فوج میں گزرے روز وشب/5-ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں اویس کو برف باری دکھانے کے لیے گلیات لے گیا تھا لیکن اس برس وہاں برف باری کے باعث ایک خاص مقام سے آگے سڑک بند تھی۔ ہم وہیں سے پڑی ہوئی برف دیکھ کر واپس آگئے تھے۔

ٹریننگ سے فراغت سے چند روز پیشتر ہمیں حقیقی اسلحے کے استعمال کا مظاہرہ کرنا تھا۔ ہم ون ان ٹو یعنی قوم کے معالج ڈاکٹر اور قوم کے محافظ کپتان حضرات جی تھری رائفلیں ہتھیلیوں سے سہارا دیے اور کندھوں سے ٹکا کر اٹھائے ہوئے کچھ مارچ کرتے، کچھ چہل قدمی کرتے فائرنگ رینج پر پہنچے تھے۔ تین طرح کا اسلحہ استعمال کیا جانا تھا۔ جی تھری رائفل ، کندھے کے زورسے دباکر چلائی جانے والی سیمی آٹو میٹک میشن گن اور دستی بم، جی تھری رائفل تو بہر حال چلا لی تھی اگرچہ نشانہ بھی کوئی خاص نہیں تھا لیکن باقی دو ہتھیار چلانے سے میں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ مشین گن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ بعض اوقات چلاتے ہوئے عقبی دباؤ کے باعث چلانے والے کو گرا کر اُلٹ بھی سکتی ہے اور اس کی نالی کا رخ اپنے ہی لوگوں کی جانب ہو سکتا ہے۔ ہینڈ گرینیڈ استعمال کرنے کے لیے ایک خندق میں کھڑے ہوئے دونوں پاؤں پہ اچھل کر ایک سمت کارخ کرکے پن نکالتے ہی چند سیکنڈ میں اس دستی بم کو خندق سے باہر پھینکنا پڑتا تھا ۔

امکان تھا کہ پھینکنے کے دوران اوچھے پن کے باعث وہ خندق میں گر کر ہی پھٹ سکتا تھا۔ یہ دونوں خطرے مول لے کر میں اپنی اور ساتھی ڈاکٹر کپتانوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھا۔میری دیکھا دیکھی چند ایک نے مشین گن چلانے اور بہت سوں نے ہینڈ گرینڈ اچھالنے سے انکار کر دیا تھا۔ صوبیدار قاسم نے اپنی اونچی آواز میں ہم پر ایسا کرنے کے لیے بہت زور دیا تھا مگر آخر کار اسے ہار ماننا پڑی تھی۔ چند روز بعد ہمارا سینٹر میں آخری دن آپہنچا تھا۔ پریڈ گراؤنڈ میں صوبیدار قاسم نے ہمیں الوداع کہا تھا اور مجھے با لخصوص کہا تھا کہ سر آپ نے میرے بیسیوں بار کہنے پر بھی اپنے بال فوجی انداز میں نہیں کٹوائے ، میں آپ کی ہمت اور ثابت قدمی کی داد دیتا ہوں۔ میں نے کہا تھا ’’ صاحب یہ نہ تو ہمت کا مسئلہ تھا اور نہ ہی ثابت قدمی کا۔ بس دل نہیں کیا اور نہیں کٹوائے‘‘۔

’’ سر آپ کی مرضی مگر فوج میں ڈسپلن چلتا ہے‘‘ اُ س نے کہا تھا۔ ’’ میرا اپنا ڈسپلن ہے صاحب‘‘ میں نے ہنس کر کہا تھا۔ وہ بھی ہنس پڑا تھا اس بیچارے حکم کے غلام کو کیاپتہ تھا کہ آئندہ فوج کے ساتھ میں کیا سلوک کرنے والا ہوں۔

لسٹ لگ گئی تھی۔ سبھی کی تعیناتی اچھی اچھی جگہوں پہ ہوئی تھی ۔ بس قاضی اقبال کو بلوچستا ن بھیجا گیا تھا اور مجھے 148فیلڈ ایمبولینس میں جی ڈی ایم او(جنرل ڈیوٹی میڈیکل آفیسر) تعینات کیا گیا تھا۔ یہ یونٹ گلگت میں کہیں تھی۔ اوہ! تو میجر اقبال نے صحیح کہا تھا۔ لوگوں نے بہت ڈرایا تھاکہ تمہاری پوسٹنگ اچھی جگہ پر نہیں ہوئی۔ فرقان سے مشورہ کیاتھا ۔ اُس نے بتایا تھا کہ فوج میں پہلے حکم کی تعمیل کرنی ہوتی ہے ، پھر شکایت کی جاتی ہے ۔ وہ بھی درخواست کی صورت میں نہیں بلکہ ڈیمی آفیشل لیٹر لکھ کر، جس پر کارروائی کم ہی ہوتی ہے ۔میری تو فوج میں بسم ا للہ ہی غلط ہو رہی تھی۔ بوریا بستر باندھا ، گھر جانے کی تیاری کرتے وقت سوچا کہ فوج کا پہلا فائد ہ تو اٹھالیا جائے۔پی آئی اے نے ،فوجی افسروں کے لیے ٹکٹ میں 50فیصد کی رعایت نئی نئی شروع کی تھی۔ ایبٹ آباد میں پی آئی اے کے برانچ آفس سے ہی راولپنڈی تاملتان ٹکٹ بک کرایا تھا۔فرقان اور ریڈیا لوجسٹ کو الوداع کہہ کر راول پنڈی کی راہ لی تھی۔

ٹریننگ کی مشقوں سے بچنے کی پاداش میں ایک بار پہلے بھی راولپنڈی آیا تھا۔ مجھے خاندانی مرض خونی بواسیر لاحق رہی ہے۔ بعض اوقات یہ مرض بڑھ جاتا ہے۔ ایبٹ آبا د میں آب وہوا ، ماحول اور روٹین کی تبدیلی کے باعث مجھے خاصی تکلیف ہو گئی تھی۔ سی ایم ایچ ایبٹ آباد میں سرجن کو دکھایا۔ معائنے کا عمل اچھا بھلا اذیت ناک تھا۔ ایک دو دن مجھے وہیں آفیسر وارڈ میں رکھا گیا تھا پھر ملٹری ہسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا گیا تھا ۔صرف تین روزکے لیے آفیسر وارڈ میں رہا تھا۔

ڈیوٹی افسر سے دعا سلام ہو گئی تھی۔ میں ان کے دفتر میں گپ شپ لگانے اور سگریٹ نوشی کے لیے بیٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک روز میجر صاحب (ڈیوٹی آفیسر) کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ گاؤن پہنے ایک بڑی عمر کے افسر وہاں آ دھمکے تھے ،ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر تھوڑی دیر بعد مجھے کہاتھا ’’ ایک سوٹا تولگواؤ‘‘۔ محترم غالباً بریگیڈیر تھے۔ آن ڈیوٹی تھے یاریٹائرڈ معلوم نہیں۔ اگر مانگناہی تھا تو ایک سگریٹ مانگ لیتے۔ کش کی بجائے سوٹا کہنا اور وہ بھی ایک، مجھے لگاتھا کہ دال میں کالا ہے۔

میں نے ’’ سوٹا ‘‘ دینے سے پہلے مناسب جاناکہ ان سے پوچھ لوں کہ انہیں کیا مرض ہے۔ انہوں نے جب عارضہ قلب بتایا تو میں نے یہ کہہ کر کہ سر میں بھی ڈاکٹر ہوں اور اس بداحتیاطی کی اجازت نہیں دیتا، صاف انکار کر دیا تھا۔ انہیں بڑا صدمہ ہوا تھا اور انہوں نے پرانے فوجی افسروں کا زبان زد عام فقرہ بولا تھا’’ سگریٹ نوشی اور شراب نوشی کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہے‘‘ اتنے میں میجر صاحب آگئے تھے اور وہ صاحب انہیں دیکھتے ہی نودو گیارہ ہوگئے تھے۔ میجر نے مسکرا کر بتایا تھا کہ یہ صاحب تاک میں ہوتے ہیں کہ اِدھر ادھر ہو جاؤں تو کسی بھی سگریٹ نوش افسر سے ایک آدھ کش ادھا رلے لیں۔ عادت بھی کیا بری چیز ہوتی ہے۔ تیسرے روز میرا آپریشن تھا۔ رات کو آپریشن کے لیے جسم کی صفائی کی گئی تھی یعنی انیما دیا گیا تھا۔ اگلے روز بریگیڈئیر محمود نے جو بعد میں جنرل بھی ہوئے تھے،میری مکمّل بے ہوشی کی حالت میں ایسا عمل جراحی کیاتھا کہ جب ہوش میں آیا تو میری شلوار خون سے تر تھی لیکن مجھے اگلے روز صبح ہی ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا تاکہ میں شام تک ایبٹ آباد رپورٹ کروں۔ میں ہسپتال سے فارغ ہوکر اسلام آباد یونیورسٹی کے ہوسٹل میں مقیم اپنے ملتان کے دوست جبّار بھٹی سے ملنے گیا تھا تو کمزوری کے باعث میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ جیری کو بہت تشویش ہوئی تھی ۔جب اسے حقیقت حال کاعلم ہوا تواس نے میرا ٹھٹھہ بھی خوب اڑایا تھا ۔ میں نے اسے یہ کہہ کر چپ کرایا تھا کہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔ مقعد کے پٹھوں کی شدید اینٹھن کو کم کرنے کے لیے ایسا ہی کرنا پڑتا ہے۔ تم اس کو جو چاہے کہہ لو۔ پھر میں نے ایبٹ آباد جا کرشام کو ،اپنی آمد درج کرادی تھی۔

لیکن اِس بارتوایبٹ آباد واپس نہ آنے کے لے راولپنڈی جانا تھا۔ اسی روز دوپہر کو فلائٹ تھی۔ زندگی میں ہوائی جہاز کا پہلا سفر تھا۔ جہاز بھی فوکر تھا۔ میرے ہاتھ میں چائی کی پیالی تھی۔ لاہور کے راستے میں اتنے جھٹکے لگنے شروع ہوئے تھے کہ پیالی چھلکتے چھلکتے بچی تھی اور میں بہت گھبرا گیا تھا۔ میری ساتھ والی نشت پر بیٹھے ہوئے بڑی عمر والے مرد نے پیالی میرے ہاتھ سے لے لی تھی اور مجھے تسلی دی تھی۔ وہ اسلام آباد کے ہوٹل شہرزاد کے منیجر تھے۔ بعد کا سفر خوشگوار رہا تھا البتہ وہ صاحب لاہور میں ہی  اُتر گئے تھے۔

واپسی پر گھر پہنچ کر معلوم ہوا تھا کہ میں دو چیزیں وہیں بھول آیا ہوں ایک تو قلمی محبوبہ کا بھجوایا ہوا تحفہ اور دوسرے دوستوں کے بارے میں اور دوسری آزاد نظموں کا مجموعہ جسے میں نے امتحان سے فراغت کے دنوں میں صاف کرکے لکھا تھا ، جس میں میری بہن خالدہ نے میری مدد کی تھی۔ چند روز بھی واپس پنڈی پہنچ کر میں نے فرقان سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو پتہ چلا تھا کہ میرے سابق بیٹ مین گلاب شاہ کو کسی دور کےصحرا میں پوسٹ کردیاگیا ہے۔ فرقان اس کے بارے میں مزید کچھ معلوم نہیں کرسکا تھا۔ یہ میرے لیے فوج میں شمولیت کے باعث لگنے والا پہلا دھچکہ تھا

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply