فوج میں گزرے روز و شب(9)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

تھوڑی دیر میں ہیلی کاپٹر کا شور سنائی دیا  تھا اور ہم دفتر سے باہر آ کر ہیلی پیڈ کے کنارے پر کھڑے ہو گئے تھے۔ ہیلی کاپٹر اترا، اُس میں سے بریگیڈ ئیر داؤد اور ایک کرنل باہر نکلے تھے اور دفتر کی جانب چلے گئے تھے۔ میں کھڑا رہا اور جب میجر چیمہ پائلٹ سیٹ سے نکلے تو میں ان کے قریب گیا تھا اور انہیں بتا یا تھا،’’ سر میں آج آپ کے ساتھ جاؤں گا‘‘۔ وہ صحیح جٹ آدمی تھے مذاق کے لہجے میں گویا ہوئے تھے،’’ میں ایک مجرمانہ ذہنیت کے حامل شخص کو اپنے ہمراہ نہیں لے جا سکتا‘‘۔ یہ فقرہ انہوں نے انگریزی میں کہا تھا۔
میں اچک کر ہیلی کاپٹر کی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا اور بیلٹ باندھ کر کہا تھا،’’ آج تو آپ ساتھ لے کر ہی جائیں گے‘‘۔ ان کی نگا ہ سامنے دفتر کی جانب تھی وہ ہڑبڑا کر بولے تھے،’’ اوئے نیچے اترآ ۔ کمانڈر آرہے ہیں۔‘‘ میں جلدی سے اتر کر ایک طرف ہو گیا تھا۔ کمانڈر بریگیڈئیر داؤد کو میں نے سیلوٹ کیا تو وہ میری طرف چھڑی کا اشارہ کر کے بولے تھے، ’’کیپٹن مرزا آج تم نہیں جاؤ گے کیونکہ میرے ساتھ ریکی Recoinessence کے لیے کرنل ضیاء ہیں۔‘‘
یہ حکم دے کر وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے تھے اور میجر چیمہ چمکتی آنکھوں اور مسکراہٹ بھرے چہرے کے ساتھ سیٹ پر بیٹھے کھڑکی سے میری طرف دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں’’ دیکھا میں تمہیں ساتھ نہیں لے جا رہا‘‘ ۔ ہیلی کاپٹر اڑ گیا تھا۔ میں تھوڑی دیروہیں موجود رہا تھا، پھر ایم آئی روم ( میڈیکل انسپیکشن روم) میں چلا گیا تھا۔ ٹوپی اتار کردور پھینکی تھی اورکہا تھا،’’ چائے لاؤ‘‘۔ ایک بغیر وردی کے فوجی نے مجھے اچانک کہا تھا ’’ سر کوئی جلسہ ولسہ کرنا ہو تو لوگ اکٹھے کر لیتے ہیں‘‘ ۔مجھے اس کا یہ انداز بُرا لگا تھا۔ میں نے پوچھا تھا، ’’ کون ہو تم اور کیا کہہ رہے ہو‘‘؟ ’’ سر میں سب جانتا ہوں، میجر اقبال نے کہا تھا کہ آپ کا خیال کریں‘‘۔

اُس کا فقرہ مکمل ہوا ہی تھا کہ ہر طرف سے سیٹیاں بجانے کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ میں جلدی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ بھگڈر مچی ہوئی ہے اور لوگ سڑک کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ میں نے باہر کھڑی جیپ میں بیٹھ کر ڈرائیور کو چلنے کا حکم دیا تھا۔ راستے میں ہمیں پتہ چلا کہ ہیلی کاپٹر گر گیا ہے۔ ہم شہر سے مخالف سمت میں جا رہے تھے۔ لوگ ہر طرف بھاگ رہے تھے جن میں فوجی اور عام لوگ سبھی شامل تھے۔ میں نے ایک جگہ جیپ رکوائی تھی اور کھائی میں اترنا شروع کر دیا تھا۔ دو ایک اور لوگ بھی ساتھ تھے۔ کھائی میں پہنچ کر ایک پہاڑی پرچڑھے تھے۔ اس کی ڈھلوان سے اُتر کر جب دوسری پہاڑی کے اوپر چڑھے تو میں نیچے کا منظر دیکھ کر حواس باختہ ہو گیاتھا۔ نیچے گہرائی میں نالے کے کنارے ہیلی کاپٹر پاش پاش ہوا پڑا تھا۔ لوگ نیچے پہنچ چکے تھے۔

مقامی لوگ اور فوجی دو افرادکو چادروں میں باندھے اوپر چڑھ رہے تھے۔ میں چند لمحوں کے لیے ایک چٹان پر بیٹھ گیا تھا۔ میجر چیمہ واقعی مجھے ساتھ نہیں لے کر گئے تھے۔ میں دو اترائیاں اور دو چڑھائیاں طَے کر کے تھک چکا تھا۔ سب سے پہلے میں نے اپنی جیب سے ڈاک کا وہ لفافہ نکال کر پارہ پارہ کیا تھا جس میں موجود خط میں میں نے اپنی والدہ کو لکھا تھا کہ شاید یہ میرا آخری سفر ہو۔ میرا ارادہ تھا کہ یہ خط میجر چیمہ کو دے دوں گا جو اسے پوسٹ کر دیں گے ۔ میں نڈھال ہوکر نیچے اترا تھا۔ بریگیڈیئر داؤد، کرنل ضیاء اور ہیلی کاپٹر کا پٹھان ٹیکنیشن تو موقع پرہی ہلاک ہو گئے تھے۔

لیفیٹنٹ خالد اور میجر چیمہ کی سانسیں باقی تھیں۔ لوگ اِن ہی دو زخمیوں کو لے کر اوپر چڑھے تھے۔ ڈی کیو نے جب مجھے دیکھا تو چیخا تھا، ’’ ڈاکٹر جلدی اوپر پہنچو‘‘۔ میں لشتم پشتم پھر پہاڑی چڑھنے لگا تھا۔ انسانی جانوں کا معاملہ تھا۔ جب ایک مقامی شخص نے دیکھا کہ میرے چڑھنے کی رفتار کم ہے تو اُ س نے مجھے کہا تھا،’’ سر آپ میری کمر پر سوار ہو جائیں‘‘۔ میں ہچکچایا تو اس نے درد بھری آواز میں یقین دلانے کے انداز میں کہاتھا، ’’ بیٹھ جائیں سر‘‘۔ میں نے ویسا ہی کیا تھا۔

وہ بندر کی سی پھرتی کے ساتھ مجھے اٹھا کر اوپر پہنچا تھا۔ لیفیٹنٹ خالد تو اوپر پہنچتے پہنچتے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے مگر میجر چیمہ میں ہلکی سی جان تھی۔ احمق کیپٹن گل نے ان کے سرکی چوٹ کا خیال کیے بغیر، جلد بازی میں انہیں مارفین کا انجکشن لگا دیا تھا اور یوں وہ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے تھے۔ حادثہ بہت جانکاہ تھا۔ لوگ مجھے زندہ بچ رہنے کی مبارک باد دے رہے تھے۔ زندگی اور موت تواس ہستی کے ہاتھ میں ہے۔جب آنی ہو گی تو کچھ بھی اور کوئی بھی اس کی راہ نہیں روک سکے گا ۔ جب نہیں آنی ہوتی تو کوئی بھی مرض اور کوئی بھی آفت اس کا موجب نہیں بن پاتی۔

فائنل ائیر ایم بی بی ایس میں امراض نسواں کا آپریشن تھیٹر،کلاس کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ ایک پینتالیس پچاس برس کی عام سی مہربان عورت کا آپریشن تھا۔ آپریشن سے پہلے اس کے چہرے پہ خوف کے آثار تھے۔ میں نے اسے تسلی دلانے کی کوشش شروع کی تھی۔ عورت کہتی تھی،’’ کہیں میں مر ہی نہ جاؤں‘‘ ۔’’ بی بی عام سا آپریشن ہے اِس سے کوئی نہیں مرتا‘‘ میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہاتھا۔ پھر ماہر بے ہوشی نے اسے بے ہوش کر دیا تھا۔
پروفیسر نسیم آرا ء شاہ صاحبہ بے حد دبلی پتلی خاتون تھیں۔ ازلی ناکتخدا۔ انہیں گاؤن اپنے گرد لپیٹ کر بکسواء لگا نا پڑتا تھا۔ انہوں نے عورت کا پیٹ چیر دیا تھا، بچے دانی میں کوئی دس کلوگرام کی رسولی تھی جس میں ہک لگا کر ان سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ ادھر ادھر ہاتھ مارے جا رہی تھیں۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ پروفیسر کو کہتا کہ آپ غلط کر رہی ہیں۔ یقین جانیں خون بہتے بہتے عورت آپریشن کی میز پر ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ پروفیسر، ماہر بیہوشی کو اور وہ پروفیسر کوالزام دے رہا تھا لیکن اِس عورت کی موت اسی طرح ہونی تھی۔ ایسے آپریشن میں موت کا چانس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، نا اہلی کہا جائے یا بے توجہی مگر اسے موت آ گئی تھی۔ اِس کے برعکس جب میں تیسرے سال میں تھا تو میری والدہ کے رقعے کے ساتھ کچھ لوگ ایک مریض کو لے کر آئے تھے۔ اس مریض کا رنگ موت کے رنگ سے بھی زیادہ زرد تھا۔ اُس کی سانسیں بس اٹکی ہوئی تھیں۔ لگتا تھا وہ نہیں بچے گا۔ اسے داخل کر لیا گیا تھا۔ شام تک اس کے سینے سے بالٹی بھر کے پیپ نکالی گئی تھی۔ وہ تین روز بعد رو بصحت تھا۔

مرنے والے پائلٹوں کا ایک نوجوان ساتھی نیوی کا لیفٹینٹ ظفر تھا اس کو جب حادثے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ دوسرے ہیلی کاپٹر پر ان کی مدد کے لیے پہنچا تھا۔ ظاہر ہے اسے تو یہی اطلاع ہو گی کہ اس کے ساتھی زخمی ہیں، اُ س نے دیوانہ وار جس جگہ ہیلی کاپٹر گرا تھا وہاں سے تھوڑی ہی دور دریا کے کنارے پر ہیلی کاپٹر اتار لیا تھا جو جرأت اور تعلق کا ہی مظاہرہ کہلا سکتا تھا۔ ملبے کے پاس لوگ ابھی تک کھڑے تھے مگر اُ س کے ساتھیوں کی لاشیں اوپر تھیں۔ جہاں سے میرے علاوہ اور لوگ بھی اس کی وارفتگی کو دیکھ رہے تھے۔ اسے جب حقیقت حال معلوم ہوئی تھی تو وہ بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر رویا تھا۔ پھر فرض کی انجام دہی کے لیے اس نے اسی حالت میں ہیلی کاپٹر دوبارہ اڑایا تھا اور ہیلی پیڈ پر لا کھڑا کیا تھا۔ لاشیں بھی وہاں پہنچ گئی تھیں۔

اِس اثناء میں میرا کرنل بھی گوری کوٹ سے استور پہنچ چکا تھا اور مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ہیلی کاپٹر میری وجہ سے گرا ہو یا شاید اسے قلق تھا کہ میں کیوں زندہ بچ رہا تھا۔ میں اِن کی نظروں سے بچنے کے لیے ایم آئی روم میں چلا گیا تھا۔ دو چار مریض دیکھے تھے اور وہاں موجود میل نرس سے پوچھا تھا کہ وہ کون شخص تھا جو ہیلی کاپٹر کے حادثے سے پہلے مجھے جلسہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ اس نے بتا یا تھا کہ وہ ایف آئی یو (فیلڈ انٹیلی جنس یونٹ) کا حوالدار یعقوب ہے اور ہمیں آپ کے بارے میں بہت باتیں سنا تا ہے کہ آپ ملتان میں سیاسی طور پر کِس طرح سے فعال تھے۔ شاید بیچارے یعقوب کی شامت میرے ساتھ ہی آئی تھی جسے ملتان سے یہاں پہاڑوں پر میری نگرانی کے لیے بھیجا گیا تھا۔

اب تو میں کرنل کی گردن پر سوار تھا۔ ہیلی کاپٹر کے حادثے کی تحقیقات تک مزید ہیلی کاپٹر آنے کی توقع نہیں تھی اور آگے جانے کی خاطر پیدل سفر کے راستے مئی میں کھلتے تھے۔ شام کوہمیں گوری کوٹ پہنچنا تھا۔ پہر چڑھے گوری کوٹ سے میرا بیٹ مین پہنچا تھا اور بھاگ کر میرے گلے لگتے ہی بری طرح رویا تھا۔ افسر کے گلے لگنا خلاف اصول بات تھی لیکن ظاہر یہی تھا کہ وہ میرے زندہ بچ جانے پر خوشی میں آنسو بہارہا تھا۔ اس نے اور ہی کہانی سنائی تھی یہ کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ ہیلی کاپٹر غائب ہوگیا ہے، افواہ اڑ گئی تھی کہ کیپیٹن مرزا پستول کی نوک پر ہیلی کاپٹر اغوا کر کے ہندوستان لے گئے ہیں۔ اُس نے کہا تھا،’’ میں بہت ہی دکھی ہوا تھا کیونکہ آپ ایسے (بُرے) لگتے نہیں تھے۔‘‘ پھر اُ س بیچارے نے اپنی استطاعت کے مطابق میری حب الوطنی پر آنچ نہ آنے کی خوشی میں مجھے تحفے بھی دیے تھے۔

اب میں اور حفیظ خان کرنل کے گلے کا ہار تھے۔ کبھی کبھار وہ ہم میں سے کسی ایک کو مریض دیکھنے کے لیے استور بھیج دیا کرتے تھے اور بس۔ ہمارے کرنے کو وہاں کوئی کام تھا ہی نہیں۔صبح صبح وردی ڈاٹ کر کرنل کے ہمراہ جیپ میں بیٹھ کر یونٹ چلے جاتے تھے اور دو بجے واپس آجاتے تھے۔ ان کے ہمراہ دوپہر اور شام کا کھا نا کھا کر ان کے سینے پر مونگ دلتے تھے۔ بعض اوقات ہم صبح کو تیار ہوتے ہوئے تاخیر بھی کر دیا کرتے تھے کیونکہ ہم دونوں کے استعمال کے لیے ایک ہی غسل خانہ تھا۔ وہ جھنجھلایا کرتے تھے۔ ایک صبح تو وہ ہمارے بغیر ہی اکیلے یونٹ چلے گئے تھے لیکن ہمارے تیار ہونے کے آدھ گھنٹے کے بعد جیپ بھجوا دی تھی۔ ہم جیپ کے استعمال سے انکار کرتے ہوئے پیدل یونٹ پہنچے تھے۔ بالآخر ہماری ہٹ دھرمی سے تنگ آکر یا متاثر ہوکر انہوں نے ہم سے خوشگوار تعلقات استوارکر لیے تھے۔ اب ہم شام کو Scrabble اکٹھے کھیلتے تھے۔

اس پہاڑی خطے میں تنہائی اور اکتا ہٹ سے جان جاتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ سیر کی جا سکتی تھی یا پھر سیب کے چھوٹے چھوٹے دو ایک باغوں میں جا کر پھل توڑ کر کھائے جا سکتے تھے۔ حفیظ میڈیکل کی کتابوں کے علاوہ اور کتا بیں نہیں پڑھتا تھا البتہ میں باہمی گفتگو سے نڈ ھال ہوکر کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ کردلچسپی کا سامان کرنے کی کوشش ضرور کیا کرتا تھا۔ حفیظ آگے جانے کے لیے بے چین تھا کیونکہ وہ بنیادی طور پر صرف ڈاکٹر تھا اور اسے اپنے پیشے کے ساتھ عملی وابستگی نہ ہونے کا قلق کھائے جا رہا تھا۔ اللہ اللہ کر کے ہیلی کاپٹر سروس بحال ہوئی تو پہلے ہی ہیلی کاپٹر پر حفیظ خان کو بھجوایا گیا تھا۔ اب صرف میں اور کرنل صاحب رہ گئے تھے۔انہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا تھا۔ دو ہفتے بعد ہیلی کاپٹر پر استور سے بیٹھ کر میں بھی ’’ گُل تری‘‘ کے لیے پرواز کر گیا تھا۔ ایک تو یہ میری ہیلی کاپٹر کی پہلی پرواز تھی دوسرے ہیلی کاپٹر سے باہر کا منظر بہت ہی خوبصورت نظرآتا تھا۔ برف سے ڈھکے پہاڑ ، نالے اور گھروندے۔ پھر گھروندے دکھائی دینے بند ہو گئے تھے۔ پائلٹوں نے ہیلی کاپٹر کے شور سے بچانے کے لیے میرے کانوں پر بھی ہیڈ فون لگا دیے تھے۔ ہم درہ برزل کے پاس پہنچے تھے ۔

اُس کو عبور کرنے کی خاطرہیلی کاپٹر کو ایک خاص بلندی تک لے جانا پڑتا تھا۔ ہیلی کاپٹر ایک ہی نقطے پر گھر گھر گھر گھر کرتا ہوا اٹھتا تھا، عبور کرنے کالمحہ ہی نہیں آتا تھا کہ وہ ٹھک سے اسی مقام پر آجا تا تھا ،جہاں سے درّہ پھلانگنے کے لیے بلند ہوناشروع کرتا تھا۔ دو بارایسا ہوا تھا، تیسری بار یہ اڑن کھٹولہ سد سکندری طَے کر گیا تھا۔ ایک پائلٹ نے دوسرے سے کہا تھا ،’’ ڈاکٹر ڈر رہا ہے‘‘۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ہم پاس کو پاس کر گئے تھے۔ مجھے ایسے لگتا تھا جیسے ہیلی کاپٹر کے پنکھے ایک طرف کی چٹانوں سے ٹکرا جائیں گے اور میرے منہ سے بیقراری کے عالم میں ’’سر‘‘ نکلا تھا۔ جسے میں نے سر کہا تھا وہ کوئی نیا میجر پائلٹ تھا۔ اس نے مجھے تسلی دی تھی کہ کچھ نہیں ہوتااور میری توجہ دوسری جانب مبذول کرانے کے لیے کہا تھا ،’’ وہ دیکھو نیچے برف میں ہرن دوڑتا ہوا جا رہا ہے‘‘۔ مجھے کوئی ہرن دکھائی نہیں دیا تھا۔ خاصی دیر کے بعد ہم دو پہاڑوں کے عین بیچ ایک جگہ اترے تھے۔ یہ شکمہ نام کی بوتل نما جگہ تھی۔ وہاں آرٹلری کے سوکھے چمرخ نوجوان لیفیٹنٹ خالد نے ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔
یہ نوجوان افسر مجھے پہلے ہی استور میں مل چکا تھا۔ اب یوں لگتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ پائلٹوں نے ڈاک اس کے حوالے کی تھی اور اس نے چائے سے ہماری تواضع کی تھی۔ ہم گل تری کو عبورکر کے آئے تھے جو خاصی کھلی وادی تھی۔ چائے پینے کے پندرہ بیس منٹ بعد ہم گل تری جا اترے تھے۔ وہاں مجھے پانچ ناردن لائٹ انفنٹری کے کمانڈر میجر عثمان قریشی اور ان کے نائب کپیٹن طارق ہمایوں درانی نے خندہ پیشانی سے قبول کیا تھا اور پائلٹ خدا حافظ کہہ کر چائے پیے بغیر واپس ہو لیے تھے۔

گل تری تقریباً 9ہزار فٹ کی بلندی پر ایک وادی میں واقع گاؤں کا نام ہے۔ گاؤں سے خاصا ہٹ کرکے فوج نے پتھروں سے اپنی رہائش گاہیں اور دفاتر بنا لیے تھے۔ دفتر دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ایک بڑا کمرہ میجر عثمان قریشی کا دفتر تھا اور چھوٹا کمرہ کیپیٹن طارق محمود درانی کا۔ یہ دونوں افسر حد درجہ اچھے تھے۔ میجر صاحب نیلی آنکھوں اور بھوری مونچھوں والے تھے جو صرف ایک لمبا قہقہہ لگاتے تھے پھر بالکل چپ ہو کر ایک مونچھ کو انگلیوں سے پکڑ کر دانتوں سے کاٹتے رہتے تھے۔ خوش خلق اور جذباتی شخص تھے اور فوج کی زیادتیوں کا شکاراورفوج سے نالاں بھی۔

طارق درانی بہت ہی زندہ نوجوان تھا۔ اس کی بھی مونچھیں بھوری ہی تھیں۔ گول چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، روشن آنکھیں ۔ اس کے چہرے پر مسلسل مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ بظاہر خالص فوجی لگتا تھا، چست اور فعال لیکن کتابیں پڑھتا تھا اور مختلف موضوعات پر اچھی بحث کر لیتا تھا۔ اُس کے لیے کشش میں غیرروایتی صنف کا عنصر زیادہ تھا۔ وہ چھوٹی عمر کے فوجی نوجوانوں کو گرسنہ نگا ہوں سے دیکھا کرتا تھا۔ مجھ سے شروع میں اُس کی دیکھنی نہیں دیکھی جاتی تھی مگر ہم آخر کاربہت ہی اچھے دوست ثابت ہوئے تھے۔ یہ دوستی آج تک چل رہی ہے۔ درانی میجر کی حیثیت سے نوکری چھوڑ کر، بچوں کے ضمن میں فرائض کی بجاآوری کے پیش نظر مختلف طرح کی ملازمتیں کرتا ہوا اب بھی گذشتہ دس برسوں سے  لندن میں انہی فرائض کی بجا آوری میں جتا ہوا ہے۔ میجر عثمان قریشی کا کوئی پتہ نہیں کہ کہاں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply