خاندانی منصوبہ بندی کی شرعی حیثیت/عرفان شہزاد

اولاد کی خواہش ہونا فطری امرہے۔ تاہم، اولاد پیدا کرنا دین کا کوئی حکم نہیں۔ یہ دین کا موضوع نہیں، اس لیے قرآن مجید میں اس کے لیے کوئی نص بھی موجود نہیں۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے اس کے لیے ایسے منصوبہ بندی اختیار کرنی چاہیے جیسے دیگر دنیاوی امور میں عقل عام کا رویہ ہے۔
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے منسوب ایک ارشاد سے البتہ کثرت اولاد کا استدلال کیا جاتا ہے۔ روایت میں بیان ہوا کہ اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ پیار کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہو اور یہ کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنی امت کی کثرت کی بنا پر دوسرے انبیا پرفخر کریں گے۔
یہ ارشاد محض زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب نہیں، بلکہ قابل فخربچے پیدا کرنے کی تلقین ہے، اور قابل فخر بچے وہی ہو سکتے ہیں جن کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا ممکن ہو۔ اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی تعداد والدین کے وسائل کےمطابق ہو۔
کثرت اولاد سے متعلق رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ارشا دات کو آپؐ کے دور میں مسلمانوں کو درپیش حالات کے تناظر میں ایک انتظامی ضرورت کے تناظر میں دیکھا جانا معاملے کی تفہیم میں مددگار ہو سکتا ہے۔آج کی حکومتیں جس طرح اپنے ملک کے حالات کےتقاضوں کے پیش نظر لوگوں کو کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، اسی طرح حالات اگر تقاضا کریں تو آبادی بڑھانے کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ایک قبائلی تمدن میں کھڑے تھے،جہاں افرادی قوت، طاقت کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کیا کرتی تھی۔ اس وقت مسلماوںں کی مختصر تعداد اپنے سے کئی گنا بڑے دشمنوں سے برسرپیکار تھی۔ مستقبل میں روم و ایران سے جنگیں پیش آنا بھی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے علم میں تھا۔ ادھر مال غنیمت اور خراج بھی مدینے میں وافر مقدار میں آنے
لگےتھے، جس سے معاشی صورت حال بھی بہتر ہو رہی تھی۔ ان حالات میں آبادی بڑھانے کی ترغیب مصلحتاً برمحل تھی۔ لیکن اسےہر گھرانے، ہر دور اور ہر سماج کے حالات کے لیے ایک مطلق ہدایت سمجھ لینے کی کوئی وجہ نہیں ۔
قرآن مجید اولاد اور کھیتی کا تقابل کر کے اس طرف رہنمائی کرتا ہے کہ اولاد ہو یا کھیتی اسے پیدا خدا ہی کرتا ہے مگر اس کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔چنانچہ کھیتی کی طرح اولاد کو بھی پیدا کرنے سے پہلے وہ تمام منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو ایک کسان فصل بونے سےپہلے کرتا ہے ،آیات ملاحظہ یجیے:
أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ ‎ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ ‎ [القرآن، 56: 58)
پھرکبھی سوچا ہے، یہ نطفہ جو تم ٹپکاتے ہو،اُس سے جو کچھ بنتا ہے، اُسے تم بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں؟
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ‎ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (القرآن، 63-64)
پھرتم نے کبھی سوچا ہے، یہ جو کچھ تم بوتے ہو،اِسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں؟
یہ دونوں عمل ایک ہی اصول پر مبنی ہیں کہ کوشش انسان کرتا ہے باقی سب خدا کی قدرت کرتی ہے۔ خدا پر بھروسے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ فصلیں اندھا دھند اگا لی جائیں اور پھر ناقص منصوبہ بندی کی بنا پر انھیں ضائع ہوتے دیکھتے رہیں، اسی طرح اولاد کو بھی بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیدا کر لینا ایک نامعقول عمل ہی کہلائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عزل سے نہیں روکا، جو منصوبہ بندی کی ایک تدبیر ہے ۔ تاہم،صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں عزل کو “واد خفی” (خفیہ طور پر زندہ درگور) کہا گیا ہے، جس کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا:
ثُمَّ سَأَلُوهُ عَنِ الْعَزْلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ»، زَادَ عُبَيْدُ اللهِ فِي حَدِيثِهِ: عَنِ الْمُقْرِئِ، وَهِيَ: {وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ}
لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ یہ واد خفی ہے۔“ عبیداللہ کی روایت میں مقری سے یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی ہے وہ موؤدہ ہے قیامت میں جس کے بارے میں سوال ہو گا۔“
یہ روایت ان کثیر اور مستند روایات کے خلاف ہے جس میں عزل کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ عمل اگرغلط، جرم اور حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی اجازت کبھی نہ دیتے۔ خوش قسمتی سے ترمذی کی ایک روایت اس تناقض کو حل کر دیتی ہے:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا نَعْزِلُ، فَزَعَمَتِ اليَهُودُ أَنَّهَا الْمَوْءُودَةُ الصُّغْرَى، فَقَالَ: كَذَبَتِ اليَهُودُ، إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُ
رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یہود کہتے ہیں کہ عزل بھی ایک چھوٹی قسم کی مودۃ (یعنی بچی کو زندہ درگور کرنا) ہے۔ اس پر حضورؐ ؐنے فرمایا: ’’یہود جھوٹے ہیں۔ اگر اللہ کسی کو پیدا کرنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں جو بات رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہوگئی ہے وہ درحقیقت یہود کا خیال تھا جس کی تردید رسول اللہ ﷺ نے کی تھی، مگر روای کے تصرُّف نے تردید کو تصویب سے بدل دیا۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply