوں ہو جہاں رہائشی طلبہ کو بھی بلوا لیتے ہو اور وہاں مدرسہ چلانے کے لیے مناسب رقم کا بندوبست بھی نہیں ہو سکتا ، ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہائشی مدرسے کی کیا ضرورت پڑ گئی کہ اس مدرسے کے انتظامات کے لیے در در جانا پڑے ، ہاتھ پھیلانے پڑیں؟
چلیں کچھ دیر کے لیے یہ باتیں ایک طرف رکھتے ہیں اور تعلیم کے مقاصد پر بات کرتے ہیں۔
تعلیم چاہے مذہبی ہو یا عصری ہو اس کا کوئی نا کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے ، اچھا علم وہی ہے جس سے دوسروں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کم از کم پڑھنے والے کی ذات کے لیے ضرور نافع ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی ڈاکٹر بنتا ہے تو خود تو پیسے کماتا ہی ہے لیکن اس کی وجہ سے کئی لوگ صحت یاب ہوتے ہیں ، انجینئر کی وجہ سے انڈسٹری چلتی ہے اور ملک ترقی کرتا ہے ، پیسے کی سرکولیشن بڑھتی ہے ، وکیل کی وجہ سے انصاف کی فراہمی ہوتی ہے ( اگر وہ ٹھیک کام کرے )
ہم یہاں بنیادی تعلیم یعنی سکول کی پڑھائی کی بات نہیں کر رہے کیونکہ اب تو مدارس میں بھی میٹرک تک تعلیم کو ضروری قرار دیا جا چکا ہے ، یونیورسٹی کالج سے پڑھنے والے کا ایک مقصد ہوتا ہے کہ اس نے پیسہ بھی کمانا ہے اور اگر ہو سکے تو ایسا کام بھی کرنا ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔
اگر آپ غور کریں گے تو اپنے ارد گرد کسی بھی شعبے والے کو دیکھ لیں جو خود تو اپنی کمائی کے لیے جدوجہد کر رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ معاشرے کی ایک ایسی اَن دیکھی زنجیر کا حصّہ ہوتا ہے جس سے نظام چل رہا ہوتا ہے۔
اگر محلے میں سب انجینئر ، ڈاکٹر یا وکیل موجود ہوں اور کوئی بھی صفائی کرنے والا نہ ہو تو محلہ کوڑے دان بن جائے گا ، بدبو اور تعفن کا مرکز بن جائے گا ، اگر گٹر بند ہو جائے تو کمروں میں بھی گندہ پانی بھر جائے گا پس معاشرے میں صفائی کرنے والا بھی ایک اَن دیکھی زنجیر کے ساتھ جڑ کر اپنے حصے کا کام کر رہا ہوتا ہے۔
مدارس سے فارغ ہونے والوں کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟
اوّل مقصد تو مسجد کے نظام کے ساتھ جڑنا ہوتا ہے ،لا محالہ ہر مسجد کو امام و مؤذن کی ضرورت ہوتی ہے اور اس ضرورت کو مدارس سے فارغ التحصیل لوگ ہی پورا کرتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں مساجد کی تعداد اپنی ضرورت سے زائد ہی ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک کلومیٹر کے دائرے میں ایک مسجد ہونی چاہیے ( مسجد کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کا میل ملاپ ہو اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آ سکیں ) لیکن بعض جگہوں پر ہر گلی میں مسجد موجود ہے بلکہ میں نے تو ایک گلی میں دودو مساجد بھی دیکھی ہیں۔
نئی بننے والی کالونیوں ، سوسائٹیز میں مسجد کی جگہ پہلے سے ہی نقشے میں موجود ہوتی ہے اور انتظامیہ ہی اس کو بنوا کر دیتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مساجد کم ہیں جبکہ امام و مؤذن کی خدمت کے لیے درکار مدارس کے فارغ التحصیل کی لائنیں لگی ہوئی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسجد کی خدمت پر مامور یہ لوگ اس تنخواہ پر بھی کام کرنے کے لیے راضی ہیں کہ جس پر ایک عام مزدور بھی کام کرنے سے انکار کر دیتا ہے ، ایک امام کی اوسطاً تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے جبکہ ایک مزدور ایک ہزار روپے دیہاڑی لیتا ہے ، آپ کسی مزدور کو پانچ سو کی آفر کریں تو وہ اسے دھتکار دے گا جبکہ ایک مسجد کے امام صاحب اگر اس وجہ سے مسجد چھوڑ دیں کہ تنخواہ کم ہے تو اسی وقت دس لوگوں کی اس امامت کو حاصل کرنے کے لیے لائن لگ جائے گی جو اس سے بھی کم تنخواہ پر راضی ہو جائیں گے۔
دوسرا مقصد علم کو آگے بڑھانا ہے اور اس کے لیے مدارس کھولے جا رہے ہیں اور یہاں بھی وہی حال ہے کہ مدرسے میں نوکری حاصل کرنے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں ( تفصیل آپ بخوبی جانتے ہیں)
دین کو پھیلانے کے لیے صرف یہی دو کام ہیں جن کی معاشرے میں ضرورت ہے لیکن غور کیا جائے تو ہم اس وقت اپنی ضرورت سے بہت زیادہ فارغ التحصیل بنا رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مدارس کو بند کر دیا جائے ، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نظام بنایا جائے ، انھے واہ بغیر سوچے سمجھے بغیر منصوبہ بندی کے جو بھی کام کیا جائے تو اس کا نتیجہ غلط ہی نکلتا ہے ، جو آٹھ سال کا ڈیڑھ سو سال پرانا نصاب ہے اس کو سمیٹ کر دو سال میں پورا کیا جا سکتا ہے۔
باقی باتیں پھر کبھی سہی !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں